معمولی چیزوں سے نکل کر ہمیں اپنی جنگ کو منظم کرنا چاہیئےـ استاد اسلم بلوچ

1294

بلوچ لبریشن آرمی کے رہنما استاد اسلم بلوچ  نے سندھو دیش رولیوشنری آرمی (ایس آر اے)کی جانب سے ’’شہید ریحان بلوچ‘‘ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے منعقدہ تقریب میں اپنے ایک تحریری پیغام میں کہا کہ ریحان بلوچ نے جو قدم اٹھایا ہے، وہ نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی اختتام، بلکہ وہ ایک جنگی طریقہ کارکا تسلسل ہے۔ ہمارے لوگوں نے اس حوالے سے بہت ساری قربانیاں دی ہیں۔ اور آگے بھی دیتے رہینگے۔ آج جو حالات چل رہے ہیں اوردشمن ریاست پاکستان ،چائنا کے ساتھ مل کر جن پالیسیوں پے عمل پیرا ہے ، بحرے بلوچ اور سندھ دھرتی پر جو ساحلی پٹی پر قبضہ کرنے کیلئے جس گھناؤنے منصوبے پر کام ہورہا ہے یا ذوالفقار آباد جیسے میگا پراجیکٹ اور سی پیک کے حوالے سے جو منصوبہ بندی کی جارہی ہے ان کو روکنے کیلئے آج ریحان نے ہمارے لیئے ایک دروازہ کھولا ہے۔ ہمیں دروازے کے اس پار دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرف کیا ہورہا ہے۔ آج ہماری ذمہ داری کیا ہے کہ صرف شہید ریحان کو یاد کریں یا پھر اس تسلسل کو آگے بڑھائیں؟

اسلم بلوچ نے کہا کہ بلوچ سرزمین اور بلوچ قوم کی آزادی صرف اور صرف ایک خطرناک، دردناک اوربھیانک جنگ میں ہے اور اس جنگ کی کامیابی میں ہے۔ اگر ہم اس جنگ کو جیتینگے اور ہمارے دشمن کو شکست دیں گیں، تب ہی ہمارا مقصد پورا ہوگا۔

آج چائنا کتنی بڑی نیول بیس بنانا چاہتا ہے، کتنی آبادی اس طرف لانا چاہتا ہے، میانمار میں جو روہنگیا بنگالی ہیں بلکہ جو بنگلہ دیش کے غدار وطن تھے ان کو یہاں سندھ کے ذولفقار آباد سے لیکر گوادر کی ساحلی پٹی پر آباد کرنے کا جو منصوبہ ہے۔ اگر ہم بحیثیت بلوچ اور سندھی قوم اسکو روک نہیں سکے تو ہماری شناخت مٹ جائے گی۔ آج ہم جو کررہے ہیں اس سے آگے بڑھ کر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے کچھ نہیں کیاہے کیونکہ کئی گھر، کئی گاؤں مٹ گئے، کئی جانیں چلی گئیں، کئی نوجوان مارے گئے، ہمارے ماں بہنوں کے زخموں کا مداوا صرف دو یا دس قربانیوں میں نہیں ہے۔ جب ہماری سرزمین کا جھنڈا ہمارے ہاتھ میں ہوگا اور ہم اپنے سرزمین کے مالک ہونگے وہی ایک فتح ہوگی، اس سے کم کچھ نہیں ہے، اگراس سے کچھ کم ہے تو وہ یہی موت ہے جو ہمارے ساتھی قبول کرتے آرہے ہیں اور کررہے ہیں۔

استاد اسلم کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی پوری توجہ اپنے دشمن، اپنے کام اور آج جو حالات چل رہے ہیں اس پہ کرنی ہوگی۔ ہم کسی بھی تنظیم میں ہوں، بنیادی بات یہ ہے کہ ہم کون ہیں اور کس لیئے لڑ رہے ہیں۔ یہ وقت جو ہم سے ضائع ہورہا ہے کیا وہ واپس آئے گا؟ جو مواقع ہمارے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں، کیا کوئی ہمیں پھر سے وہ واپس دے گا؟ یہ وقت گیا تو پھر واپس نہیں آئیگا اور اس کے لیئے کل ہم ہی کو جواب دینا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ریحان کیا دیکھ رہا تھا، وہ کیا سمجھ چکا تھا۔ کیا ہم سب دوست اس چیز کو سمجھ رہے ہیں؟ اس نے شعوری حوالے سے کچھ تو سمجھا تھاتب ہی اس عمل کا انتخاب کیا۔ میں کہتا ہوں کہ وہ میرا نہیں تھا بلکہ وہ ہم سب کا تھا اور اس قوم کا تھا۔ ریحان نے اپنی قوم اور آزادی کے لیئے کیا ہے۔وہ اگرمیرے اور اپنی والدہ کے لیئے کرتا تو بیٹھ کر ہماری خدمت ہی کرتا۔

استاد اسلم نے آخر میں کہا کہ ہم سب دوستوں کو اس حوالے سے سوچنا چاہیئے کہ وہ شعور کیا ہے جس کی سطح تک ہم پہنچ نہیں پارہے ہیں۔ ہمیں اپنی جنگ کو منظم کرنا چاہیئے۔ ہمیں دنیاوی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے نکل کر خود کو منظم کرنا چاہیئے۔ ہمارے نوجوانوں کو سوچنا ہوگا کہ آج قوم وقومی ضروریات ہم سے کیا تقاضے کررہے ہیں اور ہم اسے کیا دے رہے ہیں۔ ہمیں ضرورتوں کو سمجھنا چاہیئے جو وقت و حالات میں ہماری جنگ اور ہماری تحریک تقاضہ کرتے ہیں، انہیں پورا کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیئے۔