بین الاقوامی کھیل اور بلوچستان  – انور ساجدی   

711

بین الاقوامی کھیل اور بلوچستان 

انور ساجدی

دی بلوچستان پوسٹ  

طویل عرصے کے بعد بلکہ وزرات اعلیٰ سے سبکدوشی کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کوئٹہ کے دفتر میں آئے ، ڈاکٹر صاحب وزارت اعلیٰ چھن جانے اور حالیہ الیکشن میں جبری شکست کے بعد ان صدمات سے نکل آئے ، لیکن ان کی جماعت بدستور صدمات سے دوچار ہے، ان کی آمد کا مقصد میرے ایک حالیہ کالم پر اعتراض اٹھانا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹر مالک کے دور میں وفاقی حکومت نے ڈام کی زمینیں متحدہ عرب امارات کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب یہ سمجھے کہ کالم میں یہ لکھا ہے کہ یہ زمینیں ڈاکٹر مالک نے دی تھیں ، تحریر میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے، صرف یہ ذکر ہے کہ یہ ان کے دور کا واقعہ ہے جبکہ ڈاکٹر مالک کی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں، ڈاکٹر صاحب نے اگرچہ اظہار نہیں کیا لیکن وہ بلوچستان کی انتہائی پیچیدہ پر اسرار اور محر العقول صورتحال سے پریشان اور مایوس تھے۔

میں کافی عرصے سے ان سے سیاسی موضوعات پر گفتگو سے گریز کرتا ہوں ، ان سے تین نسلوں کا تعلق ذاتی اور خاندانی نوعیت کا ہے لیکن وہ ڈھائی سالہ دور حکومت میں بعض اہم معاملات کے عینی شاہد ہیں ، ریکوڈک ہو کہ گوادر کی زمینوں کا لوٹ سیل سب تفصیلات ان کے سامنے گزری ہیں ، ڈاکٹر صاحب نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے گوادر کی ہزاروں ایکٹر اراضی کی سفارشی الاٹمنٹ منسوخ کرکے انہیں بچایا ، ریکوڈک کے بارے میں انہوں نے جو کہا وہ میں نے صحیح طریقے سے سنا نہیں، انہوں نے اس بارے میں جو کچھ کیا اچھا کیا ہوگا لیکن سونے کی یہ کان وہ واحد وسیلہ ہے جسے بیچنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ اس کے بغیر ریاست فوری طور پر معاشی دیوالیہ پن سے نہیں نکل سکتی ، ریکوڈک بیچنے اور قرضوں کے حصول کے سواء اور کوئی راستہ نہیں سعودی عرب کے مسئلہ پر چین نے اچھی خاصی گوشمالی کردی۔

غیر ملکی ابلاغ نے خبر دی ہے کہ چین نے پاکستان کے اس عذر کو مسترد کردیا ہے کہ مالی زبوں حالی کی وجہ سے پاکستان آٹھ اشاریہ ایک بلین ڈالر کا ریلوے ٹریک نہیں بچا سکتا ، لیکن چین کا اصرار ہے کہ یہ کام ہر قیمت پر کرنا ہوگا۔ ایک غیر ملکی اطلاع کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر کی پیشکش پر چین نے یہ شرط پیش کی ہے کہ اگر مکمل ملکیت دی جائے تو وہ ڈیم تعمیر کردے گا، اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر چین ایک ایک چیز کی ملکیت طلب کرنے لگے تو پھر بچے گا کیا۔

چند روز قبل چین کے سفیر نے کوئٹہ میں ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں تقریب کے اختتام تک مہمانوں کو کھڑا رکھا گیا ، اس سے 1757ء کی جنگ پلاسی کے بعد کلکتہ میں ہونے والی ایک تقریب کی یاد تازہ ہوگئی ، جب لارڈ کلائیوکے حکم پر راتوں رات بنگالی معتبرین کی ایک فہرست بنائی گئی ، یہ برصغیر میں انگریزوں کی بنائی گئی پہلی مصنوعی اور جعلی اشرافیہ تھی جب تقریب کا آغاز ہوا تو لارڈ صاحب کرسی پر براجمان تھے جبکہ تمام جعلی معتبرین کھڑے تھے کیونکہ انہیں بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی ، 1857کی عذر کے بعد جب پورے ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو کمپنی بہادر کی جگہ انگریزی سلطنت خود آگئی اور اس نے وائسرے کا تقرر کیا، وائسرے نے ہر پروٹوکول اور ترتیب بدل دیا ، اس نے سالانہ دربار کا سلسلہ شروع کردیا ، جس میں والیان ریاست بڑے سرداروں اور فیوڈل لارڈز کو مدعو کیا جاتا تھا، اس دربار میں بھی جعلی اشرافیہ کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی ، بعض لوگ تو پہلے اس شک کا اظہار کررہے ہیں کہ چین مشرق کا استعمار بن چکا ہے ، اور وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا روپ اختیار کررہا ہے یہ بات غلط ہے چین کسی کمپنی کے زریعے نہیں بلکہ براہ راست معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرئے گا، ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے سفیر کو اعلانیہ یا غیر اعلانیہ وائسرئے کا درجہ دیدے اگرچہ چین اور پاکستان ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں لیکن سی پیک سے پہلے وہ ایک دوسرے کو اتنی گہرائی سے نہیں جانتے تھے۔

بھٹو نے چواین لائی سے دوستی کرکے ایک غلط نعرہ بنایا تھا کہ چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب چین کی معیشت پاکستان سے کمزور تھی اور امریکہ نے چین کی جگہ فارموسا یعنی موجودہ تائیوان کو چین کا نام دے کراقوام متحدہ کا رکن بنوایا تھا، سرمایہ دار دنیا نے چین کا مکمل بائیکاٹ کررکھا تھا، بھٹو نے ایوب خان کو قائل کیا کہ چین کا ہاتھ پکڑا جائے ، آئندہ دہائیوں میں یہ پاکستان کیلئے ایک سودمند فیصلہ ہوگا، واقعی ویسا ہی ہوا ،لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ، چین کاغذپر دنیا کا نمبر دو لیکن عملاََ نمبر ایک معاشی طاقت ہے، ساری دنیا چین کے سامنے بازیچہ اطفال ہے ، اس کا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر امریکہ ہے ،لیکن وہ خسارے میں ہے، چین کے زرمبادلہ کے ذخائر اتنے زیادہ ہیں کہ اسے سمجھ میں آرہا کہ کہاں خرچ کرئے ، اور کس طرح کرئے ، بیلٹ اینڈ روڈ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، ایشیاء اور افریقہ سے لیکر برازیل تک بے شمار ممالک میں یہ منصوبہ زیر تعمیر ہے ، پانچ براعظموں پر چین کا تجارتی غلبہ ہے وہ اپنے سرمایہ کو مسلسل توسیع دے رہا ہے ، اپنے انفراسٹرکچر کو تیزی کے ساتھ امریکہ کے برابرلارہا ہے، سینکڑوں ڈیم تعمیر کرچکا ہے ، اس کے شہر نیو یارک اور لاس اینجلس سے بڑھ کر ہیں ، سرمایہ کی زیادتی کی وجہ سے وہ اپنے پہاڑوں اور صحرا کا لینڈ اسکیپ تبدیل کررہا ہے ، سطح مرتفع تبت کا کایا پلٹ رہا ہے ، ہمالیہ کا پانی ہزار میل ٹنل ( سرنگ) کھود کر لے جارہا ہے ، مصنوعی جھیلیں بنارہا ہے ، خشک پہاڑوں پر ایک کھرب درخت لگا چکا ہے، وہ سینکڑوں میل تک پھولوں کی کاشت کرکے اپنی سرزمین کو یورپ کا مدمقابل کھڑا کررہا ہے ،لیکن اس کی صرف ایک ہی مجبوری ہے صرف ایک ہی وہ یہ کہ بحر ہند تک پہنچنے کیلئے چین کو 12ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ، لیکن ایک روڈ کے زریعے یہ فاصلہ سنکیاگ سے گوادر تک صرف دو ہزار میل ہے ، سنکیانگ کا علاقہ نہ صرف چین کا سب سے پسماندہ ترین علاقہ ہے بلکہ یہ کافی عرصہ شورش کا شکار ہے، یہاں آزادی کی تحریک ایسٹ ترکمنستان موومنٹ چل رہی ہے، چین نے تحریک کا زور کم کرنے کیلئے صوبائی دارالحکومت تاریخی شہر کاشغر سے منتقل کرکے آرمچی بنایا ، جہاں ایغوروں کا داخلہ ممنوع ہے اس نے وسیع پیمانے پر مساجد اور پیش اماموں کے خلاف کارروائی کی ہے ، اور تازہ ترین خبر کے مطابق دس لاکھ مسلمانوں کو قلی کیمپوں میں بند کردیا ہے ، تمام بچوں کو والدین سے جدا کرکے انہیں مختلف علاقوں میں بھیج دیا ہے جہاں ان کے چینی نام رکھ کر انہیں پیدائشی مذہب سے بیگانہ کیا جارہا ہے ۔

چین بیلٹ اور روڈ کے زریعے سینکیانگ کی پیداوار کو گوادر کے زریعے مارکیٹ کرنا چاہتا ہے ، لیکن چین کو ایک مختلف پاکستان سے پہلی بار واسطہ پڑا ہے، نواز شریف نے سی پیک کے زریعے سر جھکا کر چین کی معاندانہ شرائط تسلیم کرلیں اور سی پیک کو صرف پنجاپ تک محدود کردیا ، لیکن پنجاب کی یہ ترقی پوری ریاسست کے گلے میں پڑ گئی ، سی پیک کی تمام رقم امداد نہیں قرض ہے اور یہ قرض بھاری سود پر لیا گیا ہے ، سود کی ادائیگی اس وقت واجب الادا ہے ، امریکہ آئی ایم ایف سے کہہ رہا ہے کہ وہ شرط عائد کرئے کہ نئے قرضے کو چین کے سود کی ادائیگی پر خرچ نہیں کیا جائیگا ۔

عجیب بات ہے کہ چین بحر ہند تک پہنچنا بھی چاہتا ہے اور وہ بھی اپنی شرائط پر، وہ گوادر میں اپنا سیکیورٹی زون بھی قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنا آبی مستقر بھی بنانا چاہتا ہے اس کے باوجود پاکستان سے کوئی نرمی نہیں برت رہا ، حالانکہ چین کو ساؤتھ چائنا سی کے مسئلے پر امریکہ کی سخت مزاحمت کا سامنا ء ، دونوں ممالک دنیا کے اس طویل ترین سمندری پٹی پر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں ، بظاہر چین جیسا سود خود ملک اس پوزیشن میں نہیں کہ جنگ کرئے ، لیکن اسے جنگی صورتحال کا سامنا ہے ۔

امریکہ، جاپان اور ساؤتھ کوریا سے مسلسل تاوان جنگ وصول کررہا ہے ، وہ ویت نام ، فلپائن کمبوڈیا اور ملائیشیا ء کو بھی تھڑی لگا رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مہاتیر محمد نے بیلٹ اور روڈ کا منصوبہ ترک کردیا ہے ، امریکہ پاکستان سے بھی یہی توقع رکھتا ہے ، لیکن پاکستان کا مسئلہ انڈیا ہے ، اور امریکہ پاکستان کا ہاتھ جھٹک کر انڈیا کا اسٹرٹیجک شراکت دار بن چکا ہے ، چار و ناچار پاکستان چین کا ہاتھ پکڑنے پر مجبور ہے ۔

ایک بہت بڑا بین الاقوامی کھیل کھیلا جارہا ہے ، جو ہم جیسے لوگوں کی سمجھ سے بالا تر ہے ، لیکن ایک بات سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ بلوچ سرزمین اور ساحل بہت بڑی سیاسی و تذویراتی کشمکش اور سونامیوں کی زد میں ہے ، زیرو پوائنٹ سے لیکر جیونی سے زر ادور مغربی بلوچستان کی سرحد پر آپ کھلی آنکھ سے دیکھیں تو گوادر سب ڈویژن میں ایک انچ زمین مقامی لوگوں کیلئے بچی نہیں ہے ، یہی حال اورماڑہ اور لسبیلہ کی ساحلی پٹی کا ہے ۔

اگر معجزوں کا دور ہوتا تو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا تھا لیکن یہ معجزوں کا نہیں حقائق اور حقیقت پسندی کا دور ہے، ساری آوازین معدوم ہوگئی ہیں، لارڈ کلائیو کی جعلی اشرافیہ دست بستہ عریضہ گزار کھڑی ہے، بعض دفعہ بہت تنہائی محسوس ہوتی ہے ، تاریک راہوں پر کامل اکیلا پن لیکن ہار نہیں ماننی، بے شک خطرہ ڈھائی ہزار سالہ دور میں سب سے بڑا ہے، لیکن ریت میں سر دھنسنے سے بچنا ہے، کوئی تائید غیبی اور کوئی تائید ایزدی وارد ہوسکتی، ایک طویل انتظار مقدر ہے، اسی انتظار کا انتظار ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔