نرگسیت – ایک خطرناک نفسیاتی مرض – لطیف بلوچ

1572

نرگسیت
ایک خطرناک نفسیاتی مرض۔

تحریر لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

نرگسیت (Narcissism) ایک خطرناک نفسیاتی مرض ہے، اس مرض میں مبتلا انسان صرف خود نمائی، خود پسندی اور اپنی محبت کا شکار ہوجاتا ہے، ایسا انسان ہر وقت اپنے خوبیوں اور دوسروں کے خامیوں پر نظر رکھتا ہے اور اپنے ہر غلطی، کمزوری کو نظر انداز کرتا رہتا ہے۔ یوں سمجھا جائے اپنے غلطیوں کا اداراک نہیں کرتا کہ وہ کیا کررہا ہے۔ اپنے شخصیت کو اپنے خود پسندانہ فیصلوں سے کس طرح نقصان پہنچا رہا ہے، اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ وہ باشعور، دانا، عقلمند، معاملہ فہم اور ہوشیار ہے اور ہر وقت خود نمائی میں لگا رہتا ہے، اپنی تعریف سُننا بہت اچھا لگتا ہے لیکن دانا کہتے ہیں کہ سب سے کمزور انسان اپنی تعریف سُن کر خوش ہوجاتا ہے جو ایک خطرناک مرض ہے، جب ایسے انسان کی نرگیست کے بارے میں دوسرے لوگوں کو پتہ چلتا ہے تو معاشرے میں اُس کا اہمیت ختم ہوجاتا ہے وہ ناکام ترین انسان بن جاتا ہے۔

خود نمائی دراصل احساس کمتری یا احساس برتری کی ہی وجہ سے ہوتا ہے، احساس کمتری کا شکار اپنی اہمیت جتانے کے لیئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ احساس برتری کا شکار جب لوگ اس کو اہمیت نہ دیں تو ایسا رویہ اختیار کرتا ہے۔

مبارک حیدر اپنے کتاب تہذیبی نرگسیت میں لکھتے ہیں کہ نرگسیت علم نفسیات کی اصطلاح ہے، جس کا مفہوم خود پسندی ہے۔ جس کی مثبت حالتیں ہر ذی فرد میں پائی جاتی ہیں۔ جیسا کہ خود اعتمادی،عزت نفس اور مسابقت۔ حقیقتاً نرگسیت سے مراد بالعموم ایسی نرگسیت ہوتی ہے جس کا علاج کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ شخصیت کا مرض ہے جو تنظیمی اور سماجی معاملات میں سنگین مسائل کا سبب بنتاہے اور اِس مرض میں مبتلا افراد اپنے ارد گرد کے دوسرے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں جبکہ المیہ یہ ہے کہ اس مرض میں مبتلا مریض خود کو مریض تصور ہی نہیں کرتا۔ نرگسیت کا مرض جس طرح فرد واحد کی شخصیت کو نقصان پہنچاتا ہے، خاندان اور تنظیم کے نقصان کا باعث بنتا ہے اُسی طرح تہذیبی نرگسیت، قوموں اور عالمی تنظیموں کے مخالف کھڑی ہوتی ہے اور ان کو اضطراب کا شکار کرتی ہے جس سے ان کی برادری کی اجتماعی نشوونما کا سلسلہ رُک جاتا ہے۔ نرگسیت کا مرض صرف کسی ایک تہذیب میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ اس کی موجودگی کے عناصر ہر انسانی معاشرے میں پائے جاتے ہیں جہاں اجتماعی اور انفرادی نرگسیت کی خصوصیت کا حلیہ اکثر اوقات ایک سا ہی ہوتا ہے مگر ہر معاشرے میں اس کی موجودگی مختلف انداز میں پائی جاتی ہے۔

مبارک حیدر مزید لکھتے ہیں کہ نرگسیت کے مرض میں مبتلا فرد، گروہ یا معاشرہ اپنے ارد گرد باصلاحیت اشخاص، گروہوں اور سیاستدانوں سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف کردار کشی اور تذلیل و تنقید کی مہم چلاتا ہے اور اس عمل میں وہ اپنی فضیلت اور صلاحیت کو طرح طرح سے بیان کرتے ہیں اور کسی احتیاط یا انکساری کو ضروری نہیں سمجھتے۔ بہر حال نرگسیت میں مریض کسی اصول کا پابند نہیں ہوتا۔ اُسے اپنی خواہشات اور پیش قدمی کے لیے جو بھی موزوں لگتا ہے وہ کر گزرتا ہے مثلاً اگر اُس کو طاقت میں برتری حاصل ہے تو وہ طاقت کو میرٹ قرار دے گا۔

اسی طرح نرگسیت کی ایک اور علامت سازش کا خوف اور احساس مظلومیت ہے۔ مریض کو لگتا ہے کہ لوگ اس کی عظمت سے خائف ہیں اور حسد کرتے ہیں چنانچہ اُس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اس کے لیئے وہ ہر ممکن ذریعے سے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو خود سے کم تر رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاہم نرگسیت کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ نرگسیت کی مندرجہ ذیل علامات ہیں۔
1۔ نرگسیت کے مرض میں مبتلا افراد اپنی ضروریات کو اجتماعی ضروریات پر فوقیت دیتا ہے۔
2۔ جذباتی رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔
3۔ اپنی غلطی کو دوسروں کے سر ڈال دیتا ہے۔
4۔ تکبر، خودنمائی، فخر اور فنکارانہ مطلب برادری کا قائل ہوتا ہے۔
5۔ ندامت اور تشکر سے انکار کرتا ہے۔
6۔ اُس کی گفتگو میں نمائش کا عنصر غالب رہتا ہے۔

نرگسیت اور خوش فہمی بھی باہم لازم و ملزوم دِکھتے ہیں، جیسے نرگسیت فرد کی شخصیت کے منفی پہلو کو بڑھاتی ہے، اُسی طرح خوش فہمی اُس کی شخصیت کی نشوونما کو روکتی ہے اور اگر خوش فہمی ملکی اور قومی سطح پر آجائے ایسے میں یہ بد ترین شکل اختیار کرتے ہوئے بھیانک نتائج سامنے لاتی ہے۔

بلوچ قومی سیاست اور بلوچ رہنماؤں میں یہ نفسیاتی مرض بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے، تحریک کا بڑا حصہ خود نمائی کے مرض کا شکار ہے اس مرض میں مبتلا لوگ اپنی ضروریات اور شخصی فیصلوں کو اجتماعی قومی ضروریات اور فیصلوں پر فوقیت دیتے ہیں، بلوچ تحریک میں اختلافات کا ایک بڑا اور اہم وجہ یہی یکطرفہ شخصی فیصلے ہیں۔ ایسے فیصلے احساس کمتری کی شکار اپنی برتری ثابت کرنے کے لیئے کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں، جذباتی رد عمل اور فیصلوں کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لے چکے ہیں جن کا اظہار اور نشاندہی قومی جہد سے جڑے ساتھی وقتاً فوقتاً کرتے رہے ہیں لیکن تکبر، غرور، فخر، خود نمائی، خود سری اور گھمنڈ میں مبتلا ایک مخصوص گروہ ہمیشہ اپنے غلط فیصلوں اور سرزد غلطیوں کو درست ثابت کرنے کے لئے اپنے غلطیوں کو سدرھانے کے بجائے غلطیوں کا ملبہ دوسروں کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اب بھی اپنے غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے دوسروں کو غلط ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اپنے تعریف، توصیف، قصیدہ گوئی اور مدح سرائی کے لئے سوشل میڈیا پر مختلف ٹیمیں تشکیل دے چکے ہیں اور دوسرے تنظیموں اور لیڈروں پر کیچڑ اچھالنا، تنقید برائے تنقید اور گالم گلوچ اُن کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔

الفریڈ ایڈلر ایک مشہور نفسیات دان ہے، اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ احساسِ کمتری اور احساسِ برتری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ احساس کمتری پر اگر قابو نہ پایا جائے تو یہ انسان میں مایوسی، افسردگی یا بے چینی کی کیفیت پیدا کرتا ہے جو آگے جا کر کئی نفسیاتی مسائل کا موجب بن جاتا ہے، جبکہ احساسِ برتری میں مبتلا انسان اصل میں احساسِ کمتری کا ہی شکار ہوتا ہے، لیکن لاشعوری طور پر اس احساس کو دباتے ہوئے احساس برتری کا شکار ہو جاتا ہے۔

خود پسندی و خود نمائی کی خطرناک مرض کچھ لوگوں پر بہت اثر انداز ہوتا ہے وہ اس قدر احساس کمتری کا شکار ہوچکے ہیں کہ اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے شہداء کے قربانیوں پر بھی نکتہ چینی کررہے ہیں، اس مرض سے متاثر گروہ سمجھتا ہے کہ شہداء اُنہیں کمتر اور دوسروں کو برتر ثابت کرنے کے لئے جانیں قربان کررہے ہیں یہ احساس کمتری کو برتری میں تبدیل کرنے کا ایک انتہائی منفی پہلو ہے۔ خود پسندی کے زعم میں وہ ایسا مبتلا ہوگئے ہیں کہ تحریک کو اپنے انا پرستی اور خود پسندی کی بھینٹ چڑھانے کے بعد اب شہیدوں کے مقدس لہو کیساتھ کھیل رہے ہیں۔ ہمیں خود پسندی اور انا پرستی کے مرض میں مبتلا رہنے کے بجائے اجتماعی اور قومی مفادات و ضروریات کو ترجیح دینا چاہیئے تب جاکر ہم کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔

 

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔