طالبعلم محمد صادق اذیت خانوں میں
عامر دوست
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ نوجوانوں پر پاکستان کے تعلیمی ادروں میں بھی قدغن لگا ہوا ہے، ہر طرف انہیں تباہ و برباد ہونے کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ کہیں نشہ جیسی لعنت سر پر منڈلا رہا ہے، کہیں دیگر سماجی برائیوں میں ملوث کرواتے ہیں یا پھر انہیں جیل و زندان میں بند کردیتے ہیں۔ اس طرح جائزہ لیں توبلوچستان میں نو جوان تعلیم جیسے زیور سے دور ہو تے جارہے ہیں، ایک عمل مکمل منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے تاکہ اس جدید دور میں جدید تقاضوں پر پو ری طرح بلوچ نوجوان نہ اتر سکیں، اس لیئے کبھی کسی ڈاکٹر کواٹھاکر لا پتہ کیا جاتا ہے تو کہیں کسی انجئینز کو غائب کیا جاتا ہے، نوجوان تعلیمی اداروں سے کم اذیت گاہوں میں زیادہ ملتے ہیں۔
جس طرح کہتے ہیں کہ نوجوان قوم کے مستقبل ہیں۔ نوجوانوں پر قوم کی ہر نئے اُمید پیوست ہوتی ہے ۔ نوجوان ہی قوم کا مقدر بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، تاریخ کے اوراق میں نوجو ان کے کردار ہمیں مثبت دکھائی دیتے ہیں، یہی کردار ہر قوم کی سنہر ی تاریخ میں ملتے ہیں۔
جس قوم کے نوجوان اپنی قوم، ریاست کی بقاء سے بیگانہ ہوتے ہیں، تو وہ قوم پسماندگی سے جاکر زاول تک پہنچ سکتے ہیں۔ آج بلوچ قوم تاریخ کے بدتریں ایام سے دوچار ہے۔ بلوچ قوم کے نوجوان طلبا اپنے سرزمین پر چین سے نہیں جی پاتے ہیں، ہر وقت ظلم و بربریت کا سامنا کر رہے ہیں، کہیں داخلے فیس تو کہیں رہائش کیلئے ہا سٹل کے مسائل موجود ہو تے ہیں۔ اب تو ریا ست کے ہا تھو ں جبری طور پر لا پتہ ہو نا روز کا معمو ل بن چکاہے، اسے اپنے سرزمین میں انکو بنیاد ی انسان حقوق دستیاب نہیں کس طرح ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرسکیں یا تو باقی طالب علموں کی طرح اچھی تعلیم حاصل کر سکیں؟ آج بلوچ قوم کی نوجوان طبقے پر نگاہ دوڑائیں تو پڑھنے کیلئے دور سے دور جاتے ہیں کیونکہ ہر نوجوان کے دل و دماغ میں یہی بات نقش ہو ا ہے کہ پڑھنے کی جگہ ایسا نہ ہو ہم زندان کے سلاخوں میں جکڑ نہ جائیں، اسی ڈر نے بلوچ نوجوانوں کوتعلیمی اداروں سے دور رکھا ہے۔
بلوچستان میں تیس فیصد سے کم طالب علم اگر علم و دانش کی دروازے سے تک پہنچتے ہیں، تیس فیصد میں پندرہ فیصد یہی ڈر کے مارے علم و دانش کی میدان سے دور بھاگتے ہیں، بقایا پندرہ فیصد روز تعلیمی اداروں سے تذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ بلوچستان میں اسکولوں سے لیکر کالجز تک فوجی بیرکوں و کیمپوں میں بدل گئے ہیں، جہاں اکثر بچے بچیاں تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔
بلوچ طالب علم اگر پاکستان کے دوسرے صوبوں میں تعلیم حاصل کر نے کے لئے جاتے ہیں تو وہاں غیرمنصفانہ رویئے کے بناپربلوچ طالب علم تنگ آچکے ہیں، ذہنی، جسمانی طورپر تشدد کے شکار ہوتے جارہے ہیں۔ اس بات کی اصل عکس ہمیں پنجاب کی یونیورسٹیوں میں نظر آتی ہے۔ ایک سال کے اندر دو تین دفعہ بلوچ طالبعلموں پر حملے کرکے تشدد کرتے ہیں، تشدد کے شکار وہ طالب علم مختلف ذہنی کشمکش کے شکارہوتے ہیں، پڑھائی سے بیگانہ رہتے ہیں روز ٹیچرز، انتظامیہ کی دھمکی آمیز لہجے، عدم اخلاق کی وجہ سے ذہنی طورپر پسے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی حالت کے ساتھ ساتھ ایک سنگیں مسئلہ بلوچ طالب علموں کی پاکستانی فوج کی جانب سے لاپتہ ہونے کا خطرے دل میں مو جود ہے۔ اس مسئلے نے کافی حد تک نوجوانوں سمیت والدین کوپریشانی میں مبتلا کردیاہے کہ کس طرح ہم اپنے بچوں کو دوسری بڑی شہروں میں تعلیمی ادروں میں بھیجتے ہیں پڑھنے کیلئے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے لیکن انکی بوری بند لاش ہمیں تحفے میں ارسال ہوتے ہیں۔ اسی سوچ میں والدین ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔
بلوچستان کے بیشتر طلبااس کشمکش میں مبتلا ہیں۔ آج میں صرف ایک نہتے طالبعلم کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت کررہا ہوں جو گذشتہ کئی دنوں سے پاکستانی ٹارچر سیلوں میں بند ہیں۔ وہ نوجوان محمد صادق ولد مولوی محمد عمر ہے، جو ڈسٹرکٹ آواران کے علا قے مشکے کے رہا ئشی ہیں۔ جسے پاکستانی فورسز نے اسی سال 2018کویعنی 26اگست کے صبح سویرے ان کے گھر گجر سے انہیں اپنے گھر سے اپنی شادی کے تقریب سے اُٹھا کر مشکے آرمی کیمپ میں منتقل کردیا، مگر قرب و جوار کے رشتہ داروں کے کیمپ کے سامنے احتجاج کے بعد آرمی کے اہلکاروں نے اسے رہا کردیا، پھر نکاح کے دوسرے روز ہی یعنی 27اگست کو پھر گھر سے ملٹری نے اٹھاکر لوگوں کے سامنے تشدد کرکے اپنے ساتھ لے گئے جوتا حال لاپتہ ہے۔
محمد صادق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں زیر تعلیم تھے، جو سیکینڈایئر میں سوشیالوجی کے طالبعلم ہیں، جو شادی کیلئے اپنے آبائی گاؤں مشکے چلے گئے تھے۔ محمد صادق اپنے ابو کے لائق بیٹے تھے، جو اپنے ماں باپ کے واحد بڑھاپے کا سہارا بھی ہے، صادق کے والد ایک گورنمنٹ ملازم ہے جو اپنے آبائی گاؤں مشکے ھائی اسکول میں بچووں کو پڑھاتے ہیں۔ محمد عمر کے دو بیٹے اس سے پہلے پاکستانی فورسزلاپتہ کرنے کے بعد شہید کر چکے ہیں۔ محمد صادق کے بڑے بھائی ماجد بلوچ کو آواران بازار سے پاکستانی سیکورٹی فورسز نے اٹھا کر لاپتہ کردیا تھا، کچھ مہینوں کے بعد ایک اور بلوچ فرزند کے ساتھ ماجد کو مار کر جعلی مقابلے کے نام دیکر لاش کو آواران اسپتال انتظامیہ کے حوالے کردیا۔ ساجدبلوچ اپنے چچا کے ہمراہ یعنی بی این ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ کے ساتھ مستونگ میں شہید کردیا گیا۔
لیکن محمد صادق کے گھر والوں کے بقول وہ کسی بھی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہے، صرف اپنی پڑھائی میں مصروف ہے لیکن وہ صرف ڈاکٹر منان بلوچ اور بی ایس او آزاد کے سابقہ وائس چیئرمین کمال بلوچ کے بھانجے ہیں، اس بنیاد پر ریاست ایک پریشر پیدا کر نے کو شش کر رہا ہے، کہیں اُسے ان کے بھائیوں کی طر ح انہیں بھی نقصان نہ دیں، محمد صادق علم کا عاشق تھا، ہر وقت اپنی دھیان پڑھائی پر دیتا تھا جو آج زندان کے سلاخوں کے پیچھے بند دردناک اذیتیں سہہ رہا ہے۔
دنیا کے انسان دوست تنظیموں کے ساتھ ساتھ اور میں ایک طالب علم ہو نے کے ناطے دنیا کے تما م طلباء سے اپیل کر تاہوں کہ محمد صادق کی بحفاظت بازیابی اور رہائی کے واسطے صدا بلند کریں تاکہ وہ اذیتوں سے بچ کر پھر اپنے تعلیم کو جاری رکھ سکیں میں ایک طالب کی حیثیت سے کچھ الفاظ لکھ رہا ہوں تاکہ دنیا کو گوش گذار کرسکوں۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔