ایک عکس کی دید میں ملے ہزاروں راز – کوہ دل بلوچ

614

ایک عکس کی دید میں ملے ہزاروں راز

کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

راز ایک ایسی شے کا نام ہے جو کسی جہدکار کیلئے اپنے جدوجہد میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے،
“ہم مٹ جائیں لیکن راز ہمارے ساتھ ہمارے سینے میں دفن ہو جائے”
شہید امیر الملک کا یہ فلسفہ حقیقت میں تب بدلا جب اُس کے جیب میں پڑے ایک “سنگل بُلیٹ” نے اُس کا ساتھ دیا اور اُس کو اُس کے فلسفے کے ساتھ ہمیشہ کیلئے زندہ کر دیا۔

راز کے شاید سینکڑوں اقسام ہوں مگر ہم نے چند راز اپنے عظیم فلسفیوں سے سیکھے ہیں اور اس فلسفے پر عمل پیرا ہونے والے کئی جانثار بھی ہم نے دیکھے ہیں، یہ راز ظالم شے ہے انسان سے اپنے بدلے اُس کی جان کا طالب ہے یا پھر ایک الگ انمول موتی کا نایاب قسم ہے، جس کا مول نظریاتی اور فکر و سوچ کا پُختہ ساتھی تول سکتا ہے لیکن ہر عام انسان کے فہم کے دائرے میں اس کے بھاؤ کا اندازہ لگانا کافی مشکل کام ہے۔

آج اسی راز کو ایک تصویر میں دیکھا، محسوس کیا اور اس راز کو سمجھنے کی بہت دیر تک بےجا کوششیں کی، ایک مصور اپنے خیالات میں منظر کشی کا ایک ماحول بناتا ہے پھر رنگوں میں رنگ ملاتا ہے جب ان رنگوں کو کسی جگہ پر رنگ دیتا ہے تو اُس کے تصور و خیالات کا سارا منظر اُن رنگوں سے جُڑ جاتے ہیں اور مصور کے اندر کا راز سب کے سامنے آجاتا ہے اور پھر لوگ اُسے داد و تحسین پیش کرنے لگ جاتے ہیں۔

آج میں نہ مصور ہوں، نہ شاعر ہوں، نہ کسی کے جذبات کو قلم بند کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، میں تو بس وہ سب کچھ لکھنے جا رہا ہوں جو مجھے ایک تصویر بتاتا جا رہا۔

کسی ماہر انسان نے کہا تھا کہ انسان کا کسی دوسرے انسان سے رابطے کا ایک ذریعہ احساس کا ہوتا ہے، جو اُن کے حالات بنا بتائے محسوس ہونے لگتے ہیں شاید آج اس تصویر نے مجھ سے احساس کا رشتہ جوڑا ہے جو اُس کی زبان میرا قلم لکھ رہا ہے.

ایک تناور درخت کے تنے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوا ایک نوجوان، بال بکھرے ہوئے، دونوں ہاتھ سینے پہ بندھے ہوئے، دشمن کی نظروں سے اُجھل ہونے کیلئے تاریک راتوں میں ایک مخصوص رنگ کا لباس زیب تن، دھوپ اور گوریچ کے ناروا سلوک سے چہرے کا بدلا ہوا سانولا سا رنگ ہلکی سی داڑھی اور خشک ہونٹوں سے ابھرتی ہوئی ماضی کے سارے تلخیوں کا داستان۔

اس تصویر نے ایک ایسے زندہ اور پُرفکر درویش انسان کو مجھ سے ملایا ہے، جس کا ہر حصہ ایک داستان بیان ہے، کہتے ہیں کہ اندر کی دنیا کا راز آنکھوں کے عکس میں دکھتا ہے، مگر ایک حساس انسان کے آنکھوں کا آئینہ ہر کسی کے نظروں سے اوجھل رہتا ہے، مگر جب احساس کا رشتہ جُڑ جاتا ہے تو اُن آنکھوں کے آئینے سے ہوتے ہوئے اُس انسان کے اندرونی دنیا تک جا کر جان سکتے ہو کہ اندر ایک سبز باغ ہے یا کھنڈر نما بستی۔

تصویر میں بیٹھے اس بہادر نوجوان کی آنکھوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ کیا تُم آزاد ہو؟ کیا آپ کے پاس اپنا وطن ہے؟ کیا آپ نے کبھی اپنے ذات سے نکل کر اس قوم کی حالت و زار پر کبھی نظر دوڑائی؟ آنکھوں کی گفتگو جب محبت کے زبان میں بولنے لگتے ہیں تو من یہی کرتا ہے کہ ہمیشہ کیلئے ان میں سما جاؤں اور ان کو اپنا نشیمن کر دوں لیکن جب کسی سچے انسان کے آنکھیں سوال کرنے لگ جاتے ہیں تو بُزدل و نکمے لوگوں کے پاس کوئی جواب باقی نہیں رہتا.

یہ آنکھیں جو سوالات پر اُتر آئے تھے، ان آنکھوں کے ساتھ ایک حساس دل کا ربط تھا اور ان آنکھوں میں سوالات و شکایات سے زیادہ ایک پُرامید روشن صبح کا انتظار صاف نظر آرہا تھا، ایسے آنکھوں کو سننے اور دیکھنے کا تڑپ بھی اتنا شرط ہے جتنا ان آنکھوں میں مخلصی کا چھایا ہوا اثر ہے، مگر مجھ میں اتنی تڑپ کہاں جو اس نڈر سپاہی کے آنکھوں کو سن سکوں اور ان کی صدا کو سچی کتاب کے اوراق پر اُتار دوں.

سنگت آپ کی نم آنکھیں، خشک ہونٹ اور آپ کی تصویر خود اپنے سوالات کا جواب دے پائیں گے؟ یہ وہ آنکھیں ہیں جنہوں نے برسوں سے بے ترتیب راہوں کو دیکھا ہے، آپ کے ان موتی جیسے آنکھوں نے پانی کے خالی بوتل کو حالت جنگ میں دیکھا ہے، دھوپ کے بے رحم تپش کے وقت سائے کو خود سے دور جاتے دیکھا ہے، سرد راتوں میں لرزتے ہونٹوں کو دیکھا ہے، بھوک اور پیاس میں ہمت نہ ہارنے والے دیش بھگتوں کو دیکھا ہے، فدائین کیلئے تیار ہونے والے درویشوں کو دیکھا ہے اور پھلین ریحان کو دیکھا ہے، اپنے جسم کے مقدس لہو سے وطن کے گواڑخ کو سینچنے والے ہر بلوچ فرزند کے صحبت کو دیکھا ہے اور سنگت جس نے ان آنکھوں کو بہت نزدیک سے دیکھا ہوگا، تو وہ میری طرح ان آنکھوں سے کیا کیا سنا ہوگا کیا کیا ان کو نظر آئیں ہوں گے، کیونکہ آنکھیں جب جھپکتے ہیں تو ایسا لگتا ہے فلسفے کی کتاب کا پہلا پنا پلٹا دیا، اب دوسرا پنا پڑھ رہا ہوں، یہاں تو آپ کی آنکھیں بس ایک ہی پلک جھپک کے پنے میں سارا داستانِ ماضی و حال بلکہ مستقبل کو بھی بیان کر رہے ہیں، سوچتا ہوں تیری آنکھوں میں جو منظر ہوگا وہ کتنا حسین منظر ہوگا کسی صوفی کو وہاں خدا مل جائے گا اور کسی منچلے دیوانے کو اُس کا منزل آپ کے آنکھوں کے نظاروں میں مل جائے گا۔

سنگت چیئرمین آپ یہ پہلے فلسفی ہو جو اپنے فلسفے کو اپنے آنکھوں میں سجائے رکھے ہو اور آپ کی تصویر میں آپ کا فلسفہ چھلکتا ہوا نظر آتا ہے. مجھ سے نہیں پوچھو سنگت بس آپ کہتے جاؤ میں لکھتا جاؤں گا میرا قلم آج آپ کا مرہونِ منت ہے.
اور سنگت کہاں سے سیکھ لیتے ہو ہمیشہ کیلئے یہ جینے کا ہُنر ہمیں بھی اپنے راہوں میں کبھی بُلاؤ ہم بھی دیکھیں کہ یہ دیوانگی کا راز کیا ہے….؟ شہیدِ وطن فتح عرف چیئرمین کو عقیدت بھرا سلام

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔