لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3177 دن مکمل

105
File Photo

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیجانب سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3177 دن مکمل ہوگئے جبکہ کراچی سے ادیب و دانشوروں کے ایک وفد نے لاپتہ افراد و شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر کہا کہ بلوچستان میں اس وقت حالات کی سنگینی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ظلم، جبر میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، قابض ریاست بلوچ نسل کشی کے لیئے کسی بھی حد تک جانے کے لیئے نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس کے ہمنوا پارٹیاں اپنے مفادات کی خاطر سرزمین کاسودا کرنے سے نہیں ہچکچاتےہیں، مسخ شدہ لاشیں ان کے لیئے کوئی مسئلہ نہیں اور بلوچوں کے گھروں پر بمباری شہید و زخمی خواتین اور بچے اُنہیں نظر نہیں آتے ہیں۔ بلوچ خواتین کی بے حرمتی اور بے عزتی اور خواتین کو زبردستی فوجی کیمپوں میں لے جانا اُنہیں نطر نہیں آتا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ جہاں مذہبی جنونیت کو پروان چڑھایا جارہا ہے اور زبان، ثقافت اور تہذیب کو مٹانے کی ہر کوشش ہورہی ہے تو ایسے میں اُن لوگوں کا ساتھ دینا چاہیئے جو کل کے لیئے اپنا آج قربان کررہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ شہید کیئے جاچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان بچے بوڑھے خواتین ٹارچر سیلوں میں اذیت برداشت کررہے ہیں، اب بھی ہمارا ادیب دانشور اور شاعر مصلحت کا شکار ہوکر چند سکوں کی خاطر قابض کا ساتھ دے تو تاریخ اور بلوچ قوم اُنہیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔ ادیب اور دانشور کا کام تو یہی ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کا کام سر انجام دیں، شعور پھیلائے نا کہ قابض اور ظالم کا ساتھ دے کر اپنے ہی سرزمین اور اپنے لوگوں کی زندگیوں کے سودا میں فریق بنیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے زیادہ تر ادیب، دانشور، شاعر اور فنکار متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی معاشی مجبوریاں بھی ہیں، اُسے اس کا حق نہیں مل رہا ہے وہ اپنی سرزمین پر غلاموں جیسی زندگی گزار رہا ہے۔ وہ ایک قابض سرزمین کا باسی ہے اور مقبوضہ لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔