چاچا اللہ بشک بزدار کا جوابی کالم سہیل وڑائچ کے نام
دی بلوچستان پوسٹ
جناب سہیل وڑائچ صاحب !
میں بزدار قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں۔ سیاسیات اورادب کا ادنیٰ طالبعلم ہوں۔ جمہوریت اور انسان دوست نظریات سے وابستگی میرے لئے سرمایہِ حیات ہے۔ زندگی بھر جارحانہ قوم پرستی اور تشدد کے پرچار سے امکان بھر اجتناب برتا کیا۔ میں نے نفرت سے نفرت کو جزوِ ایمان بنایااور معتبر اہل قلم کوامیر کارواں جانا۔
نئے پاکستان میں وزارت اعلیٰ پنجاب کے منصب کیلئے عثمان بزدار کی نامزدگی اور انتخاب پر آپ اور پنجاب کے دیگر محترم اہل قلم کے تبصروں میں الفاظ کے غیر معمولی چناؤنے مجھے زیر نظر مضمون تحریر کرنے کی تحریک دی۔ الفاظ کی موزونیت اور غیر موزونیت کا فیصلہ آپکے منصفانہ مزاج پر چھوڑتے ہوئے چند تاریخی حقائق کیطرف آپکی توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ تاکہ واقعات و حادثات کا کُھرا لگانے میں آسانی ہو۔
انیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں ڈیرہ غازیخان اور راجن پورکے آزاد و خانہ بدوش بلوچ قبائل نے انگریز کی اطاعت قبول کی۔ بدلے میں ان قبائل کے سرداروں کومیاں چنوں(پنجاب) میں زرعی زمینیں الاٹ ہوئیں۔ مجسٹریسی کے اختیارات سے نوازا گیااور مقامی لوگوں پر مشتمل ایک فورس ( بارڈر ملٹری پولیس)تشکیل دیکر اسکے عہدے بھی انہیں سردار گھرانوں کو دان کیئے گئے۔ اس فورس کے ملازمین کی تنخواہوں کا 5فیصد بھی سردار کو ادا کرنے کا حکم صادر ہوا۔ ان سرداروں کو ضلعی ھیڈ کوارٹر ڈیرہ غازیخان میں بڑے بڑے رہائشی قطعات بخشے گئے۔ الاؤنسوں اور وظائف کی بارش کی گئی۔
ان قبائل کی سیاسی نگرانی فاٹا کیطرح وائسرائے ہند کے سپرد ہوئی۔ روز مرہ کے انتظامی امور کی انجام دہی کیلئے گورنر پنجاب وائسرائے کا نمائندہ مقرر ہوا۔ بلوچ قبائلی علاقہ جات ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کیلئے معمول سے ہٹ کر پولیٹیکل اسسٹنٹ کا عہدہ تراشا گیا۔ اور اسے مقامی پولیس (بارڈر ملٹری پولیس اور لیویز) کی سربراہی کے ساتھ ساتھ عدالتی معاملات کا بھی ذمہ دار بنایا گیا۔ تمام فوجداری اور دیوانی معاملات حتیٰ کہ دفعہ 302ت پ کے مقدمات بھی جرگوں کے ذریعے طے پانے کا اصول اپنایا گیا۔ جرگہ ممبران کا انتخاب پولیٹیکل اسسٹنٹ مقامی قبائلی وفادار افراد سے کرتا تھا۔ اس نظمِ بست و کشاد کو اہل نظر نے سنڈیمن سسٹم کا نام دیا۔ یوں قبائلی اقدار کے حامل سماج کو چند سرداروں کے رحم وکرم پہ استوار ایک بانجھ معاشرے میں تبدیل کر دیا گیا۔
26 نومبر 1946 کو نواب جمال خان لغاری، سردار دودا خان مری اور شہید نواب اکبر بگٹی نے ایک عرضداشت کے ذریعے انگریز حکام سے مطالبہ کیا کہ برصغیر کی آزادی کے بعد ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے بلوچ اور مری بگٹی قبائل کا الحاق ریاست قلات سے کر دیا جائے۔
پاکستان بننے کے بعد قائدِاعظم نے ایک فرمان جاری کیاکہ جب تک ڈیرہ غازیخان، راجن پور اورمری بگٹی قبائل اپنے مستقبل کا فیصلہ خود طے نہیں کرتے اسوقت تک انکی قانونی اورآئینی حیثیت سابقہ صورت میں بحال رہے گی۔ اور انہیں حسب سابق مراعات و حقوق بھی حاصل رہیں گے۔
اسی تناطر میں یکم مارچ 1949 کوگورنر پنجا ب سر فرانسس مودی کی زیرصدارت ڈیرہ غازیخان میں ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں ڈیرہ غازیخان اورراجن پورکے بلوچ قبائل نے متفقہ طورپر بلوچستان میں شمولیت کی خواہش کا اظہارکیا۔ لیکن اس متفقہ قرارداد کے علی الرغم1950ء میں ان قبائلی علاقہ جات کو جرگہ نظام و روایات کی برقراری، قبائلی معاملات میں عدم مداخلت اور ترقی دینے کی یقین دہانیوں کے ساتھ پنجاب میں مدغم کیاگیا۔ فورٹ منرومیں الحاقِ پنجاب کی تختی اب بھی نصب ہے۔جس پر وہ اسماء گرامی درج ہیں جنھوں نے الحاقِ پنجاب کا فیصلہ صادر کیا۔ اس فہرست میں کمشنر ملتان ڈویژن کے علاوہ ڈیرہ غازیخان و راجن پور کے بلوچ سرداروں اورتحصیلدار قبائلی علاقہ کے نام کے ساتھ ساتھ جمعدار ورکس کا نامِ نامی بھی درج ہے۔ حال ہی میں اس تختی پر سیمنٹ کا پلستر چڑھادیا گیا۔تاکہ اس بھونڈے پن کو یاداشتوں سے محوکیا جا سکے۔
الحاق پنجاب کے چند ہی سال بعد ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے تمام قبائلی معتبرین نے ضلع کے حاکم اعلیٰ کو ایک عرضداشت پیش کی۔ جس کے مندرجات کچھ یوں تھے۔ ”ہمارے ساتھ جو سلوک حکومت پنجاب نے روا رکھا ہوا ہے۔ اسطرح کا رویہ سکھ اور انگریز دور میں بھی اختیار نہیں کیا گیا۔ہمیں پنجاب کی عملداری سے نکال کر اگر بلوچستان میں شامل نہیں کر سکتے تو براہ کرم صوبہ سرحد یا فاٹا میں ہی شامل کر دیں۔”
67 19ء میں بزدار قبیلہ اپنی استطاعت کے مطابق ایوبی آمریت کے خلاف مزاحمت پر اتر آیا۔ جانیں گنوائیں اورغداری کا الزام سجائے سینکڑوں کی تعداد میں جیل ہوئے۔ اس کے بعد ہم اپنے اندر دفن ہوتے گئے۔ ہمیں خود اپنی صدا ئیں سُنائی دینا بند ہو گئیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے جرم میں ہماری روحوں کو منجمد کر دیا گیا۔
جناب و ڑائچ صاحب !
سرداروں کے مجسٹریٹی اختیارات اور جرگہ سسٹم کے خاتمے کے علاوہ سنڈیمن سسٹم آج بھی اپنی مکمل آب و تاب کیساتھ قائم ہے۔ ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے اضلاع میں واقع تقریباً آٹھ ھزار مربع میل پر مشتمل بلوچ قبائلی علاقہ جات میں ایک بھی بوائز یا گرلز کالج تو کُجا ایک ھائر سیکنڈری سکول بھی موجود نہیں ۔ اور نہ ہی ان علاقہ جات میں حفظانِ صحت کی سہولتیں میسر ہیں۔ ان علاقوں میں زچگی کے دوران اموات کی شرح پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ انگریز دور میں بنائی گئی بین الصوبائی ڈیرہ غازیخان- لورالائی شاہراہ کے انتیس میل پختہ ٹکڑے کے علاوہ ان علاقوں میں آج تک کوئی ھمہ موسمی سڑک تعمیر نہیں کی گئی۔ ہماری آبادی کی اکثریت نے1980 ء کی دہائی میں پہلی مرتبہ پہیے کی شکل دیکھی۔ 1993 ء تک متذکرہ قبائلی علاقہ جات لاہور ہائی کورٹ پنجاب کے دائرہِ اختیار سے بھی باہر تھے۔
پچھلی صدی کی آخری دہائی میں اپنے بچوں کی تعلیم اور روزگار کی خاطر قبائلی علاقہ جات کے لوگوں نے بڑی تعداد میں میدانی علاقوں کا رخ کیا۔ شہری سہولتوں پر بوجھ پڑا تو تلخیوں نے بھی جنم لیا لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ تونسہ کی گلیوں میں واپڈا کے بیسیوں کیبل زمین کی سطح پر بچھے ہماری کسمپرسی کی داستان سناتے نظر آتے ہیں۔
میر بلخ شیر مزاری کی وزارت عظمیٰ، نصراللہ خان دریشک کا طویل اقتدار، سردار فاروق خان لغاری کی صدارت، ذولفقار کھوسہ کی لمبی وزارت اور پھر گورنر شپ، فتح محمد بزدار کی تین مرتبہ صوبائی اسمبلی میں نمائیندگی و ضیا شوریٰ کی ممبری اور عثمان خان بزدار کی تحصیل نظامت کے دو دورانیئے بد قسمت قبائل کے دکھوں میں رتی بھر کمی نہ لاسکے۔ ھماری زراعت اور چراگاہیں فطرت کے رحم و کرم پر اور روزگار کے سرکاری مواقع بلوچستان کی کشادہ دامنی کی مرہون منت ہیں۔
آپ سے بہتراورکون جان سکتاھے کہ علامتوں کی دنیا میں ابلاغ علائم کے باھمی رشتوں کی پہچان سے عبارت ہے۔ شیر چیتے اور لومڑی کی علامتوں کے ساتھ بزداری بکرے کی علامت نہ صرف عدم تحقیق کی مظہر ہے بلکہ ہتک آمیز بھی ھے۔ قرون وسطیٰ میں رہنے والے ہم بد قسمت لوگ آج تک وہ ادارے تعمیر نہ کر سکے جو ذات، برادری اور قبیلے کے حوالوں سے ماورا متبادل قابل فخر شناخت کے ضامن بن سکیں۔ یہ امربھی ایک ناگزیر حقیقت کے طور پر سچ ہے کہ قبیلے کے ایک فرد کی توہین پورے قبیلے کی توہین سمجھی جاتی ہے۔ کیا ستم ہے کہ زنجیروں میں جکڑے لوگ آہنی جکڑ بندیوں کو اپنی آزادی گردانتے ہیں۔ پنجاب کے ذرائع ابلاغ کے تبصروں نے بلا شبہ ڈیرہ غازیخان و راجن پور میں خصوصاً اور بلوچ قوم میں عموماً منفی و متعصبانہ جذبات کی انگیخت کی ہے۔
وڑائچ صاحب !
عثمان خان بزدار حرص و آز سے آزاد ایک مدبر رہنما ہر گز نہیں بلکہ پنجاب کے دوسرے سیاست دانوں( شیر، چیتے، لومڑی)کی طرح اقتدار کی خواہش کے اسیر ایک چالاک سیاستدان ہیں۔ اس طبقہ کو بڑی جتنوں سے پالا پوسا جاتا ہے۔ جب بھی نادان لوگ عوامی حاکمیت، جمہوریت، خوشحالی، آزادی اور مساوات کے نام پر مملکت خداداد کی راہ کھوٹی کرنے کی جسارت کر بیٹھتے ہیں تو اسی طبقے سے مختلف افراد چن کر اُن سے سیاست کی سمت درست کرنے کا فریضہ انجام دلوایا جاتا ہے۔
کیا عثمان خان کے گُناہ ارباب اقتدار کے علم میں نہیں تھے۔ اور اگر یہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود تھا تو نئے پاکستان کے وزیر اعظم نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد انہیں دیانتداری اور پاک طینت ہونے کا سرٹیفکیٹ کیسے عطا کیا۔ ذرائع ابلاغ میں جس خون ریزی کا حوالہ دیا جاتا ہے اسکے شکار میری ہی برادری کے لوگ تھے۔ مقتولین کے ورثانے رسم و رواج کیمطابق زمانہ ہواپنے گریبانوں کے چاک سی لیے اور زخم بھرنے کا سلیقہ بھی جان لیا۔ سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ، گھوسٹ ملازمین کی بھرتی اور سرکاری فنڈز میں خورد برد کے الزامات ایک زمانے سے ارباب اقتدار اور باخبر صحافیوں کے علم میں تھے۔ طعن وتشنیع کے تیروں کا رخ عثمان خان بزدارکیبجائے اگر نئے پاکستان کے معمار یا باخبر صحافتی حلقوں کی طرف ہوتا تو جائز اور بر محل ٹہرتا۔
وزارت اعلیٰ پنجاب کے منصب کیلئے عثمان خان کا انتخاب جہاں بہت سے سوالات کوجنم دیتا ہے۔ وہاں پسماندہ علاقوں میں امید کے دیے جلانے کا بہانہ بھی بنتا ہے۔ ہم ایک نئے عمرانی معاہدے کے تناظر میں بلوچستان کے ساتھ الحاق کی امیدِ موہوم کے ساتھ جیتے ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں موصوف کو ہمارے امیدوں کی ناؤ ڈبونے کا فریضہ تو نہیں سونپا گیا۔ خوش فہمیوں اور انہونیوں کی آس لگانے والے عثمان خان کی ذات میں ماضی کی فروگزاشتوں کے ازالے کا حوالہ ڈھونڈنے میں کسقدر حق بجانب ہیں اسکا فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑا جانا بہتر ہے۔
میری ادھوری دانست میں سب سے معتبر طریقہ یہی ہے۔ کہ پنجاب ہی کے اہل قلم اور دانشوروں کے غیر سرکاری کمیشن کے ذریعے قبائلی علاقہ ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کی بد قسمتی و پسماندگی کی مکمل تحقیق کرائی جائے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ معاملات میں بگاڑ کی ذمہ داری کس کس کے سر جاتی ہے۔ ہمارے سردار نمائندے اس بات پر مصر ہیں کہ پنجاب کے ایوانوں میں انکی فریاد لاتعلقی کی چُپ میں دب کر گم ہو جایا کرتی ہے۔ جبکہ پنجاب کے اہل دانش ھمیں کو غلامی پسماندگی اور جہالت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کہیں عثمان خان کو ان الزامات کے سچ ہونے کی سند کے طور پر سامنے تو نہیں لایا گیا تاکہ مایوسیوں کو امر بنا کر ہماری ثقافتی تحلیل کو مہمیز لگائی جا سکے۔
اگر عثمان خان ہمت سے کام لیکر ایک اعلیٰ سطحی تحقیقی ٹیم کے ذریعے خود کوان الزمات سے مبرّا قرار دلواتے ہیں تو انکے چاہنے والوں کی شکستہ اناؤں کی کسی قدر تسکین کا سامان ضرور ہو پائے گا لیکن ڈیرہ غازیخان اور راجن پورکے اضلاع کی عمومی اور قبائلی علاقوں کی پسماندگی خصوصی طور پر ترقی یافتہ پنجاب کے ماتھے پر بد نما داغ کی طرح کافی عرصے تک نمایاں رہے گا۔
گفتگو آئینِ درویشی نہ بود
ورنہ با تو ما جراہا داشتیم
اللہ بشک بزدار