لاپتہ بلوچ اسیران، شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3171 دن ہوگے-
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں وکلا برادری کے ایک وفد نے لاپتہ افرادوشہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ جس طرح انڈونیشیا میں مشرقی تمیور کے مسلے پر کورٹ کے فیصلوں کو رد کرتے ہوئے مشرقی تیمور کے لوگوں کو گمشدہ کر کے قتل کیا جاتا رہا – بلوچستان میں بھی یہی صورت حال ہے – جس طرح مشرقی تیمور میں قابض کی ایجنسیاں بے لگام تھیں اسی طرح بلوچستان میں بھی خفیہ اداروں کی جانب سے ظلم کی ہولی کھیلی جارہی ہے-
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پولیس نے اُن گمشدگیوں میں خفیہ ایجنسیوں اور ایف سی فوج کے ملوث ہونے کے ثبوت ویڈیو فوٹیج کی شکل میں سپریم کورٹ میں پیش کی ہیں- لیکن قابض کی فوج اور ایجنسیوں نے کسی چیز کو خاطر میں لائے بغیر بلوچستان میں ننگی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے – جب کہ پاکستان کی مرکزی حکومت بھی مسلے پر بار بار اپنے بیانات تبدیلی کرتی چلی آرہی ہے-
ماما قدیر نے مزید کہا کہ مشرف دور کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پاو نے بلوچستان میں صحافیوں سے بات چیت میں اس بات کا اقرار کیا تھا کہ پاکستانی اینجسیوں کی تحویل میں 4000 بلوچ ہیں – لیکن موجودہ حکومت ان چار ہزار کو صرف بیالیس افراد کی گمشدگی ظاہر کرتی ہے- اور ان افراد کے بارے میں بھی یہ کہتی ہے کہ وہ پاکستانی کے پاس نہیں ہیں حالانکہ حقیقت میں 45000 ہزار افراد پاکستانی عقوبت خانوں میں قید ہر روز موت کا سامنا کررہے ہیں – لیکن پاکستانی حکومت انتہائی مجرمانہ انداز میں اس معاملے پر انکاری ہے –
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جونکنے کے لیئے پاکستان نے متعدد اجلاس منعقد کیے اور کئی کیمٹیاں کمیشن بھی تشکیل دی- لیکن کوئی بھی کمیٹی یا کمیشن آج تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کرسکی ہے – کیونکہ بلوچستان ایک چھاونی کی شکل اختیار کرچکا ہے جہاں تمام فیصلے فوج اور ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہیں – اگر یہاں فوج اور اُس کے حواریوں کی ننگی جارحیت کے خلاف کوئی آواز اُٹھائے تو اُسے نشان عبرت بنادیا جاتا ہے ۔