بلوچستان میں 1300 اسکولوں کی بندش تعلیمی ایمرجنسی کے دعوؤں کی نفی ہے – بی ایس اے سی

126

کلی شابو کوئٹہ کے اسکول میں فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات کرکے ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ بلوچستان میں بند اسکولوں کی تعداد گورنمنٹ کے تصدیق شدہ تعداد سے کئی زیادہ ہو سکتی ہے – بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں محکمہ تعلیم کی نااہلی اور عدم توجہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں 1300 اسکولوں کی بندش حکومت بلوچستان کے تعلیمی ایمرجنسی کے دعوؤں کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہے، تعلیمی ایمرجنسی کے نام پر اسکولوں کی بندش سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی بلوچستان کے تعلیمی مسائل کو حل کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ بلوچستان میں استادوں کی کمی اور غیر حاضری کی وجہ سے 1300 اسکول بند ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان دیگر صوبوں کی مقابلے میں زندگی کے تمام شعبوں میں پسماندگی کا شکار ہے لیکن بلوچستان کی تعلیمی، سماجی و معاشی مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات دیکھنے کو نہیں مل رہی جو کہ قابل افسوس عمل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں بند اسکولوں کی تعداد گورنمنٹ کے تصدیق شدہ تعداد سے کئی زیادہ ہو سکتی ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی بہتری کیلئے سیکرٹری تعلیم نور الحق بلوچ کی کاوشیں قابل ستائش ہیں لیکن ان کا تبادلہ کردیا گیا جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے ہم ان کے تبادلے کی بھر پور مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کا تبادلہ منسوخ کیا جائے۔

ترجمان نے اپنے بیان میں کوئٹہ کلی شابو کے اسکول میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات رونماء ہونے کا مقصد تعلیمی اداروں میں خوف کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ اس واقعے کے بعد طالب علموں اور والدین میں خوف اور تشویش کی لہر نے جنم لیا ہے۔

ترجمان نے حکومت بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسکول میں فائرنگ کے واقعے کی نوٹس لیکر تحقیقات کریں اور ملوث افراد کو گرفتار کرکے سزا دی جائے تاکہ تعلیمی اداروں میں اس طرح کے واقعات مستقبل میں پیش نہ آئے۔