وطن کی دفاع کےلئے قربانی دیکر ریحان بلوچ تاریخ میں امر ہوگیا ـ ڈاکٹر اللہ نظر

575

سندھو دیش رولیوشنری آرمی (ایس آر اے)کی جانب سے ’’شہید ریحان بلوچ‘‘ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیئے منعقدہ پروگرام میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر کا ارسال کردہ پیغام بھی پڑھا گیا

پیغام میں  بلوچستان کے تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما و گوریلا کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ انسان کی معلوم تاریخ میں صرف ایک نتیجہ یکتا و سیمبولک رہا ہے، کہ قومیں اپنی مادر وطن یا جس دھرتی سے جنم لے چکی ہے اس کے لیئے ہمیشہ قربانیاں دیتی چلی آرہی ہیں۔ غاصب اور قابض کے خلاف اپنی نحیف آواز کے ساتھ کمزور نے خود کو قربان کردیا ہے۔ ویسے انسان نے زندگی کے دوسرے پہلو و گوشوں میں ارتقاء کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اگر ااعداد و شمار کریں تو اپنی جنم بھومی کے لیے حضرت انسان کی قربانیاں بے حد زیادہ اور انوکھی رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم ایک ایسے دھرتی ماں کی عشاق کے قافلے میں سے ایک ایسے فرد کی جرات و ہمت اور انوکھی قربانی کا ذکر کررہے ہیں جو ہمارے چشم زوں کے سامنے ہوئی ہے۔ یہ قربانی شاید کسی صحبت کا نتیجہ ہو لیکن عمل و جرات ان کی اپنی اندرونی انسان کی بار بار نصیحت اور اپنی باقی ماندہ ماں ، بہن اور بھائیوں یعنی قوم جو دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہی ہے اس کے اکسانے پر یہ عمل نو وقوع پذیر ہوا۔ یہ مرد مجاہد کوئی اور نہیں میرا اپنا دوست ، بیٹا ریحان بلوچ ہے جس نے اپنی دھرتی بلوچستان اور بلوچ قوم کے لیے خود کو نثار کرکے اپنی کم سنی اور لاکھوں خواہشات کو یکطرف رکھ کر خود کو بیرونی یلغار اور وطن کی دفاع کے لیے قربان کرکے تاریخ میں امر ہوگئے۔ جو اب ابدیت کا حصہ ہیں یا یوں کہیئے کہ لافانی ہے اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے سنہرے لفظوں میں یاد کیا جاتا رہیگا۔

ڈاکٹر اللہ نظر نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ بے شک ریحان جس نے مادرِ وطن کے لیے اور اغیار کی دھرتی ماں پر یلغار کے خلاف قربانی دی ہے جس سے پورے قوم کا سر فخر سے بلند ہے اور اپنے اس عمل سے ایک اور نسل کو بیدار کیا یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنے کردار سے اس عمل کو پوری نسل تک منتقل کیا ، آخر مرد  ” حُر” ہی ایسے کام کر دکھاتے ہیں جو انمول ہوتے ہیں جن کے اس عمل کا کوئی ثاانی نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ کے اوراق کو بہت ٹٹولا لیکن زندہ تاریخ اور اپنی قربانی کی خود نوشت موت کو گود میں لیکر اپنی قوم اور اپنی قربانی کے مقصد بیان کرنا یہ خود ایک بڑی ااور منفرد قربانی ہے۔ جو اقوام عالم کی زندگی میں بہت کم دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔

بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نظر نے کہا کہ ریحان اسلم نے ابھی اپنی جوانی اور شباب کو گزارنے کے لیے دنیا کے رازوں سے بے خبر لیکن اپنی صحبت یاران اور مظلوم قوم کی حالت زار نے اسے ایسی قربانی دینے پر آمادہ کیا جو مورخ کو اپنی طرف کھینچ لانے پہ مجبور کرتی ہے۔ ریحان اسلم ہم میں سے ہے لیکن ریحان بلوچ خود یکتا بھی، اور انجانے میں ایک نسل کے استاد بھی۔ اب اس کے نام کے سامنے سابقہ ، لاحقہ لگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ابدیت کا حصہ ہے اور وہ دھرتی ماں کی گود میں ہے اور اس کے کردار نے ایسے مجرد امکان کو امکانِ صادق میں بڑی آسانی سے اور خوبصورت طریقے سے بدل دیا ہے۔

انہوں نے کہا اب بھی میں حیرت زدہ ہوں اور اب بھی میں ریحان کے ٹیلیفون کا انتظار کرتا ہوں جہاں وہ کبھی تحریک اور تو کبھی تحریک میں شامل تنظیموں اور ان میں نظریہ ضرورت کے متعلق سوالات کرتا رہتا تھا ، جہاں وہ ایک بات پہ ہمیشہ مصر رہتا تھا کہ جدت ہی کامیابی کا دوسرا نام ہے اور اس کے لیے کوشش ہر سطح پہ ہونی چاہیے۔ ریحان جان نے ان باتوں پہ عمل کرکے دکھایا اور جدت بھی ایسی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
اور میں ریحان جان کی موت کو نہیں مانتا وہ ہمیشہ زندہ ہے اور زندہ رہیگا کیونکہ ایسے نظریے کو دوام بخشنے والوں کو موت نہیں آسکتی جن کا عمل قوام کی تقدیر بدلنے کا موجب ہو۔

انہوں نے کہا  کی اپنی نفاست ، نزاکت اور افادیت ہوتی ہے لیکن بہت کم خوش قسمت لوگ ان اوصاف کو پورا کرتے ہیں جہاں ایسے کرداروں کے جوش و ولولہ سے بھر پور لبیک کی آواز پوری قوم کو جگاتی ہے۔ بے شک بلوچ قوم پہ ہزاروں نوجوان قربان ہوئے ہیں اور ہنوز ہورہے ہیں۔ جو اس جلتی چراغ کو جلا بخش رہی ہے اور اس چراغ (تحریک) کو بجھنے نہیں دیا۔
اور روز بروز اس کو جلا بخش رہی ہے۔ لیکن ریحان جان نے اس کو دن کی روشنی میں بدل دی ۔ اب اس وطن میں صدیوں تک لاکھوں ورنا قربان ہونگے لیکن دشمن کو آرام کا موقع نہیں دینگے۔ بلوچستان کے مال و مڈی لوٹنے والوں کو ریحان جان جیسے سرفروش یادآئینگے۔ اور یہ لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ سست پڑتا رہیگا اوردشمن ریاست حتیٰ کہ ختم کا وجود مٹ جائیگااور ہمارا وطن آزاد ہوگا۔