بے خودی، مار دیگی
تحریر: نگار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
خاموشی یہ چیز ہے کیا؟ جب ایک فرد کی ہو تو ہمت بن جاتی ہے لیکن جب ایک قوم کی ہو تو پورےقوم کے لیے غلامی کی زنجیر بن جاتی ہے۔ کسی کی خاموشی میں ایک درد چھپا ہوتا تو کسی کی خاموشی میں ایک خوف۔
ظالم کے ظلم کے ڈر سے خاموش ہوکر بندہ وقتی طور پر زندہ تو رہ سکتا ہے پر عمر بھر کی غلامی ساتھ دے جاتاہے پھر چاے وہ غلامی ایک فرد کی ہو یا پھر پورے قوم کی۔
2005 سے لے کر 2013 تک جو قیامت خضدار کے شہر میں بلوچ عوام پے گذری اسے بھلانا آسان بات نہیں۔ نواب اکبر خان بکٹی کے شہادت کےبعد مانو خضدار میں ایک آگ لگ گئی اور اس آگ کے ایندھن خضدار کے بلوچ عوام کو بنایا گیا۔
مجھے یاد ہے اس وقت پاکستانی فورسز نے بلوچ عوام کے لیئے گھروں سے نکلنا محال بنا دیا تھا گھروں میں گھس کر عورتوں بچوں اور بھوڑں کو تشدد کا نشانہ بنانا انکا مشغلہ بن چکا تھا، بس جہاں کہیں ان کو کوئی بلوچ مل جاتا فورسز والے اس کو دہشت گرد قرار دے کر اس کو شہید کرتے تھے یا پھر لاپتا کر دیتے۔ یا تو لاپتہ کرنے کے بعد ان جوانوں کو مختلف اذیتیں دے کر ان کو شہید کر کے کسی بھی سڑک یا نہر یا کسی کاشوم کے نیچے پھینک دیتے۔
ان دنوں فورسز ٹارگٹ کیلنگ سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے استادوں کو سرے راہ چلتے ہوئے مارنا جیسے سر رزاق صاحب۔
طالب علموں کو گھروں سے اغوا کر کے پھر ان کو شہید کرنا جیسے صدام بلوچ، زوھیب بلوچ۔ اور لاپتہ کرنا جیسےغفار بلوچ جن کو لا پتہ ہوے 8سال ہو رہے ہہیں۔ جنکے والد آخر دم تک اپنے بیٹے کے انتظار میں تھے کہ وہ آئیگا پر مرتے دم تک ان کی انتظار ختم نہیں ہوئی اور مرتے دم تک وہ یہ الفاظ کہتے تھے غفار تیرے انتظار نے مھجے تو مار ڈالا ختم کر دیا۔ اور بھی بہت سے جوان بلوچ بھائی ہیں جنکے ذکر سے میں قاصر ہوں پر میں ان کو سلام کرتی ہوں انکی بہادری اور ان کی جرت کو دس وار سلام۔
خضدار میں اتنا سب ہونے کے باجود یہاں کے لوگ آج خاموش ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہیں ہے یہاں کے خود غرض لوگ سب بھول گئے، اپنے عورتوں کی بیعزتی بچوں اور بھوڑوں پے ہونے والے ظلم، اپنے بھائیوں کی شہادت، سب بھول کر پاکستان اور فوج کے غلام بن گئے ہیں۔
ان میں وہ لوگ بھی ہیں، جو کل تک غلامی کے زندگی کو پسند نہیں کرتے تھے اور اس ذیادتی کے خلاف تھے آج وہی لوگ خود غرض بن کر پاکستان کے پھٹو بن گئے ہیں۔
جب کبھی میری ایسے لوگوں سے وطن کے آزادی کے متعلق بات ہوتی ہے تو سامنے سے یہی جواب آتا ھے کہ آزادی سے ہمیں کیا ملے گا، اگر آج ہم خاموش ہیں تو کم از کم زندہ تو ہیں یا اپنے گھروں میں محفوظ ہیں اگر آج ہم کچھ بولیں گے کل ہماری لاش کسی سڑک پر پڑی ہو گی یا ہم کسی قید خانے میں اپنی آزادی کی دعا کر رے ہوں گے۔ یا تو پھر کچھ بلوچ بھائیوں کی تو بلکل راہ بدل گئی ھے، انہیں یہ لگتا ہے کہ یہ جو آزادی کے لئے آواز بلند کر کے ہم خودارادیت کے راہ پے چلے ہیں یہ غلط ہے اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو خود ایک وقت میں بہ آواذ بلندکر کے آزادی کے حق میں تھے آج ان لوگوں کو موت کے خوف اور چند روپوں کی لالچ نے خاموش کر دیا اور ان کی سوچ بدل دی یہاں لوگ بلکل خود غرض بن گے ہیں۔
آج ایسا لگتا ہے یہ شہر ایک قبرستان بن گیا ہے،جہاں لوگ سانس تو لے رےہیں، پر زندہ نہیں ہیں، جیسے اس کی اس خاموشی کو توڑنے کےلیے کسی کی چیخ و پکار کی ضرورت ہے جو ان کو یہ تو بتا دے کہ آج ہماری آزادی کے بجھتے ہوئےچراغ کو ہمارے ساتھ اور آواز کی ضرورت ہے یاد رکھنا دینا میں ہر غلطی کی تلافی ہوتی ہیں بھٹکے ہوے قافلے صبح کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کر سکتی ہیں لیکن ایک قوم کے اجتمائی گناہ کا کوئی کفارہ نہیں ہوتا۔ کچھ بھٹکے ہوے قافلوں کےلیے ایک رات ایسی بھی آتی ہے جس کے لیے کوئی روشن صبح نہیں ہوتی۔
اور ایک قوم کے لیے آخری گناہ یہ ہے جب وہ ظلم کے خلاف لڑنے کے حق سے دستبردارہو جاتا ہے اور بد قسمتی سے آج بلوچ قوم اس گناہ کا مرتکب ہو چکا ہے اور اس قوم کے حکمرانوں اور خود غرض لوگوں نے اپنے ہاتوں سے ہی وہ چراغ بجھا دیئے ہیں، جن سے ہم اپنے آنے والے نسلوں کو سلامتی اور آزادی کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔
اگر آج اس خود غرض عوام کو یہ لگتا ہے کہ ہم بڑے بن کر پاکستان جیسے بھیڑیے کے ہمسائیگی اور سرپرستی میں ذندہ رہ سکتے ہے تو اس غلط فہمی کو اپنے دل سے نکال دو ۔
اگر آج ہم خود کو بلوچ کہہ سکتے ہیں تو یہ بدولت ان بلوچ بھائیوں کی جو پہاڑوں میں رہ کر بلوچ قوم کی عزت اوربقاء کی جنگ لڑ رے ہیں، جس دن ان لوگوں نے بھی ہماری طرح خود غرضی کا راستہ اختیار کیا اس وقت بلوچ وطن سے بلوچوں کا نام و نشان نہیں رہے گا اور اس دن سےاس قوم کے مصائب کی نا ختم ہونے والی رات شروع ہو جائے گی۔
اگر ہم اپنے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھےاور اپنے لوگوں پر ہوتے ہوے ظلم کو محسوس کریں تو ہمیں پتا چلے گا کہ ہم آج اس جہنم کے دروازے پر دستک دے رے ہیں، جو صرف ذلت اور گمراہی کی آخری منزل ہے اور اگر اس جہنم کی آگ میں صرف ہم جلتے تو الگ بات ہے پر حقیقت یہ ہے کہ اس جہنم کی آگ میں صرف ہم نہیں بلکہ ہماری آنے والی تمام نسلیں بھی برسوں شاھد صدیوں تک اس جہنم کی آگ کی ایندھن بنتی رہ گیں۔
اگر آج ہم صرف زندہ رہنے کے لئے پاکستان کی غلامی قبول کر لیں تو بھی ہمارے بیٹے، پوتے اس غلامی کی زنجیروں کو اپنا زیور سمجھنے کے باوجود بھی ان پاکستانیوں سے زندہ رہنے کا حق منوا نہیں سکین گے بلکہ یہ لوگ ہمیں ذندہ رہنے کا حق دار ہی نہیں سمجھیں گے ۔
آج ہمارے لیئے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کے ساتھ دیں جنھوں نے اپنے خوبصورت زندگی کو چھوڑ کر آج اس قوم کے خوار مظلوم عوام کے لیے اپنے آپ کو قربان کر رے ہیں۔ انھوں نے ذلت کی زندگی کو ٹھکرا کر عزت کے موت کو ترجیح دی ہے تو صرف اس قوم کے لیئے۔ اگر آج ہم نے انکا ساتھ نہیں دیا تو آنے والی ہماری نسلیں ہمارے گھروں کے کھنڈرات دیکھ کر یہ کہیں گے کہ یہ ویرانے اس بد نصیب قوم کی نشانی ہے جس کے رہنماوؤں نے ان کو ہر وقت جگانے کی کوشش کی لیکن اس کے خود غرض عوام نے اپنے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی یہ اس قوم کا قبرستان ہے جس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا گلا گھونٹ دیا تھا غلامی کی زندگی اختیار کر کے ۔
میں اپنے ہر بلوچ بھائی سے یہی کہوں گی اس وقت کے آنے سے پہلے اپنی آنکھیں کھولو، جب اپنی بربادی کی وجہ ہم خود بنیں اور اس وقت پچھتاوے کے لیئے بھی ہمارے پاس وقت نہیں ہوگا۔
آخر میں صرف اتنا ہی کھوں گی کہ مرنا تو سب کو ہے ایک ناایک دن تو اس سے بہتر ہے ہم اس خاموشی کو تھوڑ دیں جو ایک قوم کی غلامی کا سبب بن جائے اور اپنی آواذ بلند کریں اس ظلم کے خلاف ۔
اگر جینا ہے تو ان لوگوں کی طرح جیو جو پہاڑوں میں رہ کر بھی فخر کے مقام پر ہیں۔
اگر مرناہے تو ایسے مرو جیسے صدا زبان پر زندہ رہ کر، شہید ریحان کی طرح۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔