کوہ ماران کا سرمچار شہید نصراللہ بلوچ
تحریر۔ واجو بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں ہر زندہ شے کو موت کا سامنا کرنا ہے۔ ہر زندگی کو موت آتی ہے۔ موت صرف جسمانی جدائی کا نام ہے۔ وہ جدائی جوکہ انسان اس فانی دنیا کو چھوڑ کر ابدی نیند سو جاتی ہے۔ دنیا سے رخصت ہونے والوں میں بعض اپنے نام و نشان کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں مطلب ان کے وجود کو موت ہمیشہ کیلئے ختم کردیتی ہے۔ کچھ دن اپنے رشتہ داروں کے درمیان یاد رہنے کے بعد ان کو بھول کر کوئی یاد کرنے والا نہیں رہتا۔ لیکن کچھ ایسے ہستیاں بھی دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، جن کا نام و نشان تا قیامت تک زندہ رہے گا۔ وہ جسمانی طور پر جدا ہوتیں ہیں لیکن سوچ، فکر اور نظریئے کے اعتبار سے ہمیشہ اپنوں اور بیگانوں کے بیچ زندہ رہتا ہے۔ صرف فرق زندگی کے مالک کے کردار کا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے “سو سال زندہ رہنے کیلئے سو سال کی زندگی درکار نہیں ہوتی بلکہ کوئی ایسا کردار ادا کیا جائے جو سو سال زندہ رہنے کا سبب بنے”۔ اگر آج کچھ ہستیاں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی دنیا میں ان کے کردار اور کارناموں کا گن گایا جارہا ہے تو یہ ان کی ایک سوچ و فکر کے پیروی کرتے ہوئے اپنے مقصد پر ڈٹ کر مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے، تاقیامت ان کے کردار زندہ رہیں گے۔ یہ ہے اصل زندگی اور ایسی زندگی کو موت کبھی مٹا نہیں سکتی۔ ایسی زندگی کا وجود ہمیشہ کیلئے زندہ رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک زندگی شہید نصراللہ بلوچ عرف واجہ کا نام بھی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے زندہ والے کردار کا ہے۔
شہید نصراللہ بلوچ بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے دشت میں آنکھ کھولنے والا وہ فرزند تھا جس کا کسی کو گمان نہیں تھا کہ ایسے پسماندہ علاقے سے ایک ایسے بلند سوچ اور فکر سے لیس ہونے والا باشعور نوجوان بھی نکل سکتا ہے۔ ایک ایسا باشعور نوجوان جو کم عمری میں وطن کا سچا سپاہی بن کر ہمیشہ کے لیئے تاریخ میں امر ہوگیا۔ شہید نصراللہ بلوچ اپنے تعلیم کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکا۔ وطن کی دکھ اور درد کو محسوس کرکے تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر ایک سرمچار کے حیثیت سے اپنے ذمہ داریوں کو جوانمردی سے ادا کیا۔ ویسے تعلیم کا حقیقی مقصد بھی یہی ہے جو انسان کو اپنی وجود کا برقرار رکھنے اور ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کا ہے۔ میرے نزدیک شہید نصراللہ ایک حقیقی تعلیم یافتہ نوجوان تھا جو ایک ہمیشہ زندہ رہنے والی زندگی کا مالک بن کر بلوچستان کے تاریخ کا ایک روشن باب ثابت ہوا۔
انسانی شعور کا تعلق دنیاوی تعلیم کا محتاج نہیں بلکہ اس شعور کا تعلق اس کی سماج اور معاشرے، تہذیب و تمدن، تاریخ اور ان اسلاف کے کردار سے جڑا رہتا ہے۔ شہید نصراللہ بلوچ اپنی وطن کے دکھ اور درد کو محسوس کرکے دشمن کی ظلم کے آخری حد کو پار کرنے والے کردار کو روکنے اور ان کی تمام قبضہ گیر منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے عملی میدان میں ایک سرمچار کے حیثیت سے اتر گیا۔ پہاڑوں کو اپنا مسکن بناکر اپنی وطن کی حفاظت میں ہر وقت دشمن کے تاک میں بیٹھا رہتا تھا۔ یہی عمل کو شہید نے آخری دم تک نبھایا اور اپنے کردار سے بلوچ قوم کے وجود کو تقویت بخشا۔
بلوچستان کا ہر علاقہ، میدان، پہاڑ، جنگل، صحرا اور ساحل آج ایک بہادر فرزندکی بہادری کے داستان کا گواہ ہے۔ ایسے ہی کوہ ماران کے پہاڑ نے بھی ہمارے بہادر سپاہی شہید نصراللہ کی بہادری کے داستان کو اپنی سینے میں تا قیامت تک محفوظ کردیا ہے۔ آنے والی نسل کو یہ داستان ضرور سنائے گا کہ شہید نصراللہ وطن کا وہ سچا عاشق تھا جو بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرتا رہا، مگر پیچھے ایک قدم بھی نہیں ہٹا۔ شہید دھرتی کے وفادار سپاہیوں میں ایک ایسا سپاہی تھا جو وطن کے آزادی کے جدوجہد میں ہر کام کو تسلی اور منصوبے کے تحت تکمیل کرتا تھا۔ اپنے ہمسفر ساتھیوں کے دیکھ بال اور ان کا خدمت خندہ پیشانی سے کرتا تھا۔ علاقائی سطح کی ذمہ داریاں ہوں یاکہ پہاڑوں میں جنگی قانون ہر وقت اپنی ذمہ داریوں کو جوانمردی سے ادا کرتا تھا۔ جنگی محاذ پر ان کا ہر وقت مسکراتا چہرہ دوستوں کیلئے ہمت اور حوصلہ بخشنے کا مقام تھا۔
یہ 29 مارچ 2018 کا وہی بدقسمت دن تھا، جب شہید نصراللہ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کا دشمن سے سامنا ہوا۔ اس دوبدو لڑائی میں شہید نصراللہ اپنے ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے میں اور خود جام شہادت نوش کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ وطن کا سچا عاشق بن کر تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔
شہید نصراللہ بلوچ جسمانی طور پر اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا لیکن ان کے مخلصانہ کارنامے آج بھی بلوچستان کے سرمچاروں کیلئے ایک روشن باب کے مانند ہیں۔ شہید کے قربانی، ہمت، جذبہ اور وطن دوستی ایک مثال ہے نوجوانوں کیلئے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔