امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ پاکستان نے اب تک دہشت گرد گروہوں کے خلاف اتنی کارروائی نہیں کی کہ اس کی منسوخ شدہ امریکی امداد بحال کی جاسکے۔
سیکریٹری پومپیو نے یہ بات منگل کو واشنگٹن ڈی سی سے اسلام آباد روانگی کے بعد جہاز میں موجود صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
سیکریٹری پومپیو اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ بدھ کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں وہ پاکستان کی نئی حکومت کے اعلیٰ ذمہ داران سے بات چیت کریں گے۔
خبر رساں ادارے ‘بلوم برگ’ کے مطابق دورانِ پرواز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں اپنی ملاقاتوں کے دوران پاکستانی قیادت کو یہ باور کرائیں گے کہ امریکہ کو دہشت گرد گروہوں کے خلاف وہ پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی جس کی اسے توقع تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف اتنی کارکردگی نہیں دکھائی جس کے پیشِ نظر “ہم اس کی معاشی امداد بحال کرنے کی وکالت کرنے کے قابل ہوں۔”
تاہم ساتھ ہی امریکی وزیرِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں نئی حکومت کے آغاز پر ہی ان کے اس دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے تعلقات کو “از سرِ نو شروع” کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو باہمی تعلقات میں کئی چیلنج درپیش ہیں لیکن ان کے بقول “ہمیں امید ہے کہ نئی قیادت کے ساتھ ہم مشترک قدریں تلاش کر سکتے ہیں اور اپنے بعض مشترکہ مسائل پر مل کر کام شروع کرسکتے ہیں۔”
اپنی گفتگو میں مائیک پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی نئی حکومت پر اپنی توقعات واضح کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ ہفتے امریکی محکمۂ دفاع کی جانب سے پاکستان کی امداد منسوخ کرنا کوئی اچانک قدم نہیں تھا اور نہ ہی یہ پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی خبر تھی۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستانیوں کو پتا ہے کہ یہ رقم کیوں روکی گئی ہے کیوں کہ ان کے بقول “ہمیں انہوں نے وہ کارکردگی نہیں دکھائی جس کی ہمیں ان سے توقع تھی۔”
انہوں نے کہا کہ ان کے اسلام آباد کے دورے کا مقصد بھی پاکستانیوں پر یہ واضح کرنا ہے کہ امریکہ ان سے کیا چاہتا ہے۔ ان کے بقول “ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اس مفاہمت کے حصول میں ہماری سنجیدگی سے مدد کرے جو ہم افغانستان میں چاہتے ہیں۔”
‘بلوم برگ’ کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ اور جنرل ڈنفورڈ کے ہمراہ پاکستان آنے والے وفد میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد بھی شامل ہیں جنہیں محکمۂ خارجہ نے حال ہی میں افغانستان کے لیے اپنا نمائندۂ خصوصی مقرر کیا ہے۔
خلیل زاد اس سے قبل افغانستان، عراق اور اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں۔
مائیک پومپیو اسلام آباد پہنچنے کے بعد وزارتِ خارجہ میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کریں گے۔
دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان وفود کی سطح پر بھی بات چیت ہوگی۔
امکان ہے کہ مائیک پومپیو اور جنرل جوزف ڈنفورڈ وزیرِ اعظم عمران خان اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
ان ملاقاتوں کے بعد سیکریٹری پومپیو اور ان کا وفد بدھ کی شب ہی نئی دہلی روانہ ہوجائے گا جہاں جمعرات کو دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں ‘اسٹریٹجک تعلقات’ پر مذاکرات ہوں گے۔
ان مذاکرات میں شرکت کے لیے امریکی وزیرِ دفاع جِم میٹس بھی نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔
منگل کو دورانِ پرواز صحافیوں سے گفتگو میں مائیک پومپیو نے بتایا کہ مذاکرات کے دوران وہ بھارتی حکام کو بھارت کی جانب سے روس سے میزائل نظام کی خریداری پر امریکی تشویش سے آگاہ کریں گے جب کہ ایران سے تیل کی درآمدات روکنے پر بھی اصرار کریں گے۔
تاہم امریکی وزیرِ خارجہ کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں معاملات ان دیگر امور پر اثر انداز نہیں ہوں گے جن میں تعاون کے لیے دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان بات چیت جاری ہے۔