اصغر بنگزئی کی گمشدگی کو 17سال مکمل ۔ اہلخانہ کا پریس کانفرنس

225

ملکی قوانین کے مطابق ہمیں انصاف فراہم کیا جائے- اہلخانہ کا مطالبہ

بلوچ لاپتہ افراد کے لاحقین کی جانب سے لاگئے گئے احتجاجی کیمپ میں لاپتہ علی اصغر بنگلزئی کے بیٹے کی پریس کانفرس سترہ سالوں میں ہمارا خاندان اپنے والد کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی، معاشی اور بہت سے دوسرے مشکلات برداشت کرچکی ہے۔ہمیں ہمارے جینے کا حق دیا جائے –

جبری طور پر لاپتہ اصغر بنگلزئی کے بیٹے نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کیمپ میں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد علی اصغر کو 18 اکتوبر 2001کو محمد اقبال کے ساتھ ملکی اداروں کے اہلکاروں نے ڈگری کالج سریاب کے سامنے شام 7بجے گرفتار کرکے جبری طور پر لاپتہ کردیاتھا۔ محمد اقبال کو بائیس دن بعد چھوڑ دیا گیا لیکن میرے والد تاحال حکومتی اداروں کے تحویل میں ہے جبکہ میرے والد کی جبری گمشدگی کو آج 17سال مکمل ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ ان 17سالوں میں ہم نے اپنے والد کے بازیابی کے لیے پرامن احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے انصاف کی فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں میں ملکی قوانین کے مطابق قانونی جنگ لڑرہے ہیں۔ اس دوران والد کے ساتھ گرفتار ہونے والے محمد اقبال نے ہر فورم پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے جس میں وہ میرے والد کی حکومتی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کی تصدیق کرچکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ2007میں سابق ایم این اے حافظ حسین احمد نے اپنے پیڈ پر اپنے ہاتھوں سے لکھا کہ حکومتی اداروں نے میرے سامنے اصغر کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے اس کے علاوہ جون 2010کو حکومتی کمیشن برائے لاپتہ افراد کے سامنے بھی حافظ حسین احمد پیش ہوئے وہاں پر ان سے کہا گیا کہ آپ کی عزت کا سوال ہے لہٰذاہم آپ کو قسم نہیں دیتے ،آپ تحریری طور پر اپنا بیان لکھ کردے تو انہوں نے کمیشن کے عہدیداروں سے کہا میری عزت بھی علی اصغر کے اہلخانہ کی تکلیف سے زیادہ نہیں۔ آج قسم اٹھاکر بیان دونگا تاکہ کسی کو کوئی شک و شبہ نہ ہو۔ انہوں نے کمیشن کے سامنے قسم اٹھاکر اپنا بیان ریکارڈ علی اصغر کے جبری گمشدگی کے حوالے سے کرایا کہ آئی ایس آئی کے بریگیڈیر صدیق سے بات ہوئی تو انہوں نے علی اصغر کی گرفتاری کی تصدیق کی اور ان کے جلد رہائی کا وعدہ بھی کیا۔ کمیشن کے ریکارڈ میں حافظ صاحب کا بیان موجود ہے جس کی ایک کاپی کمیشن کے سیکریٹری نے ہمیں بھی فراہم کی ہے اوراس کی ایک کاپی ہم نے مئی 2016میں سپریم کورٹ میں بھی جمع کردیا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ اور کمیشن کے حکم پر میرے والد کے کیس کی JITبھی ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے جو بیانات ریکارڈ ہوئے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علی اصغر کو حکومتی اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کیا ہے۔

انہوں کہا کہ یہاں ملک میں بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے انصاف کی فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں کے سامنے ملکی اداروں کے خلاف ٹھوس شواہد آئے ہیں تواداروں پر حکومت کے طاقتور اداروں کی طرف سے دباؤ بڑھ جاتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں قانونی کاروائی نہ کریں بلکہ ان کیسز کو پیچیدہ اور خراب کرنے کے ساتھ ساتھ لاپتہ افراد کے لواحقین اور ان کے گواہوں کو حکومتی اداروں کی طرف سے ڈرا دھمکاکرقانونی طریقے سے کیسزکو چلانے سے روکا جاتا ہے جو یقیناًانصاف کا گلہ گھونٹنے کے مترادف ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن ہم واضح کرتے چلے کہ ہم جذباتی نہیں ہونگے، قانون کے اندر رہ کر اپنے والد کے بازیابی کیلئے جدوجہد آخری دم تک کرینگے۔

لہٰذا ہم حکومت اور انصان کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔ ملکی قوانین کے مطابق یہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہمیں انصاف فراہم کریں۔ اگر ملکی ادارے مجھے میرے والدہ اور بہن بھائیوں کو انصاف نہ دے پائے تو ملکی قوانین اور اسلام کے روح کے مطابق وہ سارے ہمارے مجرم ہونگے کیونکہ ان 17سالوں میں ہمارا خاندان اپنے والد کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی، معاشی اور بہت سے دوسرے مشکلات برداشت کرچکی ہے۔ہمیں ہمارے جینے کا حق دیا جائے اور ہمیں فوری طور پر انصاف فراہم کیا جائے۔