تحاریک میں خواتین کا کردار – میرین بلوچ

614

تحاریک میں خواتین کا کردار

تحریر: میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تحاریک دیکھیں تو ہمیں ان میں مصروفِ عمل بہت سی خواتین ملیں گی، جو آج کی تاریخ میں کوئی ذی شعور انسان عقلمند ,فلاسفر, ادیب و دانشور خواتین کی سماجی, سیاسی, معاشی و اقتصادی اور ثقافتی تبدیلی و ترقی کے کردار و عمل سے انکار نہیں کر سکتا کیونکہ مردوں کے برابر دنیا کی نصف آبادی خواتین کی بھی ہے۔

اگر ہم دیکھیں ویتنام پر فرانس کا قبضہ ہو یا امریکہ کی، دونوں کے خلاف جدوجہد میں عورتوں کا کردار نہایت اہم رہا ہے جنکی وجہ سے آج ویتنام ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے. کردستان میں کرد خواتین کی بات کریں جنکی بڑی تعداد آزادی کی تحریک میں شامل ہیں، جو مردوں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں تحریک کی کمان سنبھالی ہوئی ہیں اور اپنے گوریلوں کی گوریلا وار حملے کی تربیت بہتر انداز سے کررہی ہیں اور دشمن پر آسانی سے حملہ کرکے کامیاب ہو رہے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد میں خواتین کی لمبی فہرستیں ہیں، فلسطین میں لیلیٰ خالد، الجزائر میں جمیلہ، ہندوستان میں اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی، کردستان میں سمیرم، برما میں سان سوچی, بنگلہ دیش میں حسینہ واجد جنہوں نے وطن کیلئے ہر قربانی دی۔ جو آج کی خواتین کی جدوجہد کیلئے مشعل راہ ہیں۔ جنہوں نے سامراجی قبضہ گیریت، معاشی و سماجی ناانصافی اور سیاسی ظلم و استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کی ہے۔

اگر ہم اسماء کی بات کریں وہ بھی ایک عورت تھی جو 1985 میں مصر میں پیدا ہوئے، وہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والی تھی۔ گریجویشن کے دوران اُنکی عمر 26سال کی تھی جب اکیسویں صدی کے سب سے بڑے انقلاب کی بنیاد بن گئی، اسماء کئی بار ناکام ہوا لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری اور انہوں نے اپنی جدوجہد برقرار رکھا اور آخر کار کامیاب ہوا.

ہم کولمبیا کی بات کریں، تو اُس زمانے میں کولمبیا پر اسپین نےقبضہ کیا تو سب سے پہلے اٹھنے والی 1539 میں “گاٹیتانا” نامی عورت ہی تھی. اگر ہم امریکہ کی بات کریں تو آزادی کی جنگ میں عورتوں کا ایک بڑا کردار تھا، جسطرح ,,ایبی گیل ایڈمز”ہو یا کیتھرین، یہ بھی عورتیں تھیں، جنہوں نے دشمن کے خلاف بغاوت کیا، یا ہم “ھیرٹ بٹمن “کی بات کریں تو اُنکی تحریک میں بڑا کردار تھا۔ نینسی ھارٹ, ایک بہادر سپاہی تھی، جو گھریلو خاتون تھی اور بعد میں انقلاب میں قدم رکھا، دشمن نے اُن کو بہت تشدد کا نشانہ بنایا اور جب روٹی پکانے کو کہا، تو وہ ایک کم عمر کی لڑکی تھی لیکن ہوشیاری کے ساتھ دشمن کا بندوق چھین کر ان پر حملہ کردیا، جس میں 6 فوجی مارے گئے اور بعد میں اپنی فوج میں بھرتی ہوئی.

کیوبا میں رہنے والی ولمالوسیلا بھی ایک عورت تھی، انہیں تحریک میں فیدل کاسترو اور ڈاکٹر چے گویرا کی طرح دیکھا جاتا تھا. جو ایک کیمیکل انجینیر تھیں، وہ عورتوں میں سے پہلی انقلابی عورت تھی.

روس میں رہنے والی”نزژرکروپسکایا” کا روس کے انقلاب میں ایک بڑا کردار تھا.اگر ہم آزادی ہند کو جانیں تو ہمیں بہت سی مثالیں عورتوں کی ملتیں ہیں، جو تحریک سے جڑی ہوئی ہیں 1857 سے لیکر 1948 تک ہندوستان کے عورتوں نے کئی طرح کے کردار ادا کیئے، جو نہ صرف قابل تحسین ہیں، بلکہ قابل تقلید بھی۔ جنہوں نے بھر پور جدوجہد کیا۔ بھیکاجی کاما کی بات کریں یا ارونا آصف علی ہو, سرجنی نائیڈو ہو یا بیگم حضرت محل ہو یا رانی لکشمی بائی کی بات کریں جنکی قربانیاں آج سورج بن کر چمک رہیں ہیں.

بلوچ کی تحریکوں میں دیکھیں تو ہمیں بہت سے کارنامے ملتے ہیں، خواتین کا ایک بڑا کردار ہے، دادشاہ کی بہن خاتون بی بی اور چاکر کی بہن بانڑی کی دشمن کے خلاف محاذ جنگ پر لڑائی ایک عظیم مثال ہے۔ آج کی آزادی کی جدوجہد میں کئی بانڑی اور خاتون بی بی شامل ہیں، دشمن کے خلاف کل کی طرح آج بھی بلوچ خواتین نے اسی روایت کو تسلسل کے ساتھ برقرار رکھا ہے، جو دشمن کے خلاف آج بھی بغاوت کررہے ہیں، جس کی مثال پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ خواتین کے جلسہ جلوسوں میں شرکت، احتجاجی پروگراموں اور ریلی مظاہروں میں دھرنا، اسٹیڈی سرکل, سمینار اور ورکشاپییں منعقد کروانا خواتین کی سیاسی تربیت اور ذہنی نشوونما کرنا، ان کو آزادی کی تحریک کا اہم حصہ بنانا، ایک عظیم مثال ہے.

دن دھاڑے ریاستی فوج نے شہروں، گلی کوچوں اور گاؤں میں فضائی اور زمینی حملے کرکے خواتین, بزرگوں, کمسن بچوں اور بچیوں کو گہری نیند میں بے دردی سے شہید کیا ہے اور گھروں کو جلایا جا رہا ہے تاکہ ان کے دلوں میں خوف پیدا ہو جائے اور آزادی کی سرگرمیوں سے دور رہیں، ان اوچھے ہتھکنڈوں سے نہ بلوچ خواتین اپنی سرگرمیوں سے دور رہیں گی نا ریاست انہیں رکھ پائے گی. بلکہ ریاست کے ان حربوں سے ان کے دلوں میں آزادی کیلئے مزید جزبہ اور محبت پیدا ہوتی ہے.

بلوچ معاشرے میں بلوچ خواتین کو سو قرآن کا عزت دیا جاتا ہے لیکن آج بہن زرینہ مری بھی ایک عورت تھی جو اپنی وطن کی آزادی کیلئے آج ریاستی فوج کے ٹارچر سیلوں میں بند ہے یا بانک کریمہ کی بات کریں آج بلوچ تحریک میں اُنکا ایک بڑا کردار ہے، جو ہر وقت دشمن کے خلاف آواز اٹھاتی رہی اور آزادی کی راہ میں آج دشمن کے سامنے ایک پہاڑ بن گئی ہے.

بلوچستان میں بہت سی خواتین آج تحریک میں بڑی مثالیں ہیں، جسطرح بانک بانڑی ہو یا بی بی گل ہو یا ماں یاسمین ہو یا فرزانہ مجید یا اور کوئی، جو اپنی آزادی کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں. بانک حلیمہ بھی ایک عورت تھی، یوسف جان اور ظفر جان جب جنگ کرتے کرتے شھید ہو جاتے ہیں، بعد میں بانک حلیمہ بندوق اٹھا کر جنگ شروع کرتی ہے اور اپنے بدن پر گولیاں سجا کر اپنے دوپٹہ کو پھاڑ کر Bleeding کو روکتی ہے اور آزاد بلوچستان کا نعرہ لگا کر جنگ شروع کرتی ہے.قربان بلوچ قوم کے ایسے خواتین پر جو سینے میں 35سے زائد گولیاں سجا کر ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتی ہیں.

جس طرح تحریک میں فرزانہ مجید جو دنیا کی پہلی عورت ہیں جو 2800 کلو میٹر پیدل مارچ طے کرتی ہے اور دشمن کے دھمکیوں کے باوجود خوف کو ٹھکرا کر اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہے.آج کچھ تنک ذہن والے یہ سوچتے ہیں کہ فرزانہ نے صرف ایک بھائی کی خاطر 2800 کلو میٹر پیدل مارچ طے کیا. میرے پیارے لوگ، یہ ایک بھائی کا درد نہیں ہے بلکہ 18000جو زندانوں (جیلوں) میں بند ہیں اُنہی کا درد ہے. ہزاروں شہدا ک درد اُن کے دل میں تھی، اُن کو ایک عورت اور بلوچ کا درد اتھا، اُن کو غلامی کا درد تھا، انسانیت کا درد اور قوم کا درد اُن کے دل میں تھی، جنہوں نے 2800 کلو میٹر کوئٹہ تا کراچی اور کراچی تا اسلام آباد پیدل مارچ طے کیا.

جسطرح شہید ریحان کی ماں یاسمین اپنے لخت جگر کا ٹکڑا اپنے مادر وطن پر قربان کر دیتا ہے کہ جاؤ بیٹا اپنے مادر وطن پر قربان رہو، آج میں ماں یاسمین کو دیکھتی ہوں تو مجھے ”احمد بن بیلا “یاد آتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب مائیں اپنے بچوں سے کہیں کہ جاؤ بیٹا جاؤ آزادی کی جنگ لڑو تو وہ قوم زیادہ عرصے تک محکوم نہیں رہ سکتا اور مجھے الجزائر کی آزادی کا پختہ یقین اُس دن ہوا، جب الجزائری ماؤں نے اپنے لخت جگروں سے کہا جاؤ بیٹا آزادی کی جنگ لڑو۔