پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بلوچستان(رجسٹرڈ) کے رہنماؤں محمد رمضان اچکزئی، خان زمان، بشیر احمد، حاجی عزیزاللہ، عبدالمعروف آزاد، محمدعمرجتک،محمد رفیق لہڑی، محمد یوسف کاکڑ، عابد بٹ اوردیگر نے ایک مشترکہ اخباری بیان کے ذریعے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اور چیف سیکریٹری اختر نذیر کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ صوبائی بیوروکریسی کے ہر ماہ تبادلوں سے محکموں کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر دوسرے مہینے سیکریٹری محنت کے تبدیل ہونے سے مرکزی سطح پر بنے ہوئے تقریباً72 لیبر قوانین میں سے صرف1 قانون بلوچستان انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ2015-ء صوبائی اسمبلی سے پاس ہوا ہے اور اس قانون میں بھی اسٹیک ہولڈرز باالخصوص محنت کشوں کے حقوق کاتحفظ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے انیتا تراب کیس اور عدالت عالیہ بلوچستان نے منیر احمد کاکڑ ایڈووکیٹ کیس میں واضح فیصلے دیے ہیں کہ سرکاری افسروں کے تبادلے پالیسی اور میرٹ پر ہونے چاہییں لیکن حکومت بلوچستان عدالتی فیصلو ں کی پرواہ نہیں کررہی ہے اس طرح کے احکامات کا چیف جسٹس بلوچستان خود نوٹس لیں تاکہ مطمئن بیورو کریسی عوام اور غریب محنت کشوں کے مسائل حل کرسکے۔کنفیڈریشن کے رہنماؤں نے سیکریٹری صحت کے تبادلے کو بھی قبل از وقت قرار دیا اور کہا کہ سیکریٹری صحت نے عوام کیلئے پا لیسی بنانے میں محنت سے کام کیا تھا اور انہوں نے مزدوروں کے ورکرز ویلفیئر بورڈ کے 5ہسپتالوں کو بھی بروئے کار لانے میں دلچسپی لی تھی لیکن راتوں رات ان تبادلوں نے تمام کاموں پر پانی پھیر دیا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چیف سیکریٹری اور پوسٹ پر کام کرنے والے سیکر ٹریز کو باالترتیب 2 لاکھ اور ڈیڑھ ، ڈیڑھ لاکھ روپے الاؤنس ملتا ہے لیکن جب وہ سیکریٹری او ایس ڈی بن جاتا ہے تو اسے یہ الاؤنس نہیں ملتا یہی وجہ ہے کہ او ایس ڈی سیکریٹری سفارش لگا کر کسی محکمے کا سیکریٹری بننے کی کوشش کرتا ہے اورسفارشی افسران سے یہ امید رکھنا کہ وہ محکمے کے ذریعے عوام کی خدمت کریں گے غلط فہمی پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکریٹری ایریگیشن اس سے پیشتر کئی پوسٹوں پر تبدیل ہوئے اوراب وا پس آکر انہوں نے اور ان کے ساتھی افسروں نے ائر پورٹ روڈ سنگین ہاؤسنگ اسکیم کے ساتھ ساڑھے تین ایکڑ سے زیادہ کروڑوں روپے کی زمین پر قبضہ جمانے کیلئے پاکٹ یونین کا استعمال کیا اور اس وقت یہ کروڑوں روپے کی زمین ہتھیائی جارہی ہے۔انہوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور چیف سیکریٹری سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ سیکریٹری ایریگیشن، ان کے دست راست افسران اور پاکٹ یونین کے برائے نام عہد یداروں کی جانب سے زمین پر قبضے کا نوٹس لیں اور اس کیس کو نیب، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کے سپرد کرکے آئندہ ایسی لوٹ مار کی ہر کو شش کو ناممکن بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پیشترڈیرہ مراد جمالی کے مقام پر ایریگیشن کی زمین پہلے قبضہ کی گئی اور شور شرابے کے بعد اسے پارک بنادیا گیا جبکہ تارو چوک پشتون آبادکوئٹہ میں ایریگیشن کی بہت بڑی جگہ پر دکانیں اور رہائشی مکانات بنادیے گئے ہیں، اس کے علاوہ ایریگیشن ڈپارٹمنٹ میں گزشتہ دو سالوں میں کئی غیرقانونی بھرتیاں ہوئی اور غیر قانونی طور پر ایکٹنگ پرموشنز کرکے قانون کی خلاف ورزی اور کرپشن کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ملکی سطح پر قائد حزب اختلاف شہباز شریف گرفتار ہوسکتا ہے لیکن بلوچستان میں لوٹ مار کا بازار گرم ہونے کے باوجود کسی بڑے لٹیرے پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔کنفیڈریشن کے رہنماؤں نے پی ایم جی، ڈاکخانہ جات، کیو ڈی اے اور بی ڈی اے کے مزدوروں کے مسائل کے حل پربھی زور دیا اور کہا کہ حکومت بلوچستان سی بی اے یونینز کے ساتھ مل کر بات چیت کے ذریعے مسا ئل حل کرے بصورت دیگر کنفیڈریشن پورے بلوچستان میں مزدوروں کے حقوق کی حصولیابی کیلئے بھرپور احتجاج کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
انہوں نے اکاؤنٹنٹ جنرل آفس میں بروکروں اور اندرونی کرپٹ مافیا کی وجہ سے ملازمین کو درپیش مسائل کا بھی نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔