بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری
تحریر : خالد شریف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج میں ایک ایسے پہلو پر کچھ سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں، جو بلوچستان کی تحریک اور بلوچستان کے مستقبل کیلٸے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ آج بلوچستان میں آزادی اور بقاء کی جو جدوجہد چل رہی ہے۔ وہ کیوں، کس لیٸے اور کون لڑرہا ہے؟ یہ تو شاید ہرذی شعور کو معلوم ہے.
قبضہ گیر پاکستان کے جوپالیسیاں ہیں، چاہے اقتصادی ہوں یا معاشی حوالے سے بلوچستان کا کس حد تک استحصال جاری ہے۔ پوری دنیا بلوچستان کی اہمیت اور اسکی پسماندگی سے واقف ہے، تو اتنے وساٸل سے مالامال سرزمین آخر اتنا پامال کیوں؟ کیا یہ سب ایک غلام اور مقبوضہ کی عکاسی نہیں کرتے؟
میرے خیال میں پاکستان کوٸی ملک نہیں بلکہ ڈیلرز کی ایک ڈیلنگ کمپنی ہے، جنہوں نے مکر و فریب اور طاقت کے دم سے آزاد ریاست بلوچستان پر قبضہ کرکے اپنی سرمایہ کاری اور طاقت کو بڑھاوا دینے کیلٸے بلوچستان کے وساٸل کی لوٹ کھسوٹ جبراً جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس عمل میں اور بھی بہت سے مفاد پرست ممالک، جن میں درجہ اول پر چین ہے شامل ہیں، جو اپنی ملکی اقتصادیت اور معیشت کو بڑھانے اور سینٹرل ایشیأ پر قابض ہونے کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پاکستان میں اربوں ڈالرز صرف کر چکا ہے۔
دراصل پاکستان تو ملک کے نام پہ ایک مہرہ ہے، اسکے حکمران اور سرمایہ دار اپنے دھن ودولت کی خاطر قبضہ کردہ بلوچستان کی اہمیت اور وساٸل کی بھرمار کو بھینٹ چڑھا کر، بلوچستان کو دوسرے قرض عطا کرنے والے ممالک کیساتھ گروی رکھ کر، سامراجی سرمایہ کاری کر رہے ہیں لیکن کیا بلوچستان کو ترقی حاصل ہوٸی؟ بجاٸے ترقی کے بلوچستان کا مستقبل تباہ ہوتا نظر آرہا ہے، بظاہر غلام قوم ہیں اور غلامی میں پامالی اور بدحالی تو ہمارے مستقبل کی نوید ہے۔
تو یہ اقتصادی اتفاق جیسا کہ ریکوڈک، سیندک اور حالیہ سی پیک میں پاکستان کیساتھ فنڈنگ اور معاشی سرمایہ کاری میں اربوں ڈالرز کی قرض دینے والے ممالک میں پہلے تو چین اور اب سعودی عرب بھی شمولیت اختیار کرچکا ہے۔ سعودی عرب کو دعوتِ شمولیت پاکستان کا اپنے بچاٶ کا ایک ذریعہ ہے. افسوس تو سعودی عرب کے مفاد پرستی پر ہوتا ہے، جوخود کو اسلام کا ٹھیکہ دار کہتا ہے اور قبضہ گیر ظالم کیساتھ ظلم اور جبر کی انتہا میں سب کچھ جانتے ہوٸے بھی قدم بہ قدم شمولیت اختیار کر رہاہے۔
کیا یہ انٹرنیشنل گیم اور سرمایہ کاروں کی مفاد پرستی انسانیت سے بالاتر ہے؟ کیا یہ سینٹرل ایشیاء میں فساد برپا کرنے کی سازش نہیں؟ کیا یہ بلوچستان میں آزادی کی جنگ ، جو ہر مہذب قوم کا بنیادی حق ہے، اس جدوجہد میں قبضہ گیر کا ساتھ دینا نارواٸی اور ظلم نہیں؟ کیااتنے وساٸل کے بھرمار کے باوجود بلوچستان کےعوام کو خوشحال زندگی جینے کا حق نہیں؟اگر ہاں تو یہ ساری ملٹی نیشنل کمپنیوں کی گیمنگ اور پاکستان جیسے قبضہ گیر کا ساتھ دینا انسانیت سوز اقدام نہیں ہیں؟
جیسا کہ پرتگالی استعماریت کو 1949 سے لیکر 1968 ٕ تک امریکہ نے 35کروڑ ڈالر کی فوجی امداد اور 20 کروڑ ڈالر کی اقتصادی امداد دی ۔ چونکہ یہ امداد کسی خیراتی جزبے کے تحت نہیں دی جاتی اسکا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ نے خود پرتگال میں اپنے پنجے گاڑنے تھے۔ اس امداد کے بہانے امریکی سرمایہداروں کو پرتگال اور اسکی نوآبادیوں میں سرمایہ کاری کرنے اور لوٹ مار کرنے کے موقع فراہم ہوگیا۔
اس بات کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ فقط ایک امریکی بینک ریڈ ، ڈرلن اینڈ کمپنی نے 1962 ٕ سے 1967 ٕتک پرتگال میں بارہ کروڑ ستر لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ لگاٸے ہوٸے سرمایہ منافع کمانے کے علاوہ امریکی سامراجیوں نے تجارت کے زریعہ بھی پرتگال کی لوٹ کھسوٹ بڑھادی ۔ لیکن اس مالی سرگرمی کا سب سے بڑا نشانہ پرتگال کی افریقی نوآبادیوں خاص کر انگولا کو بنایا گیا۔ پہلے تو امریکی انگولا کی لزیز کافی کو سستے داموں میں خرید کر لیجاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے انگولا کی معیشت کے دوسرے شعبوں میں ہاتھ ڈالنا شروع کیا ۔1974 ٕتک انگولا میں امریکی سرمایہ 24 کروڑ ڈالر یعنی موجودہ نرخ کے مطابق 240 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ اس رقم کا تقریباًدو تہاٸی حصہ گلف آٸل کمپنی نے بیندہ کے تیل کے چشموں میں لگایا اور جس سے وہ ہر سال کروڑوں ڈالر کا منافع کمانے لگی۔ گلف کے علاوہ ٹیکساکو ،ایسوموبیل، اور اسٹینڈرڈآف کیلیفورنیا نامی امریکی کمپنیاں انگولا میں تیل نکالنے کے دھندے میں لگی رہیں۔
ہیرے کے کانوں اور ہیرے کی بیوپار میں بھی امریکی سرمایہ داروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان سرگرمیوں میں حصہ لینے والی امریکی کمپنوں، کے ہیں ڈاٶرسا افکارپوریٹڈ ، ڈاٸمنڈ ڈسٹریبیوٹرز اور ڈاٸمول ۔1968 ٕ میں انگولا میں ہیروں کی پیداوار پونے چھ کروڑ ڈالر کے لگ بھگ تھی ۔اسکے علاوہ ٹینیکو نامی امریکی کمپنی نے انگولا میں گندھک ، جپسم اور بہت سے وساٸل کی کھداٸی کیلٸے 5 کروڑ ڈالر کا سرمایہ لگایا۔ ان کمپنوں کے علاوہ سیاناملڈ (لیڈرلے) اور یونین کاربوٸڈ سمیت آٹھ ، دس اور امریکی کمپنیاں انگولا کی دولت لوٹنے میں سرگرم رہیں۔
تاریخ ہمیں بار بار ایسے سرمایہ کاروں، مفاد پرست اور سامراجیوں سے آگاہ کرتی آٸی ہے۔ تو پھر یہ سب جاننے کے باوجود بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں ، سرمایہ کار اور قبضہ گیر پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں، تو یہ بلوچ نسل اور مہذب قومیت کیساتھ ناانصافی اور بلوچستان میں فساد برپا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں اور بلوچستان کی آزادی کی جنگ میں جو کوٸی بھی ملک یا کمپنی سرمایہ کریگی تو اسے بلوچستان میں ہونے والے مظالم میں پاکستان کا مددگار سمجھا جاٸیگا۔ بلوچستان میں اقتصادی اور معاشی بحالی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ریاست بلوچستان آذاد نہیں ہوتا۔
۔
کیا بلوچستان میں انسانوں کیساتھ انسانی برتاٶ ہورہا ہے؟ کیا بلوچستان میں ہماری ماٶں بہنوں کیساتھ زیادتی نہیں ہورہی؟ کیا ہمارے معصوم بلکتے بچوں کی آہ و زار اور فریادوں کی کوٸی اہمیت نہیں؟ کیا جوانوں اور بزرگوں کی مسخ شدہ لاشیں ظلم کی گواہی نہیں دیتے؟ کیا ہمیں ہماری سرزمین پر انگولا کی طرح امریکی استعماریوں اور سرمایہ داروں کا شکار ہونا چاہٸے؟
تو کیا ہر باشعور انسان کا فرض نہیں بنتا کہ مظلوم کے حق میں آواز اٹھاٸے؟ اور ان تمام ہونے والے ناانصافیوں اور آزادی کی جنگ میں بلوچوں کا ساتھ دیں، بلوچستان اور اس میں بسے بلوچ عوام آج دنیا کے تمام مہذب ممالک سے یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے مظالم کی روک تھام اور بلوچستان کی جنگ ِٕ آزادی میں بہترین کردار ادا کرینگے نہ کہ اپنی مفاد پرستی کی خاطر سعودی عرب چاٸنا اور دیگر فنڈنگ اور سرمایہ کاری کرنے والے ممالک اور کمپنیوں کی طرح بلوچستان میں ہونے والے ظلم و جبر کا ساتھ دیں۔
مظلوم بلوچستان کے عوام کا ساتھ دیں اور انسانیت کے ناطے ہمارے حق میں اپنا کردار ادا کریں.
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔