نوشکی: بچوں پر تشدد کے حوالے سے ایک روزہ سیمینار

266

ضلع نوشکی میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے معاشرے میں بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی زیادتیاں اور ہماری ذمہ داریاں کے موضوع پرآزات فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق سیمینار ’اُجالا مہم ‘ کے سلسلے کے تحت منعقد کی گئی جبکہ سیمینار میں مختلف شعبہِ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سیاسی، سماجی وحکومتی نمائندوں کے علاوہ طلباء اور اساتذہ نے شرکت کی۔

سیمینار میں جماعت اسلامی کے ضلعی امیر حافظ مطیع الرحمان، بلوچستان نیشنل پارٹی کے ضلعی صدرعطااللہ بلوچ اور جنرل سیکریٹری حمید بلوچ، بی این پی کے سابقہ ضلعی صدر نذیر بلوچ، ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر عزیز مینگل اور آزات فاؤنڈیشن کے ریجنل منیجر جہانزیب مینگل نے خطاب کیا۔

مقررین نے کہا کہ معاشرے میں بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی زیادتیاں ہمارے لیے لمحہ فکریہ اورقابلِ تشویش ہے۔ یہ ایک انتہائی نازک اور حساس مسئلہ ہے کہ بحیثیت انسان معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس منفی اور غیراخلاقی رویے کو لے کر ہماری آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ والدین اپنے بچوں اور بچیوں کی تحفظ کے حوالے سے نفسیاتی خوف کا شکار ہیں کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہمارے بچے ہوس کی بھوک میں آئے روز ایک بڑی تعداد میں جنسی زیادتیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ملک میں میں بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے بعد ان کے قتل کی وارداتوں پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ جس کے لیے حکومتی اور قانونی اداروں کے ساتھ پورا معاشرہ ذمہ دار ہیں۔

اس سے پیش تر پروگرام کے میزبان وقار احمد بادینی نے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کی اس حوالے سے مرتب کردہ ایک رپورٹ شرکاء کے سامنے پیش کی۔ جس کے مطابق پاکستان میں رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے اغوا، ان پر تشدد اور ریپ سمیت مختلف جرائم کے 2300 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جب کہ 57 بچوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا اور ان میں سے زیادہ ترواقعات صوبہِ پنجاب میں ہوئے ہیں۔

نیز کم عمر لڑکوں کے ساتھ بد فعلی کے 542 واقعات ہوئے اور بچوں کے لاپتہ ہونے کے 236 کیسز سامنے آئے ہیں اور 92 بچوں کو گینگ ریپ کیا گیا ہے اور گزشتہ سال کہ نسبت امسال بچوں کے خلاف جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں 1764 واقعات کے مقابلے اس سال جرائم کے 2322 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یعنی ہمارے یہاں یہ درندگی روز بروز بڑھتی جاری ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

مقررین نے کہا کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس ناسور کو روکنے کے لیے تمام مکتبہِ فکر، سول سوسائٹی، مذہبی نمائندوں، سیاسی نمائندوں اور میڈیا کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ لوگوں میں اس حوالے سے شعور و آگہی پیدا کرنے کے لیے اس طرح کی سرگرمیوں کا انعقاد انتہائی ضروری ہے اور تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس طرح موضوع کو کیمونٹی کی سطح پر تھیٹر اور دیگر سرگرمیوں کے ذریعے لوگوں کے سامنے لانے کے ساتھ تعلیمی اداروں، دینی مدارس میں نہ صرف اس موضوع پر آگہی مہم کے تحت پروگرامز، ڈیبیٹس، تقاریری مقابلے منعقد ہوں بلکہ اس موضوع کو باقاعدہ تعلیمی کورس میں بھی شامل کیا جائے اور ٹیچرز اس بارے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بچوں اوربچیوں کو اُن کی حفاظت کے بارے میں سکول میں باقاعدہ اس موضوع پر تربیتی پروگرامز منعقد کریں۔

اس بارے میں بچوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے اس طرح کی کسی بھی قسم کی حرکت کے بارے میں بلاخوف اپنے والدین، فیملی یا ٹیچرز کو آگاہ کریں اور اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سختی سے قانونی کاروائی ہونی چاہیے تاکہ معاشرے میں پھیلے ہوئے اس منفی حیوانی رویے پر قابو پایا جا سکے اور والدین میں اپنے بچوں کے مستبقل اور تحفظ کو لے کر اس حوالے سے پائے جانے والے نفسیاتی خوف کا خاتمہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ہمارے اپنے علاقہ نوشکی میں بھی اس طرح کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جنہیں سامنے نہیں لایاگیا، نہ ہی پولیس میں رپورٹ کی گئی۔ بلکہ ہمارے علاقے میں قبائلی نظام کو لے کر عزت، غیر ت اور قبائیلت کے نام پر اس طرح کے واقعات کو اکثر دبایا جاتا ہے اور میڈیا پر نہیں لایا جاتا جو کہ ایک مثبت عمل نہیں۔ کیونکہ خاموشی اس کا حل نہیں۔ جرم کو چھپانے سے اُس کا خاتمہ تو نہیں ہوتا بلکہ اس طرح کے واقعات کو میڈیا میں لانا اور پولیس میں رپورٹ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تب جا کر ہم اس طرح کے گھناؤنے رویوں کی روک تھام اپنے سماج میں کر سکیں گے۔