صورت خان مری کی رائے کے روشنی میں
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
کل کسی دوست نے واجہ صورت خان مری کا کوئی حالیہ صوتی انٹرویو وٹساپ پر بھیجا تو سننے کاموقع ملا، کیونکہ صورت خان مری کو میں روزاول سے بلا ناغہ سنتا اور پڑھتارہا ہوں اور اس سے سیکھتا ہوں، تو حسب روایت انٹرویو بھی سنا۔ سننے کے بعد مجھے یہ تعجب ہوا کہ اس حالت میں ایک تو واجہ صورت خان مری عمر کی لحاظ سے بہت ضعیف اور بیمار ہیں، پھر بھی غنیمت اگر کسی کو بھی ایسا موقع مل جاتا ہے کہ ان سے بات کرے، تو کم از کم بلوچ قوم، دنیا عالم کیلئے اور کم از کم خود کیلئے کچھ سیکھنے اور آگاہ ہونے کا ماحول بنانا چاہیئے۔ اور واجہ صورت خان سے علمی و تجرباتی استفادہ حاصل کرنے کے خاطر مجموعی اور قومی مقصد اور فکری و نظریاتی بنیادوں پر کچھ حاصل کرنے کی کوشش ہونا چاہیئے تھا، تو قابل داد عمل ہوتا۔ بجائے سب کو نیچا دکھانے، خود کو آسمان پر چڑھانے کی ناکام کوشش کرنے کے۔
مگر افسوس بدقسمتی سے یہ انٹرویو کم بلکہ صورت خان مری صاحب کو بطو وکیل صفائی یا آخری سہارا بنانے کی ایک ناکام کوشش نظر آئی، انٹرویو کو ایک موقع سمجھ کر کسی محترم بلوچ بہن کو چند ذاتی خواہشات، ذاتی مقاصد اور ذاتی ایجنڈے کے تحت چند مخصوص سطحی فیسبکی سوالات تھما کر، اس سوچ کے ساتھ روانہ کرنا کہ واجہ صورت خان صاحب بھی سوشل میڈیا کے چند نابالغ اور غیر سنجیدہ ایکٹیوسٹوں کی طرح تمام تنظیموں کے قائدین اور جہدکاروں کو غلط اور مسترد کرکے یہ کہہ دیں گے کہ بس بلوچ واحد قوم ہے، واحد تحریک ہے، اور فلانہ واحد اصول پرست کرشماتی و کراماتی اس کا لیڈر ہے اور باقی سب کے سب حقیر، فقیر، نتو خیرو ہیں اور کوئی کچھ نہیں، باقی سب کے سب ناکارہ پرزے ہیں۔ لیکن واجہ صورت خان مری نے انکے ذاتی فرمائش، خواہش، توقعات اور فرمودات کے برعکس 5 سالہ سوشل میڈیا اور اخبارات میں شروع کئے گئے اسی قسم کے منفی پروپگنڈوں، الزام تراشیوں، گالی گلوچ کو عامیانہ قسم کی آراء یا پروپگنڈہ قرار دیکر مسترد کر دیا۔ ان کونا قبول کیا اور نا ان کی تائید و تعریف کی، یہ نہیں کہا جنہوں نے یہ عمل شروع کیا، انہوں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے بلکہ اسے انارکی اور انتشار قرار دیکر لوگوں اور خاص کر سمجھنے والوں کی توجہ اصل اور بنیادوں حقائق کی طرف متوجہ کیا۔ یہ انٹرویو تو انٹرویو کرنے والوں کے توقعات کے اتنے برخلاف تھا اگر بس چلتا تو وہ اسے شائع نہیں کرتے لیکن واجہ صورت خان کی عادت ہے کہ وہ مختلف جگہوں سے دریافت کرتے رہتے ہیں کہ شائع ہوئی یا نہیں اگر ہوئی تو توڑی یا مروڑی نہیں گئی، سو مجبوراً شائع کی گئی۔
واجہ نے جوابات میں جواب کم دیا بلکہ خود سوال اٹھایا، اب سوال سے سوال پیدا ہونا اور پھر سوال سے پیدا ہونے والے سوال کو لیکر سوال کرکے کسی دانشور سے جواب حاصل کرنا اور قارئین کی تشنگی ختم کرنا اور علم و شعور سے مستفید کرنا کسی بھی صحافی کا معیار و صحافتی اصول اور ہنرمندی ہوتا ہے، لیکن یہاں معاملہ ایسا نہیں تھا، ایک تو محترمہ صحافی نہیں ہوگی، دوسری بات اگر صحافی ہو بھی اسے سوالات روانہ کرکے ہدایت اور خبردار کیا گیا تھا کہ بس یہ چند سوالات کے علاوہ زیادہ صحافی بننے کی کوشش نہیں کرنا، بس صرف جواب میں کچھ تعریفی صفت و ثناء والی کلمات اور باقی سب کو غلط قرار دینے والی کچھ اچھے قسم کے باتیں واپس لانا اور مقصد کچھ نہیں، بس اپنے مرضی کے جواب لینا مقصود تھا۔
تو کیا یہ عمل خود صحافت اور صحافتی اصولوں اور انٹریو کے زمرے میں شمار ہوتا ہے؟ میرے نزدیک واجہ سے جس مقصد کے تحت اپنے حق میں کچھ کہنے کی توقع رکھا گیا، وہ ایک غلط اندازہ اور تجزیہ تھا اور پھر واجہ کی باتوں کو شائع کرنا جس توقع کے ساتھ ہوا، وہ بھی ایک غلط اندازہ اور تجزیہ تھا، ہم نے بارہا کہا ہے کہ لمحہ بہ لمحہ شروع سے لیکر آج تک غلط اندازوں اور سطحی تجزیوں کی وجہ سے ہی حالات اس نہج پر پہنچ گئے، ہمیشہ ہر قدم، آراء اور فیصلے سے قبل اگر اس کے بارے میں اندازہ، تجزیہ، سطحی اور سرسری ہو تو اس کے نتائج بھی غلط اور صحیح نشانے پر نہیں ہونگے فی الحال تو معامالہ ایسا چلتا آرہا ہے۔
اسی تناظر میں دیکھا جائے تو واجہ کی پوری انٹریو خود بیساکھی یا سہارا بننے کے بجائے معذور پیروں پر ایک اور کلہاڑی اور کم عقل دماغ پر ایک اور ہتھوڑا مارنے کے مترادف ثابت ہوا۔
2010 سے لیکر آج تک آپ اخبارات، سوشل میڈیا، محفلوں اور مجلسوں کے ذریعے حتیٰ کہ میدان جنگ میں بھی انتہائی ترند و تیز انداذ میں صبح و شام اپنی تمام ترانرجی خرچ کرکے حربہ، سازش، الزام و دشنام، گالی گلوچ، اغواء و قتل وغیرہ وغیرہ کی انتہاء پر پہنچ کر یہ ثابت اور وضاحت نہ کرسکے کہ بی ایل اے اور یوبی اے کے اختلافات، جنگ، یوبی اے کے بننے اور اس سے آپسی جنگ کے اصل حقائق اور وجوہات پس پردہ کیا تھے؟ یہ سوال اب میں نہیں اٹھا رہا ہوں بلکہ بلوچ دانشور واجہ صورت خان مری اٹھا رہا ہے اور آپ خود اس سوال کو شائع کرکے ہمارے بھی اسی رونے اور موقف کی تصدیق کررہے ہو۔ ہم نے بارہا کہا، رویا کہ چند سطحی، مخصوص، فیسبکی، غیرسنجیدہ لوگ اور مخصوص و محدود سرکل آپ کی اقدامات اور باتوں پر ضرور واہ واہ کرتے ہوئے وقتی طور پر مطمئین ہونگے، ان کا شعور و علم اور سوچ اور اپروچ کی سطح یہی ہے لیکن جو دانشور ہے، جو تاریخ دان ہے، جو اعلیٰ شعور و علم کے مالک محققین ہیں، وہ ایسے ویسے بے بنیاد غیر منطقی سطحی باتوں سے مطمین نہیں ہونگے۔ جس کی واضح مثال آپ نے خود پیش کیا، صورت خان مری کی شکل میں کہ وہ جواب اور وضاحت طلب کررہا ہے، وہ مطمین نہیں ہے۔ صورت خان مری ایک بلوچ دانشور ہے، بلوچ قوم سے ہے، آج بھی بلوچ سرزمین پر بیٹھا ہوا ہے، 60 کی دہائی سے سب کچھ دیکھ رہا ہے، محسوس کررہا ہے، مطالعہ کررہا ہے، وہ فین، سارتر، ایڈور سعید، گرامچی اور جان ریڈ وغیرہ نہیں ہم اسے اس پربات نظر انداز کریں کہ ان کے زمینی حقائق اور حالات اور تھے، ہمارے حالات اور ہیں وہ وقت اور تھا آج اور مختلف ہے، یہ جی صورت خان مری ہے، جو آپکا دانشور اور آپکے زمینی حقائق سے مکمل واقف ہے، وہ بھی جواب اور وضاحت کا طلبگار ہے؟ کہ یوبی اے اور بی ایل اے کی تقسیم، اختلاف اور آپسی جنگ کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
کیا اس وقت بلوچ قوم میں صورت خان مری کے علاوہ ایسا کوئی بھی دانشور ہے، جو کسی بھی پارٹی یا شخصیت کی وفاداری کے بجائے، ایسا غیرجانبدار آزادی پسند اور بلاخوف و لالچ کوئی اور اعلیٰ قسم کے علم و تجربہ رکھنے والا ہو ؟ اگر جواب نہیں میں ہے؟ تو پھر کیا صورت خان مری کا موقف، ادراک اور سوچ غلط ہوسکتا ہے؟ اگر غلط ہے تو اس کو غلط ثابت کرنے کے لیئے کوئی ٹھوس علمی دلیل اور منطق موجود ہے؟
کیا صورت خان مری تنظیم، تحریک، ڈسپلن، احتساب، تنقید، ادارہ، ہائی کمان وغیرہ وغیرہ سے علمی حوالے سے اس طرح نابلد اور نا واقف ہے؟ کہ صورت خان مری کو ایسی چیزوں اور خالی خولی باتوں پر قائل اور متاثر کرکے اس سے حمایت حاصل کیا جاسکتا ہے؟
کیا صورت خان مری ماہانہ خرچہ، موبائل فون، لیپ ٹاپ (بڑھائی)روٹی کپڑا مکان، کرایہ، گاڑی کی خاطر اپنا ضمیر اور علم کو بیچ کر درباری اور چاپلوس بن کر خوف اور لالچ میں کچھ کہے گا یا لکھے گا؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں کیونکہ جہاں علم و شعور ادراک اور ذہانت دستیاب ہو، وہاں پھر چاپلوس، وفادار اور درباری بننا اور خوف اور لالچ میں مبتلا ہونا ممکن نہیں ہوگا۔
میرے نزدیک اگر کوئی سمجھنے والا اپنی آنکھیں، کان اور دماغ کے دریچوں کو کھول کر سمجھ لے تو صورت خان مری کے حالیہ انٹریو میں وہ سب چیزیں واضح انداز میں لفظ بہ لفظ اظہار پاچکے ہیں اور کم از کم ہمارے موقف اور خیالات کی تصدیق ہوچکا ہے۔
میں نے باربار اپنے تحریوں میں ذکر کیا ہے کہ محدود اور مخصوص سرکلوں اور ٹولوں سے نکل کر ہمیں سوچنا چاہیئے، ہوا نہ وہی بات؟ اپنے مخصوص و محدود سرکلوں اور خوشامدیوں کے زیر سایے آپ تو امیرالمومنین بن گئے تھے لیکن دانشور حضرات ابھی بھی جواب اور وضاحت چاہتے ہیں کہ بی ایل اے اور یوبی اے کی تقسیم کی اصل وجوہات اور حقائق کیا تھے؟
یاد رکھا جائے مورخ ایسے ہوتے ہیں، ہم نے بارہا کہا مورخ اندھا اور بہرہ نہیں ہوتا ہے، مورخ درباری اور خوشامد پسند بھی نہیں ہوتا ہے۔
میں آج بھی برا ملا کہتا ہوں کہ موجودہ بلوچ قومی تحریک کی باقی تمام غلطیاں، بلنڈر، کمزوریاں اپنی جگہ لیکن تین چیزوں کو مورخ انتہائی بے رحمی کے ساتھ بلوچ قومی تحریک کے لیئے انتہائی نقصاندہ اور خطرناک اور پاکستان کے لیے انتہائی فائدہ مند قرار دیگا نمبر 1۔ یوبی اے اور مری بلوچوں کے خلاف بی ایل اے کے طاقت کا استعمال نمبر 2۔بی ایل اے کے گمنام غیرمتحرک آزاد نامی ترجمان کے نام سے بی ایل اے کے رہنماء اسلم بلوچ کی انڈیا موجودگی یعنی تحریک کو انڈیا اور دوسرے مذہیبی شدت پسندوں سے جوڑنا 3۔بی ایل اے کے جانثار مجیدبرگیڈ فدائی ریحان بلوچ کی چینی انجنیئروں پر فدائی حملے کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کا نام دینا۔ یہ ایسے تاریخی بلنڈر ہیں کہ ان کے منفی اثرات آج بھی تحریک پر پڑ رہے ہیں اور مستقبل میں انتہائی بھیانک انداز میں پڑینگے۔ جس طرح صورت خان مری سوالات کے بوچھاڑ میں حقائق کو واضح کرتا ہے، کل مورخ ضرور لکھے گا، اسی طرح کہ یہ تمام فردی فیصلے اور بلنڈر ہوتے رہے لیکن درباری خوف اور لالچ کے عوض تماشائی بنے تھے یا پھر سب کی رضامندی شامل تھی، یہ بلنڈر ضرور تاریخ کا حصہ ہیں اور حصہ ہوچکے ہیں۔
ہم نے بارہا کہا! جھوٹ، حربہ، سازش، بلیک میلنگ، منفی پروپگنڈہ، الزام تراشی، گالی گلوچ، تشدد کسی کو نیچا دکھانے سے سوشل میڈیا، چاکنگ، مظاہرے، پوسٹرسازی، پروفائل پکچر، سطحی، تعریفی مضامین، صفت خوانی، سخت ڈسپلن اصولی کرشماتی کرماتی واحد قومی لیڈر کی جملوں کی رٹہ بازی سے بات نہیں بنے گا۔ ضرور کچھ نادان، معصوم، کم علم، کم عقل، جذباتی، بے شعور، غیر سنجیدہ، خود غرض، رافراریت اختیار کرنے والے چاپلوس لوگوں کی آنکھوں میں ایسے چیزیں دھول بن کر وقتی گمراہ ہوسکتے ہیں لیکن مورخ دانشور اور باشعور اور باعلم مخلص بے غرض اور بہادر لوگوں کے لیئے ایسے تمام چیزیں سطحی اور عامیانہ ہونگے۔ خاص کر تنقید اور حقیت پسندی کے نام پر سوشل میڈیا کی گند آلود بحث ہم نے کہا تھا وقت ضائع کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور صرف خوش فہمی اور دل بہلانا ہے اور کچھ نہیں۔ آج صورت خان کو سمجھنے سے سب کچھ ملے گا اگر عقل و شعور تھوڑا بھی ہے۔
واجہ کے انٹرویو کے تناظر میں کچھ سوالات، بلوچ طاقت کو بلوچ عوام کے خلاف استعمال اور پھر تحریک سے بلوچ عوام کی حمایت کا ختم ہونا کیا کوہستان مری میں جو مری بزرگ، معصوم بچے، مرد اور خواتین رہائش پذیر تھے وہ بلوچ عوام شمار نہیں ہونگے؟ کیا بی ایل اے کا طاقت ان کے خلاف استعمال نہیں ہوا؟ وہاں بلوچوں کا سرعام اور علی الاعلان قتل عام، مال مویشیوں کا چوری، گھروں اور گدانوں پر حملہ اور انہیں نذر آتش نہیں کیا گیا؟ اور 80 سالہ بلوچ جہدکار نواب خیربخش مری کے قریبی دوست بلوچ گوریلا کمانڈر رحمدل مری کا اغواء نہیں ہوا؟ آج تک معلوم نہیں وہ زندہ ہے یا شہید ہوچکا ہے؟ کیا بی ایل اے بلوچ قومی طاقت نہیں تھا؟ کیا بے گناہ بلوچوں کے خلاف استعمال نہیں ہوا؟ اگر فرض کریں وہ گناہ گار تھے، تو کوئی دلیل کوئی وضاحت؟ آج یہ میں نہیں کہتا واجہ صورت خان مری کہتا ہے میں نے پہلے کہا آپ کی تاریخ ایسے لوگ لکھتے ہیں۔ سوال آپ نے کیا کہ بلوچ قوم کی طاقت بلوچ قوم کے خلاف استعمال سے بلوچ قوم کی حمایت تحریک سے ختم ہوا تو جواب صورت خان مری نے دیا بلکل کوہستان مری انگریز دور سے مزاحمت کا گڑھ اور علامت تھا، وہاں پاکستان اور انگریز دشمن کی طاقت کے باوجود سڑک نہیں بنا سکے لیکن بی ایل اے اور یوبی اے کے آپسی جنگ کے بعد سڑک بھی بن گیا اور ٹریفک بھی زور و شور سے جاری ہے اور کامیاب پاکستانی الیکشن پہلے ممکن نہیں تھا، اس دفعہ کوہستان مری میں جوش و خروش سے الیکشن بھی ہوا، یہ میں نہیں کہتا صورت خان کہہ رہا ہے، صورت خان کو تو ڈاکٹر نظر استاد اسلم اور بشیر زیب استعمال نہیں کررہے ہیں۔
صورت خان مری کہتا ہے کہ سڑکوں کا اجازت تو نہیں ہوا ہے؟ کیا مخصوص ایجنڈے کے تحت یہ آپسی جنگ خود اجازت کی طرف واضح اشارہ نہیں ہے؟ پہلے قومی طاقت کو تقسیم پھر آپسی لڑائی بلوچ عوام میں مایوسی، بدظنی، سرنڈر، قتل عام، مزاحمت کا صفایا، پھر سڑکوں کی تعمیر، الیکشن اور لیویز فورس کے ذریعے قومی مڈی، جنگی سازوسامان دشمن کے حوالے، اس کے بعد آخری مرحلے میں کوہستان مری سے تیل و گیس اور بے پناہ دیگر وسائل کو نکالنا، اس وقت نواب خیربخش مری تھا جو پوری زندگی کوہستان مری میں موجود وسائل کو ہاتھ نہ لگانے دیتے اور بلوچ قوم کا ملکیت، امانت تصور کرتے تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواب خیربخش مری کی زند میں نواب صاحب نے یوبی اے بنایا اور بی ایل اے سے علیحدگی اختیار کی تو جب نواب صاحب حیات تھے، تو اس وقت یوبی اے یا مری عوام کے خلاف کیوں بلوچ قومی طاقت یعنی بی ایل اے استعمال نہیں ہوا؟ اور نواب صاحب کے وفات کے فورا بعد نواب صاحب کی قبر کی مٹی خشک نہیں ہوا تھا، وہاں بی ایل اے کے طاقت کا استعمال ہوا؟ کیا کوہستان مری سے مزاحمت کا بیخ کنی سڑکوں کی تعمیر انہی سڑکوں کے ذریعے فوجی نقل و حرکت کے ساتھ قدرتی وسائل کو لےجانے کا منصوبہ بندی اور مخصوص ایجنڈہ نہیں تھا؟ اگر نہیں تو پھر یوبی اے اور بی ایل اے کی آپسی لڑائی کی کیا وضاحت؟ بقول واجہ صورت خان مری کے اس کے بعد بی ایل اے کے مخلص سینئر اور اکثریت دوستوں کی یوبی اے کے ساتھ پہلے ایک سال جنگ بندی اور پھر جنگ کا مکمل خاتمہ اس عمل کو برا مان کر مخلص دوستوں کو دیوار سے لگانے کی ناکام کوشش کیا گیا، کیا یہ عمل خود مخصوص ایجنڈے کی تکمیل نہیں تھا؟
لیکن بی ایل اے اور یوبی اے کی آپسی جنگ کا خاتمہ، خود آج اس بات کی واضح ثبوت ہے کہ بی ایل اے نے آپسی جنگ کو مسترد کرکے پورے آپسی جنگ کا خاتمہ کیا، آج بلوچ قوم کی خوش قسمتی ہے، کوہستان مری میں یوبی اے اور بی ایل اے کے دوست آپس میں شیروشکر ہوگئے اور کوئی واقعہ، کوئی جنگ اور کوئی جھگڑے کی ایک معمولی سی جھلک بھی دیکھائی نہیں دے رہا اس حقیقت سے کوئی انکار کرسکتا ہے؟
اور یہ بات متوقع ہے کہ جلد یوبی اے اور بی ایل اے کے سرمچار کوہستان مری میں مشترکہ طور پر ایک ساتھ ہوکر بلوچ جنگی سازوسان اور قدرتی وساہل کی لوٹ مار اور ریاستی و بیرونی استحصالی حکمت عملی و منصوبہ بندی، عزائم اور ایجنڈے کو خاک میں ملا دینگے۔
دوسری جانب واجہ صورت خان مری جو بار بار ہمیشہ کہتا آرہا کہ بلوچ سیاسی پارٹی، سیاسی قوت کی فقدان ہے، وہ بھی سرزمین پر اسی وجہ سے مسلح گروپس میں انارکی، تقسیم در تقسیم، بے لگامی کی کیفیت ہے تو ایک بار پھر واجہ ہمارے موقف کی تائید کی جب تک سیاسی سوچ، علم و شعورعوام میں نہیں ہوگا، اس وقت تک مسلح جہدوجہد اور تحریک کی کامیابی ممکن نہیں ہوگا۔ صورت خان مری یہ نہیں کہتا کہ مضبوط سفارت کاری، سوشل میڈیا بحث و مباحثے، باہر مظاہرے، جلسہ جلوس کی ضرورت ہے گوکہ یہ کسی حد تک ضرورت ہے لیکن مسلح جنگ کو منظم کرنے اور لگام دینے اور دھڑے بندی سے بچانے کی حصول کے خاطر سیاسی پارٹی کی ضروت ہے، جو ریاست کا نعم البدل ہو، جو گراونڈ میں موجود ہوکر ریاست کی نعم البدل ہوسکتا ہے ہزاروں میل دور ہوکر کیسے کس طرح ریاست کا نعم البدل ہوسکتا ہے؟
میں مزید واجہ کی مستند رائے کی تشریح کرتا چلوں، جب سیاسی پارٹی ہوگا تو خود قوم اور نوجوانوں میں سیاسی شعور و علم ہوگا، جب سیاسی علم شعور ہوگا تو مسلح جدوجہد کنٹرول ہوگا یعنی سیاسی شعور و علم ہی کے مقابلے میں پھر کوئی لاکھ کوشش کرے، مسلح دھڑہ بنا لے بے لگام ہو تو بلوچ عوام کی سیاسی شعور اور علم کے سامنے بےبس حمایت سے محروم اور ناکام ہوگا بلکہ ختم ہوگا۔ اس کو کوئی بھی قبولیت نہیں ملیگا، جب سیاسی شعور نہیں تو ایک درجن اگر مسلح گروپس آزادی کے نام پر بنے ان کا ایجنڈہ جو بھی ہو تو لاشعوری، جذباتی اور غیر سیاسی بنیادوں پر بھیڑ بکریوں کی طرح نوجوان آنکھیں اور کان بند کرکے دوڑتے ہوئے بطور ایندھن استعمال ہونگے، جس طرح آج ہوتے جارہے ہیں اور مسلح گروپس کو سہارا اور ایندھن بن رہے ہے اور کسی کے بھی ذاتی اور خاندانی مفادات کے نگہبان اور محافظ بن رہے ہیں، اس لیئے مخصوص اور ذاتی مفادات کے خاطر بقول واجہ صورت خان کے روذاول سے سیاسی قوت تشکیل نہیں دیا گیا ہے، تو اس کا برائے راست تانے بانے مخصوص مفادات کی حصول اور تکیمل سے ملتے ہیں۔
اب ضرورت اسی امر کی ہے کہ بلوچ عوام میں ہر مکمن حد تک کوشش ہو، علم و شعور اور ذہنی تربیت کو تیزی کا ساتھ پھیلانا تب جاکر قومی مسلح جہدوجہد منظم اور موثر ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔