جنوبی ایشیا کے لئے امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ ایلیس ویلز نے عالمی نشریاتی ادارے سے خصوصي گفتگو میں کہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان شراکت داری کی بنیاد اس پر ہے کہ افغانستان میں امن اور استحكام لانے میں دونوں ملک مل کر کیا کر سکتے ہیں۔
دو اکتوبر کو واشنگٹن میں پاک امریکہ وزرائے خارجہ کی ملاقات متوقع ہے۔ مس ویلز کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے پاکستان میں ہونے والی ملاقات تعمیری تھی اور ہم دو طرفہ تعلقات کے لئے ٹھوس بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سائڈ لائنز پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایلیس ویلز کا کہنا تھا کہ پاکستان طالبان کو امن مذاكرات کی میز پر لانے کی منفرد صلاحیت رکھتا ہے۔ اور پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت نے افغان امن عمل میں مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وی او اے کے اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والی براہ راست ملاقات میں پاکستان نے کیا کوئی کردار ادا کیا تو انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت افغان مذاكرات میں مدد دینا چاہتی ہے۔ لیکن اس کے لئے افغان حکومت اور طالبان کو آپس میں بات چیت کرنی ہوگی۔ بقول ان کے “کسی سیاسی حل تک افغانوں کی شمولیت کے بغیر نہیں پہنچا جا سکتا”۔
ایلیس ویلز کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد کی بطور مندوب نامزدگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ افغان امن عمل کے لئے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے جس کا دروازہ صدر اشرف غنی نے طالبان کو ٖغیر مشروط مذاكرات کی پیش کش دے کر کھولا۔
جب ایلیس ویلز سے افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ غزنی پر حالیہ حملے سے یہ ظاہر ہو گیا کہ “طالبان تباہی تو پھیلا سکتے ہیں لیکن علاقے پر اپنا کنٹرول قائم نہیں رکھ سکتے”
بقول ایلیس ویلز ” 41 ملکوں کا اتحاد طالبان کو عسکری فتح حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔”
امریکہ اور بھارت کے درمیان گہرے روابط پر ایلیس ویلز نے پاکستان کے خدشات کو رد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ” امریکہ بھارت تعلقات کو پاکستان کے لئے خطرے کے طور پر نہیں دیکھتیں۔
ان کے مطابق پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھارت سے علیحدہ ہیں۔ یہ اشارہ دیتے ہوئے کہ بھارت سے تعلقات چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر قابو پانے کا ایک ذریعہ ہیں، انہوں نے کہا کہ امریکہ ۔ بھارت تعلقات کی نوعیت عالمی سطح کی ہے اور اس کا فوکس مشرق یا انڈو پیپسیفک خطے کی جانب ہے۔
ان کے مطابق دونوں ملکوں کی خطے میں استحكام لانے کی کوشش سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ جبکہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاكرات کی حمایت کرتا ہے۔
پاک چین ترقیاتی منصوبے سی پیک کے بارے میں اییس ویلز نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ مختلف ملک شفاف قرضے لیں جن کا بوجھ وہ اٹھا سکیں۔ تاکہ اپنے اسٹریٹیجک اثاثوں پر اپنی خودمختاری نہ کھو دیں۔
اییس ویلز کے مطابق پاکستان میں بھی سی پیک پر بحث ہو رہی ہے اور امریکہ اور کئی امریکی کمپنیاں بھی جاننا چاہتی ہیں کہ منصوبوں کے ٹھیکے کیسے دیئے جا رہے ہیں؟