انتظار سے بڑھ کر عمل کا وقت
جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ پاکستان نے مقبوضہ بلوچستان کے ساحلی پٹی کا اہم ترین حصہ وقتی صورت میں معاشی بحران سے چھٹکارے کی خاطر سی پیک جیسی خونی منصوبے کے نام پر چینی سامراج کے ہاں رہن رکھ دی ہے۔
سی پیک منصوبے پر قابض پاکستانی ریاست نے جن مذاکرات و معاہدات پر بات چیت و دستخط کیئے ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں جب وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے تب انہیں خبر تک نہیں ہونے دی گئی کہ وہ کاغذ کے کن پرزہ جات پر دستخط کررہے ہیں۔ حالانکہ انہی کاغذی پلندوں میں بلوچستان کا سودا کیا جارہا تھا۔
اب جبکہ سی پیک سے ملے رقوم اپنی فوجی استطاعت اور پنجاب کی بہتری کے لیے خرچ کر کے ایک بار پھر پاکستانی ریاست سنگین معاشی و اقتصادی بحران کی زد میں آگئی ہے، ایک بار پھر انہیں اپنی مشکلات سے نکلنے کے لیے بلوچ سرزمین کو گروی رکھنا پڑ رہا ہے، اس بار سعوی فرقہ پرست ریاست کے ساتھ آئل ریفائنری کے نام پر رقم ہھتیا کر بچا کچھا ساحلی پٹی فاشسٹ مذہبی اسٹیت سعودیہ کو دیا گیا ہے، جن پر جام کمال خان سردار کے دستخط لیئے جائینگے۔ یہی جام کمال خان کچھ روز پہلے کہہ چکے کہ بلوچستان کی بد قسمتی میں بڑا ہاتھ خود بلوچوں کا ہے یہ شاید ان کا اپنے اور اپنے جیسے پٹھوٶں کے متعلق غیر ارادی سچ تھا۔
بلوچ سرزمین کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس بے بس غریب کی خوبصورت بیٹی ہے، جسے محلے کا ہر ایرا غیرا بری نظروں سے تکتا رہتا ہے۔ بلوچستان پر دنیا بھر کی بری نگاہیں لگی ہوئی ہیں ہر کوئی اسے پانے کی جستجو میں ہے ہوسکتا ہے عالمی سامراج کی آپسی چپقلش کا سبب بلوچستان بنے۔
ایسے میں یہاں آباد مخلوق کے لیے سوچنے سمجھنے اور قدم اٹھانے کا نازک مرحلہ ہے۔ بلوچ بقاء کی آخری معرکے میں بہ حیثیت قوم پہلی بار جو خطرہ درپش ہے اس کے خلاف ایک منظم ہمہ جہت قومی مزاحمت کسی انتظار کے بغیر ضروری ہے۔ اس ہمہ جہت قومی مزاحمت کے لیے شعور پیدا کرنے کی جس قدر ضرورت آن پڑی ہے اس کا ادراک بد قسمتی سے ہم میں معدوم ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بلوچ خاک کا اہل دانش طبقہ بدتریں نسل کشی کا ادراک رکھ کہ بھی خاموش ہے انہیں بولنا اور اپنے طریقہ کار کے تحت مزاحمت کا حصہ بننا چاہیئے کیوںکہ بلوچستان پر جو آفت خدا نخواستہ آجائے اس کا اثر صرف یہاں کے ان جری سپوتوں پر نہیں پڑے گا، جو سرمچار بن کر وطن کے تحفظ کی خاطر سر کی بازی لگا چکے ہیں۔
چند دنوں سے بلوچستان کے معروف صحافی و سب سے بڑے اخبار انتخاب کے ایڈیٹر انور ساجدی بلوچستان کو درپش خطرات و نقصانات سے متعلق کچھ نا کچھ لکھ رہے ہیں، ان کی تحریریں شعوری مزاحمت کا حصہ ہوسکتی ہیں۔ ہمارے اہل دانش و قلم کو چاہیے کہ وہ اس پر اڑاند و تنقید کے بجائے اپنے طریقہ کار کے مطابق مذید اس عمل کا حصہ بن کر اسے عام لوگوں کے شعور کے لیے جتنی ہوسکے پھیلائیں۔ سرزمین کو لاحق قیامت خیزیوں کے بارے ایک وسیع قومی سوچ پیدا کرنے کے لیے قلم سمیت ہر وہ چیز جو ہمارے میں سے کسی کی دسترس میں ہے استعمال کریں۔ کسی کے نزدیک انور ساجدی آدھا سچ بول رہا ہے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ مصلحت پسندی کا شکار بھی ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ہر کسی کو اپنے پیرائے میں دیکھنے کے بجائے سب کی مجبوریاں سمجھنا چاہیں۔
انور ساجدی اگر اس نازک موقع پر آدھا سچ سامنے لارہے تب بھی بہت ہے ان پر تنقید کے بجائے کوئی اور آدھا سچ سامنے لانے کی کوشش کرے تاکہ سب مل کر اپنے طریقہ کار کے مطابق ایک وسیع و منظم قومی مزاحمت کا حصہ بنیں کہ یہ جنگ نا کسی انتظار کے انتظار کا متقاضی ہے اور نا برائے فروخت کسی برائے نام وار لارڈ کی راہ پر نگاہیں بچھائے ہوئے ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔