بلوچ قومی سیاست اور عوامی تعلق
حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
اماوس کی کالی رات ڈھل چکی ہے اور وہ بھیانک طوفان جس کی زد میں بلوچ قومی تحریک دھنس چکی تھی، اس طوفان سے نکل کر مزید مضبوط اور چٹان کی طرح محکم ہوچکی ہے۔ اس تمام دورانیئے میں کیا کھویا کیا پایا، کتنا نقصان اور کتنا فائدہ مجموعی حوالے سے تحریک کو اٹھانا پڑا شائد ہی کوئی اندازہ لگا سکتا ہے۔ دشمن کے مکر و فریب آستین میں چھپے سانپوں کی سازشوں اور ہماری اپنی جلد بازیوں، نادانیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ہم نے جسطرح قومی تحریک کو جانے یا انجانے میں نقصان پہنچایا اور جسطرح عوامی حلقوں کو خود سے دور کیا گیا اور تنقید کے نام پر عمل کو روکنے کی جو شعوری اور دانستہ کوشش کی گئی اس سے نقصانات تحریک کو ہی اٹھانے پڑے تھے۔
حالات اس نہج تک پہنچ چکے تھے کے تنقید کے نام پر کردار کشی شروع کی گئی، پھر کردار کشی سے سیاسی کارکنان کے متعلق معلومات کو سوشل میڈیا اور اخبارات کی زینت بنانا یہاں تک کے دشمن ریاست کو جانے یا انجانے میں مواقع فراہم کرنا کے بلوچ قیادت کو نقصان پہنچاسکے اور بالکل اسی طرح کے نتائج بھی سامنے آئے۔ لیکن تنقید کا یہ سلسلہ رکا نہیں اور مزید شدت اختیار کرگیا جہاں دشمن کی سفاکیت جاری و ساری تھی تو وہیں ایک مکمل منظم پروپیگینڈہ مشن تحریکی خامیوں کو آشکار اور ختم کرنے کے نام پر رواں رکھا گیا۔
جس میں ہدف تنقید اکثر و بیشتر بی ایل ایف، یو بی اے، بلوچستان کی واحد آزادی پسند سیاسی پارٹی بی این ایم اور بلوچ قومی تحریک میں مادر آرگنائیزیشن کی حیثیت رکھنے والی بی ایس او آزاد سمیت وہ تمام اسٹیک ہولڈرز تھے، جنہوں نے فردی حکمرانی کو ماننے سے انکار کرکے تنظیم اور اداروں کے ماتحت جدوجہد کو قومی مسئلے کا حل جانا۔ وہ تمام لوگ جو فردی حکمرانی کو رد کرچکے تھے انہیں غدار، پراکسی، دشمن اور تحریک کیلئے زہرقاتل قرار دیکر انہیں سیاسی، سماجی، جانی و مالی الغرض تمام ممکن و موجود طریقوں سے نقصانات پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ مگر جہاں نظریہ پختہ ہو عمل جاری و ساری ہو وہاں جھوٹ، مکر وفریب کی زندگی اور حیثیت بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے پروپگینڈہ کرنے والے تحریک دشمن تمام عناصر آج نہ صرف اپنی حیثیت کھوچکے ہیں بلکہ انکے پس پردہ عزائم بھی عوام کے سامنے عیاں ہیں۔
موجودہ بلوچ قومی تحریک جب شروع ہوا تو اسے عوامی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی لوگ جوق در جوق کاروانِ آجوئی کے مسافر بنتے گئے۔ بلوچستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے بلوچ قوم نے نہ صرف قومی تحریک کی اخلاقی و مالی حمایت شروع کی بلکہ وہ عملی طور پر تحریک سے جڑنے لگے جس سے قومی حوالے سے بلوچ سرزمین کی تاریخی حیثیت سے محبت اور حریت پسندی کی عظیم مثالیں دیکھنے کو ملیں۔
منظم سیاسی تنظیم کے بغیر عوامی حمایت یا ہمراہ داری کو قائم کرنا اور تعلق بنانا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور نتائج پھر یوں نکلتے ہیں کے لوگ احساس کمتری اور مایوسی کا شکار ہوکر تحریک سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگتے ہیں۔ جس کی موجودہ تحریک میں کافی مثالیں ملتی ہیں، مگر ہم نے اب بھی سب کچھ نہیں گنوایا آج بھی بلوچ قومی تحریک اپنی حیثیت رکھتی ہے آج بھی تحریک کی خاطر نیک خواہشات رکھنے والے کارکنان، دوزوا، سیاسی اور مزاحمتی لیڈران موجود ہیں جو ایمانداری سے بلوچ قومی آزادی کی خاطر جدوجہد کررہے ہیں۔
جسکی واضح مثال اُستاد اسلم بلوچ اور ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ ہیں، جنہوں نے بی ایل ایف اور بی ایل اے کے اشتراک عمل کے زریعے مجموعی قومی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ بلوچ عوامی حلقوں میں نہ صرف اس اشتراک عمل کو سراہا گیا بلکہ بعد میں قیام پانے والے دیگر اشتراک کو بھی اسی عمل کا تسلسل قراردیا گیا۔
آج بلوچ قومی سیاست ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں دشمن خوف اور ڈر میں کسی بھی طرح کے اقدامات کرنے سے باز نہیں آرہا۔ جہاں اسے محاذ پر بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، تو وہیں سیاسی حوالے سے بلوچ قومی تحریک سے جڑے مخلص سیاسی کارکنان (جو بیرون ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں) کی کوششوں احتجاجوں، اور بین الاقوامی دنیا کو پہنچائے گئے پیغامات کے ذریعے پاکستان کو سیاسی طورپر سفارت کاری کے دوڑ میں بھی شکست دی جارہی ہے۔ مگر انسانیت سے عاری پاکستانی فوج اپنی ناکامی کو چھپانے کی خاطر بلوچ سیاسی کارکنان سمیت عام بلوچوں کے گھروں میں چھاپہ مار کر گھر میں موجود خواتین کو اغواہ کرکے لاپتہ کررہی ہے۔ جس سے وہ یہ سمجھتی ہے کے شاہد بلوچ سیاسی کارکنان کو مجبور کرکے تحریک سے دستبردار کرایا جاسکتا ہے جو ریاست کی ایک احمقانہ سوچ ہے۔
آج کے حالات میں قومی تنظیم کے حوالے سے بی این ایم کی لیڈر شپ سمیت تمام کارکنان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم بلوچ قومی شہیدوں کے ارمان اور اپنے آنے والی نسلوں کی خوشحالی کامیابی اور کامرانی کیلئے بلوچ قومی سیاسی و طلبہ تنظیموں کی آبیاری کریں۔ یہ تمام سیاسی کارکنان کی بھی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچ قومی سوال کی بہترین طریقے سے پرچار کرنے کی خاطر بلوچ نیشنل موومنٹ کا ساتھ دیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں بہترین اور منظم انداز سے انجام دے سکیں۔ آج کے حالات میں جہاں سرفیس سیاست ممکن نہیں تو بیرون ملک مقیم دوستوں پر ذمہ داریاں اور ان سے امیدیں بے شک زیادہ ہوجاتی ہیں اور تمام نظریں بیرون ملکوں میں مقیم سیاسی دوستوں پر محیط ہوجاتی ہیں۔ اگر ہم بیرون ملک میں بہتر طور پر سیاسی اور سفارتی محاذوں کو تھامے رکھیں تو یقیناً ہم پھر سے اپنی سرزمین پر ایک ایسا ماحول بنانے میں کامیاب ہونگے جہاں عوامی آواز پھر سے گلی کوچوں میں زور و شور سے سنائی دیگی اور قابض ریاستی فورسز کو عوامی طاقت کا ساما کرناپڑیگا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔