چینی حکام کا کہنا ہے کہ چینی صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جارہی بلکہ انتہاپسندی کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے یورپ کے برعکس کچھ لوگوں کو تربیت فراہم کی جارہی ہے، جو اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکام ہوگیا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے مغربی صوبے میں یوغروں اور دیگر مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی اطلاعات سے عالمی برادری میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
امریکی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں مبینہ طور پر ملوث چینی کمپنیوں اور عہدیداروں پر پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جارہا تھا۔
مذکورہ معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے چینی اسٹیٹ کونسل انفارمیشن کے بیورو برائے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر آف پبلسٹی لی زیاؤ جن کا کہنا تھا کہ ’یہ بدسلوکی نہیں بلکہ چین پیشہ وارانہ تربیت کے مراکز اور تعلیمی ادارے قائم کر رہا ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر آپ اسے بہترین طریقہ نہیں کہہ سکتے تو یہ شاید اسلامی اور مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کا ضروری طریقہ ہے کیونکہ مغربی ممالک، مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، بیلجیئم کو دیکھیں، پیرس کو دیکھیں اور دیگر یورپی ممالک کو دیکھیں وہ ناکام ہوچکے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کے تعلیمی مراکز قید خانہ یا دوبارہ تعلیم حاصل کرنے کے کیمپ نہیں، جسے انہوں نے ‘مشرقی یورپی ممالک کی ٹریڈ مارک مصنوعات’ کے طور پر مسترد کیا، جو سرد جنگ کے دوران سوویت حراستی کیمپوں کو کہا جاتا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیدھی بات یہ ہے کہ یہ پیشہ وارانہ تربیت کی طرح ہے، جس طرح آپ کے بچے تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور اچھی نوکری کے حصول کے لیے ووکیشنل ٹریننگ اسکول جاتے ہیں۔
لیکن اس طرح کی تربیت اور تعلیمی مراکز مختصر مدت کے لیے لوگوں کو قبول کرتے ہیں، کچھ لوگوں کے لیے 5 دن اور کچھ افراد کے لیے یہ سلسلہ 10 دن سے لے کر 2 ماہ تک ہوتا ہے۔
چینی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ اسلام، چین کی نظر میں اچھی چیز تھا لیکن اسلامی انتہا پسندی انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے، یہ بہت غلط عناصر ہیں جن کا سامنا افغانستان، پاکستان، شام اور عراق سمیت بیشتر ممالک کر رہے ہیں۔