بلوچستان کی دو تہائی اکثریت ہمہ جہت غربت کا شکار

661

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالا مال بلوچستان کے بیشتر عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور یہی نہیں بلکہ صوبے میں غربت کی شرح میں بھی روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔

آج دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اگر بلوچستان میں غربت کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ماضی کی حکومتی پالیسیوں، عدم توجہی، بدانتظامی اور ناقص منصوبہ بندی اور ان کے نتیجے میں بنیادی سہولتوں کے فقدان کو بڑی وجوہات قرار دیا جاسکتا ہے اور ان سب وجوہات نے مل کر بلوچستان میں پسماندگی اور غربت کو جنم دیا ہے۔

صوبے میں غربت کا اندازہ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام کے تعاون سے کیے گئے ملٹی ڈائمینشنل انڈیکس (Multidimensional Poverty Index) سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق صوبے کی دوتہائی اکثریت ہمہ جہت غربت کا شکار ہے۔اس رپورٹ سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ صوبےمیں تقریباً 71 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں غربت اور لوگوں کے معیار زندگی کااندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ صوبے میں صرف 20 فیصد افراد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہے جب کہ صحت کا اندازہ ماؤں اور بچوں کی سب سے زیادہ شرح اموات اور تعلیم کا اندازہ لگ بھگ 20 لاکھ بچوں کے اسکولوں سے باہر ہونے اور سب سے کم شرح تعلیم سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

ماہر غذائیت اور محکمہ صحت کے تحت نیوٹریشن سیل کے انچارج ڈاکٹر علی ناصر بگٹی کے مطابق بلوچستان میں 50 فیصد سے زائد خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ڈاکٹر علی ناصر بگٹی کا کہنا تھا کہ قومی غذائی سروے کے مطابق صوبے میں تقریباً 49 فیصد ماؤں اور 97 فیصد بچوں میں خون کی کمی پائی گئی، تاہم اس صورتحال کے پیش نظر یونیسیف کے تعاون سے مختلف علاقوں میں ایک منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی یوم غذائیت: بلوچستان میں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ

ماہر سماجیات اور معاشیات پروفیسر عارف محمود کے مطابق صوبے میں غربت کی ایک بڑی وجہ روزگار کے بھرپور مواقعوں کا نہ ہونا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے، چونکہ زیادہ تر لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں اور ان کا روزگار زراعت اور لائیو اسٹاک سے وابستہ ہے مگر کچھ سالوں سے خشک سالی کی وجہ سے یہ دونوں شعبے بھی متاثر ہوئے ہیں۔

دوسری جانب صوبے میں کوئی بڑی صنعتیں نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی کارپوریٹ سیکٹر اور غیر سرکاری ادارے ہیں، کچھ لوگوں کا انحصار اپنے کاروبار اور سرکاری ملازمتوں پر ہے جو کہ بہرحال بہت محدود ہیں۔

پروفیسر عارف محمود کا کہنا تھا کہ مناسب روزگار نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید نہیں ہے اور رہی سہی کسر روز بروز بڑھتی مہنگائی نے پوری کردی ہے۔مہنگائی نے تو غریب طبقے کے علاوہ متوسط طبقے کی قوت خرید کو بھی بے حد متاثر کیا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان حکومت صوبے میں غربت اور پسماندگی کے مسائل کے حوالے سے ماضی کی حکومتوں کی پالیسیوں، بدانتظامی، ناقص منصوبہ بندی، غیر سنجیدگی اور وفاق میں صوبے کے لیے کم وسائل کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔

اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا حال ہی میں صوبائی اسمبلی میں اظہار خیال کے دوران کہنا تھا کہ ہمیں صوبے میں لوگوں کےمسائل کا ادراک ہے اور ہم صورتحال میں بہتری کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم مالی مسائل آڑے آرہے ہیں۔ ہمیں این ایف سی ایوارڈ میں حزب اختلاف سے مل کر ایک مؤثر حکمت عملی کے تحت صوبے کے زیادہ سے زیادہ حصے کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔

اسی حوالے سے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے رکن اسمبلی ثناء اللہ بلوچ کا مطالبہ تھا کہ آئندہ این ایف سی ایوارڈ میں وفاق سے وسائل کے حصول کے لیے آبادی کے ساتھ رقبے، قدرتی وسائل اور غربت اور پسماندگی کو بطور معیار شامل کیا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا صوبے سے پسماندگی اور غربت کا خاتمہ ممکن نہیں۔

مجموعی طور پر عوام کا کہنا ہے کہ وسائل سے مالامال صوبہ بلوچستان میں بڑھتی مہنگائی یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے اور حکومت کو غربت کے خاتمے کے لیے محض باتوں اور بلند بانگ دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔