یورپی یونین و ایران تجارتی سرگرمیاں برقرار رکھنے پر متفق

73
امریکی پابندیوں کے باوجود یورپی یونین اور ایران نے ایک نیا ’تجارتی لائحہ عمل‘ اپنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ امریکی پابندیوں کے خوف سے متعدد یورپی کمپنیاں پہلے ہی ایران چھوڑ چکی ہیں جبکہ ایرانی کرنسی شدید زوال کا شکار ہے۔

ایرانی جوہری معاہدے میں شامل باقی عالمی طاقتوں نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ رقوم کے لین دین کے لیے ایک نیا راستہ کھولیں گی۔ نئے چینل کے ذریعے ایرانی درآمدات، برآمدات اور خام تیل کی فروخت کو ممکن بنایا جا سکے گا۔

یہ فیصلہ بند دروازوں کے پیچھے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا ہے۔ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور یورپی یونین کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے، ’’فوری طور پر مستحکم نتائج کی ضرورت ہے۔ شرکاء نے ادائیگی کے چینلز کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کے لئے عملی تجاویز کا خیر مقدم کیا ہے، خاص طور پر ایرانی برآمدات کی اسپیشل پرپز وہیکل (ایس پی وی) کے ذریعے ادائیگیاں۔‘‘

اس گروپ کی طرف سے مزید کہا گیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے جائز اقتصادی آپریشنز کی تکمیل کے لیے اپنی معاشی آزادی کی حفاظت کے لیے پرعزم ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ’ایس پی وی‘ نظام سن 2015 کی عالمی جوہری ڈیل میں دوبارہ جان ڈال سکتا ہے اور امریکی پابندیوں کے باجود ایران بیرونی ممالک کے ساتھ اپنا کاروباری سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے۔

یورپی یونین ابھی تک ایسی مختلف آپشنز پر غور کر رہی تھی کہ کس طرح ان یورپی کمپنیوں کو امریکی پابندیوں سے بچایا جائے، جو ایران میں کاروبار کر رہی ہیں۔

دوسری جانب یورپی کی متعدد بڑی توانائی اور کار ساز کمپنیاں ایران میں اپنی تمام تر سرگرمیاں بتدریج معطل کرنے کا سلسلہ یا تو جاری رکھے ہوئے یا ایسا کر چکی ہیں۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے خوف سے پہلے ہی ایرانی معیشت متاثر ہونا شروع ہو چکی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں ایرانی کرنسی کی قدر میں انتہائی غیر معمولی کمی ہوئی ہے۔

یورپی یونین میں خارجہ امور کی سربراہ فیدریکا موگیرینی نے کہا ہے کہ ایران کو ادائیگیوں کے راستے میں حائل تکنیکی مسائل کے حل کے لیے کام شروع کر دیا جائے گا تاکہ رقوم کی منتقلی کو ’قانونی حیثیت‘ حاصل ہو سکے۔

دنیا کی ان طاقتوں کی جانب سے یہ بیان پیر چوبیس ستمبر کو سامنے آیا ہے تو اگلے دن یعنی منگل پچیس ستمبر کو امریکی اور ایرانی صدور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ ایران کے حوالے سے ماضی کی طرح سخت لہجہ اپنائیں گے۔