ہماری سیاسی نا پختگی
تحریر ۔ توارش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ مہینوں سے سوشل میڈیا میں مِسنگ پرنسز کے حوالے سے کافی بحث و مباحثہ دیکھنے کو مل رہا ہے، بحث کا آغاز اُس وقت شروع ہوا جب بی این پی مینگل و اُس کے ٹولے نے انتخابات کے وقت لاپتہ افراد کے مسئلے کو پولیٹکل سکورنگ کیلئے استعمال کیا تاکہ وہ اپنے لیئے بلوچ قوم سے ہمدردی بٹور سکیں۔ اسی سلسلے کو مینگل کی ساری پارٹی لیڈرشپ نے اپنایا اور ہر کسی نے اپنے پہلے ترجیحات میں لاپتہ افراد کا معاملہ رکھا جبکہ اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں کہ بلوچ سیاسی کارکناں طلبا سمیت ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت آئے دن بلوچستان میں بےگناہوں کی گمشدگی کا سلسلہ آج کا نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ 15 سال سے بدستور جاری و ساری ہے، جس میں ہر نئی حکومت کے بعد شدت آئی ہے جبکہ لاپتہ افراد کی زیادہ تر مسخ شدہ لاشیں آج بلوچستان کے ہر کونے میں دریافت ہوئیں ہیں۔ سیاسی ورکروں سے لیکر عام بلوچ کو بے دردی سے قید خانوں میں بےرحمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مسخ شدہ لاش پھینکی گئی ہیں، کسی کا کھال اترا ہوا مسخ شدہ لاش پایا گیا ہے، تو کسی کا جسم سگریٹ سے جلا ہوا پایا گیا ہے، کسی کے جان پر چاقو سے پاکستان زندہ باد لکھا گیا ہے، تو کسی کے ہاتھ پاؤں تڑے ملے ہیں، اذیت و تشدد کے بارے میں جو ہم کہانیاں کتابوں میں پڑھتے تھے، کئی عشروں سے بلوچستان میں اپنے آنکھوں سے دیکھتے آ رہے ہیں۔
یہ سلسلہ دو تین مہینے کا نہیں جو کہ میں کہوں کہ شاید اختر مینگل اپنے لیڈرشپ سمیت ناواقف تھے بلکہ بقول اختر مینگل خود یہ سلسلہ 15 سالوں سے جاری ہے تو پھر وہ کیا وجہ تھی کہ اختر مینگل کو اب بلوچ مِسنگ پرنسز کی یاد آئی ہے؟ اسی دوران 5000 سے زائد سیاسی کارکنان بلوچ طلباء ڈاکٹرز وکلا سمیت ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا ہے، کیا پانچ ہزار لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں، لاپتہ افراد کیلئے آواز اُٹھانے کیلئے کم ہیں؟ کیا ان پانچ ہزارہ لاشوں کی کوئی سزا و جزا نہیں؟ کیا ان پانچ ہزار لوگوں کو بھول کر خوش ہو جائیں کہ 10 بےگناہ لاپتہ افراد رہا کیئے گئے بلکہ حقیقت میں ہم سمجھ ہی نہیں رہے ہیں کہ کیا گیم چل رہی ہے حقیقت میں مسئلہ لاپتہ افراد کا نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کہ تحت بلوچ نوجوانوں کے ذہن کو دوسری جانب موڑا جا رہا ہے، جس دن پاکستانی ایجنسیاں دس لوگوں کو رہا کر دیتے ہیں اُسی دن بلوچستان کے مختلف علاقوں سے درجنوں سے زیادہ لوگوں کو غائب کیا جاتا ہے جبکہ میڈیا میں بس انہی دس رہا ہوئے لوگوں کی خبریں گردش کرنے لگتی ہے جبکہ وہ درجنوں افراد جو اُسی ہی دن غائب ہوئے کا کوئی بھی پوچھتا نہیں جبکہ ان بازیاب شدہ افراد میں سے زیادہ تر لوگ مختلف امراض کا شکار اور ذہنی حوالے سے مفلوج ہوتے ہیں۔ جن کا اب اُنہیں جیل خانوں میں کوئی ضرورت نہیں ہوتا جبکہ کچھ ایسے جیلیں ہوتے ہیں جیسے کے تربت ٹارچر سیل ہے، جہاں لوگ بھرے ہوئے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ بازیابیاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔
یہ ایک ریاستی سوچا سمجھا منصوبہ ہے، جیسے ہم سمجھنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں ہمارے کچھ سیاسی دوست انجانے میں اپنے اصل ہدف کو کھو بیٹھے ہیں، اگر ہم یاد کریں تو یہ جبری گمشدگیاں یوں نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک مقصد ہے ہم یہ پہلے ہی بخوبی جانتے تھے کہ اگر بلوچ اپنی آزادی خودمختاری اور اپنے آزاد ریاست کی بحالی کے لئے آواز بلند کرے گا اپنے مادر وطن کی مکمل آزادی کی بات کرے گا، تو دشمن اپنی پوری زور آزمائے گا اور ہر وہ حربہ استعمال کرے گا، جس سے تحریک کو نقصان پہنچے، تحریک کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ہی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ کوئی انوکھا عمل نہیں بلکہ یہ عمل ہمیں ہر قبضہ گیر کی جانب سے دیکھنے کو ملا ہے کہ اگر کسی محکوم قوم نے اپنی آزادی کی بات کی ہے تو قبضہ گیر نے ہر وہ عمل اپنایا ہے، جس سے محکوم کی تحریک کو نقصان پہنچے، اس لیئے ہمیں اس بات پر حیرانگی نہیں ہونا چاہیئے کہ لوگ کیوں لاپتہ ہوئے ہیں؟ کیونکہ اس عمل کا ادراک جنگ شروع کرنے سے پہلے ہی ہمیں تھا ایک دفعہ شہید واجہ غلام محمد نے کہا تھا کہ اس جنگ کا آغاز ہم نے شعوری طور پر کیا ہے، دشمن نے نہیں اس لیئے جنگ میں نقصان تو ضرور ہوگا۔
ایک ادنیٰ سیاسی کارکن کے بحیثیت میں نے بلوچ تحریک میں یہ مشاہدہ کیا ہے کہ ہم اپنے اختیارات کو سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہے ہیں، اگر بلوچ تحریک کا بغور جائزہ لیا جائے اس میں سب سے بڑی ایک غلطی یہ رہی ہے کہ ہم نے ہمیشہ اپنے کام نہیں کیئے اور اپنے ذمہ داریوں کو سمجھنے سے قاصر رہے، ہر کوئی اپنے کاموں سے غافل رہا ہے یہی عمل تحریک کیلئے زیر قاتل ثابت ہوا ہے اپنے واک و اختیارات سے بالاتر ہوکر ہم نے کام کرنا چاہا، جس کے نقصانات آج ہمارے سامنے عیاں ہیں کہ ہر کوئی سیاسی کارکن ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ بن چُکا ہے۔
بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگیں مسئلہ ہے جس سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کر سکتا لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جبکہ یہ لوگ اغواء ہی اسی جنگ کے سبب ہوئے ہیں، یہ بات یقینی ہے کہ جب تک بلوچ قومی تحریک جاری رہےگی دشمن لوگوں کو لاپتہ کرنا نہیں چھوڑے گا جبکہ اس عمل کو مزید وسعت دے گا، جبکہ دوسری جانب جب بھی بلوچ لیڈرشپ نے آزادی سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا اُسی دن ریاست سارے لاپتہ افراد کو بازیاب کرے گا تو اس چھوٹی سی بات کو سمجھنے سے ہم کیوں قاصر ہیں دشمن ہمارے اسی غیر دانستہ عمل سے فائدہ اُٹھا رہا ہے بلکہ میں یہ کہتے ہوئے غلط نہیں ہونگا کہ دشمن ہمارے اس عمل سے فائدہ اُٹھا چُکا ہے اور دنیا و پاکستان میں یہ تاثر ایک حد تک پھیلانے میں کامیاب ہو پایا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ اب بس لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے جبکہ بلوچستان میں بھی ریاست کے کٹھ پتلیاں اس بات کو پھیلانے میں ایک حد کامیاب ہو پائے ہیں جبکہ اصل مسئلہ آزاد بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں ہم دشمن کا غیر دانستہ طور پر خوب ہاتھ بٹا رہے ہیں۔
اختر مینگل اور اس کے حواریوں کی بھی کوشش رہی ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو جو عوامی پذیرائی ملی ہے کو ختم کریں جبکہ بلوچ قوم کا توجہ دوسری جانب موڑنے کی کوشش کریں، اسی پر عمل پیرا ہوکر اختر مینگل نے بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ زور سے اُٹھایا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ اُٹھا کر قوم سے ہمدردیاں حاصل کرے گا جبکہ دوسری جانب بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو لوگوں کے ذہنوں سے نکال دینے کی کوشش کرے گا، اب یہ ہم ہر منحصر ہے کہ ہم اختر مینگل و اس کے حواریوں کے اس دوغلے پن کو کیسے کاؤنٹر کر سکتے ہیں جبکہ ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ اختر مینگل کا نظریہ سامنے لانے کے بجائے اصل ہدف کیلئے کیمپیئن چلائیں۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین و گمبھیر مسئلہ ہے اس سے کوئی بھی انکاری نہیں ہے البتہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ افراد لاپتہ ہوتے ہی کیوں ہیں؟ جبکہ گمشدگی کا سبب جدوجہد سے لوگوں کی وابستگی ہے ہمیں چاہیئے کہ قوم کے اندر دشمن کے اس عمل کے خلاف آگاہی پھیلائی جائے، اگر ہم گمشدگی کے واقعات کا جائزہ لیں تو اُن علاقوں میں ایسے واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں جہاں بلوچ جدوجہد آزادی منظم ہے، جبکہ ان علاقوں میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے جہاں لوگ بلوچ جدوجہد سے وابستہ نہیں ہیں۔ ہمارے دوستوں اور کامریڈوں کو سمجھنا ہوگا کہ اگر گمشدگی کا سلسلہ بند ہو جائے، گھروں پر بمباری کا سلسلہ بند ہو جائے فوج کا عوام پر جبر و ظلم ختم ہو جائے، تو اس صورت میں ہماری کامیابی نہیں ہوگی بلکہ ہم ناکام ہونگے کیونکہ یہ اُس صورت ہو سکتا ہے جب عام لوگ ریاست کے ساتھ بیٹھنے کو راضی ہونگے جبکہ آزادی مانگنے والوں کو ریاست چاکلیٹ نہیں کھلائی گی، جبری گمشدگیاں ریاستی جبر و ظلم تب تک جاری رہیں گی جب تک ایک بلوچ بھی آزادی کا مطالبہ کرے گا۔
ذاکر مجید آج 9 سالوں سے کس لیئے زندان میں ہے؟ ڈاکٹر دین محمد کس وجہ سے اتنے عرصے سے بند ہیں؟ سنگت زاہد، ثنااللہ بلوچ، شبیر بلوچ، حسام نصیر سمیت ہزاروں لوگ کیوں گمشدگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ یقیناً بلوچستان کی پاکستان سے مکمل آزادی کیلئے ناکہ مِسنگ افراد کی بازیابی کیلئے، وہ ایک آزاد ریاست کی خاطر اس اذیت کا سامنے کر رہے ہیں، باہر بہت سارے دوست چلے گئے ہیں سب لوگ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ بن چُکے ہیں اتنی کوشش لاپتہ افراد کا مسئلہ اُٹھانے کے بجائے آزاد بلوچستان کیلئے کرتے تو شاید باہر کچھ لوگ بلوچستان کی قومی جدوجہد سے آگاہ ہوتے لیکن باہر جاکر سب سوشل لوگ بن چُکے ہیں، میں اُن سے عرض کرتا چلوں کہ میرے عظیم کامریڈوں یہاں خاندانوں کے خاندان آزادی کیلئے شہید ہوئے ہیں ہزاروں ماؤں نے اپنے لخت جگر آزاد ریاست کی بحالی کیلئے قربان کئے ہیں اور کر رہے ہیں۔
میں قطعاً لاپتہ افراد کے معاملے میں اُٹھنے والے آوازوں کی خلاف ورزی نہیں کر رہا، میں چاہتا ہوں کہ مِسنگ پرسنز بازیاب ہو جائیں لیکن اس قیمت پر نہیں کہ آج اختر مینگل نے رکھا ہے جبکہ ہمیں اس حقیقت سے انکاری نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم کس ریاست سے نبرد آزما ہیں، پاکستان اگر سیاسی زبان سمجھتا تو آج بلوچ کو بندوق اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن بلوچ نے بندوق اور مسلح جنگ کو ترجیح ہی اس لیئے دیا ہے کہ پاکستان سیاسی زبان نہیں سمجھتا بلکہ طاقت سے قبضہ کیئے گئے ریاست سے طاقت کے ذریعے سے ہی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔
باہر بیٹھے ہوئے لوگ بلوچ سرمچاروں کی کھل کر حمایت کر سکتے ہیں اور لوگوں تک اُن کے بندوق کے نظریہ کو سمجھا سکتے ہیں، اُنہیں چاہیئے کہ بجائے سارا دن ہیومن رائٹس اداروں سے بلوچوں کی بازیابی کا مطالبہ کرنے کے کچھ وقت اُن عظیم سرمچاروں کی پرچار کرنے میں صرف کریں، جو آزادی کیلئے پہاڑوں پر سخت مشکل زندگی بسر کر رہے ہیں جن کا روز موت سے سامنا ہوتا ہے جن کا مقصد ایک آزاد بلوچستان ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ بلوچ سرمچار بلوچ قوم کی حقیقی فوج ہے اور بلوچ سرمچاروں کی مرضی و منشا کے بغیر دنیا کا کوئی بھی سرمایہ بلوچستان میں پایا تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا، لیکن اس طرح کا کوئی بھی عمل ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتا کچھ دنوں پہلے 11 اگست کو بی ایل اے کے سرمچار شہید ریحان بلوچ نے چائینز انجئینرز پر خود کش حملہ کیا تھا، تنظیم کی جانب سے حملہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ چائینا کو ایک واضح پیغام پہنچائیں کہ وہ بلوچ نسل کشی میں پاکستان کا ہاتھ بٹانا بند کر دیں اور اپنا سرمایہ بلوچستان سے نکال دیں لیکن حملے کے بعد کچھ ہی سوشل میڈیا کارکنان نے ریحان کی قربانی کو سراہا اور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے چائینز ذمہ داروں تک یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی جبکہ دوسرے جانب ہمیں خاموشی دیکھنے کو ملی میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس پر ہمیں زیادہ بات کرنا ہوتا ہے ہم خاموش ہو جاتے ہیں جبکہ دوسرے چیزوں پر اپنا پورا وقت دے دیتے ہیں۔
باہر بیٹھے کچھ دوستوں کا اسرار ہے کہ اگر ہم سرمچاروں کی حمایت کریں تو ہمیں باہر مسئلہ ہو سکتا ہے ہمارے لیے سیاسی پناہ لینا مشکل ہو سکتا ہے، میں اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ سیاسی پناہ کس لیئے لے رہو ہو اپنی جان بچانے کیلئے یاکہ قومی آزادی کا پیغام دنیا کو پہنچانے کیلئے آپ کے سیاسی پناہ کو مسئلہ ہے تو آپ خاموش ہیں جبکہ یہاں لوگوں کے گھروں پر بمباری ہو رہا ہے نوجوان آئے روز دشمن کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زندان میں قید و بند ہیں اور ہزاروں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں ہیں کیا ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق نہیں تھا؟ کیا بلوچستان میں آزادی کیلئے جدوجہد کرنے سے آپ کی جان کو خطرہ لاحق نہیں ہے اگر ہے تو آپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ باہر اپنا فرض پورا کریں، ایک انقلابی جہدکار کیلئے لفظ جان کو خطرہ میری سمجھ سے باہر ہے، دوسرے قوموں کی تحریک سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ قربانیوں کے بغیر آزادی حاصل نہیں ہوتا۔
آخر میں اپنے دوستوں سے اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا ہمارے لیئے اُس وقت تک کچھ نہیں کرے گا جب تک ہم دنیا کو یہ باور نہ کرائیں کہ ہم بھی ایک مضبوط طاقت رکھتے ہیں دنیا کبھی بھی بلوچستان کو سپورٹ نہیں کرے گا اور جب دنیا ہماری طاقت مزاحمت اور مظبوط جدوجہد سے آگاہ ہوگا تبھی ہماری مدد کرنے کو تیار ہوگا، لاپتہ افراد کا مسئلہ اجاگر کرنے سے ہم دنیا کو یہ ثابت نہیں کرا سکتے ہیں کہ بلوچ قوم صرف اور صرف آزادی چاہتا ہے جس کیلئے بلوچ قوم ہر قیمت ادا کرنے کو وہ تیار ہے جبکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ دو صورتوں میں حل ہوگا، بلوچستان کی مکمل آزادی یاکہ جدوجہد سے دستبرداری انہی دو صورتوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے اس لیئے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ اصل ہدف پر توجہ دینے کی کوشش کریں۔