شیر کی آنکھوں میں آنسو – تحریر: بشام بلوچ

678

شیر کی آنکھوں میں آنسو
تحریر: بشام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں انسان بستے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم ایسے انسانوں نے جنم لیا کہ جنہوں نے اپنی زندگی انسانوں کی خوشحالی اور انسانیت کی دفاع کیلئے قربان کردی۔ تاریخ ہمیشہ ان انسانوں کو سنہرے الفاظ میں یاد کرتی ہے، جنہوں نے اپنے کردار سے پوری انسانیت کو روشناس کیا ہو، ایک انسان دوسرے انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی دکھائے وہ انسان کبھی مرتا نہیں۔ روشنی پھیلانے والے انسان جسمانی طور پر جدا ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کے کردار ان کی سوچ، فکرو فلسفہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔

آج میں ایک ایسے شخص کے متعلق بات کر رہا ہوں، وہ میرے استاد ہیں، وہ عظیم انسان حافظ سرفراز ہے، جس کے بارے میں میرے پاس کم الفاظ ہیں۔ میں انکی تعریف کیسے کروں، کن حروف سے انکا مبارک نام لکھوں اور کس زبان سے آسکا نام پکاروں، جس نے اپنی پوری زندگی اپنی قوم کی بقاء وسلامتی اور آزادی کی خاطرقربان کیا اور اس نوجوان کی اُس بہادر ماں کی جرات کوسلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی لخت ءِ جگر کو مادر وطن پر قربان کر دیا کیونکہ باشعور مائیں جانتی ہیں مقصد کیلئے امر ہوئے انسان ہمیشہ کیلئے زندہ ہوتے ہیں، وہ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوجاتے ہیں۔

ان میں شہید سرفراز بھی ایک بلو چ باشعور فرزند ہے، جو جسمانی طور پر ہم سے جداہوا ہے لیکن انکا فکروفلسفہ ہماری رہنمائی کرتی ہے، شہید سرفراز جان ایک بات ہر وقت کرتے تھے، جدوجہد آزادی میں شامل ہونا عظیم کارنامہ ہے جو اس میں اپنے کردار ادا کر رہے ہیں، وہ عظیم کام سرانجام دے رہے ہیں، یہاں مفاد پرست نہیں رہ سکتے ہیں، شہید سرفراز ایک بہادر اور خوش مزاج اور ملنسار شخص تھے۔ وہ زیادہ وقت دوستوں کیساتھ ہنسی اور مزاق کے ساتھ گذارتے تھے۔

ایک دن شہید سرفراز کے ساتھ ہمسفر رہے تو راستے پر ہمیں ایک آرمی چیک پوسٹ سے گذرنا پڑا تو ڈرائیور ہم سے پوچھا آپ لوگوں کے پاس شاختی کارڈ ہے، آگے ایک آرمی چیک پوسٹ آنے والی ہے، وہ بہت ظالم لوگ ہیں انکو طالب علموں سے بہت نفرت ہے۔ کئی بار میرے گاڑی کے پیسنجر سمیت خاص کر طالب علموں کو اتار کراپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ تو سرفراز نے ایک سانس لینے کے بعد ڈرائیور سے مخاطب ہو کر کہا بلکل آپ نے ٹھیک کہا کیونکہ دنیا میں ہمیشہ جو بھی قبضہ گیر گذرے ہیں، انھوں نے غلام قوم کو کبھی تعلیم یافتہ نہیں ہونے دیا ہے، کیونکہ انکو اچھے طریقے سے اس بات کا علم تھا، اگر کسی اندھے کو روشنی مل جائے تو وہ اپنے زنجیروں کو توڑنے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس لیئے کسی شخص کو تعلیم یافتہ کرنا اندھیرے کو روشنی دینے کی مانند ہے۔ اس لیئے پاکستان کبھی نہیں چاہتا ہے کہ بلوچ کے بچے اور بچیاں تعلیم یافتہ بن جائے؛ خیر آگے دیکھتے ہیں کیا ہے جب ہم چیک پوسٹ پر پہنچے تو ایک سرخ رنگ اور موٹے جسم کے آرمی والے نے گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا، جب گاڑی رک گیا، تو اس نے کہا سب گاڑی سے اُتر جائیں، ہم سب اُتر گئے اس نے پورے گاڑی کی تلاشی لے لی اور اور اسکے بعد ہمارے پاس آکر کہا سب لائن میں کھڑے ہوجائیں اور اپنا شناختی کارڈ نکالیں۔ ہم لائن میں کھڑے ہوگئے، سپاہی نے ایک بوڑھے شخص کی تلاشی لی تو اس نے بوڑھے کو کہا “بڑوا کتنے پاکستانی فوجی مارے ہیں تو نے” بوڑھے بے چارے کو اردو سمجھ میں نہیں آیا، اس نے بلوچی میں شہید سرفراز سے پوچھا یہ کیا پوچھ رہا ہے مجھ سے تو شہید سرفراز نے کہا بابا چہ جست کنگا ئیں انت تو بابا مخاطب ہو کر کہا کہ( بابا تو چہ کس سپاہی جتگ) “میں ایک مزدور ہوں” بابا کہنے کے بعد فوراً اپنے زخمی ہاتھوں کو سپاہی کے سامنے پیش کیا، یہ دیکھو میں ایک مزدور ہوں میرے ہاتھوں کے زخموں کو دیکھو. سپاہی نے بابا کو ایک اور گالی دے کر منہ پہ تھپڑ رسید کی تو شہید سرفراز نے کہا انکو مارنے سے اچھا ہوتا مجھے مار دیتے. تو سپاہی منہ مُوڑکر سرفراز کے ساتھ بدکلا می کرنے لگا شہید نے کہا “اگر کوئی جرم کیا ہے تو سزا دیں بد کلامی نہیں کریں” تو سپاہی نے سرفراز کو مارنا شروع کیا، مارنے کے بعد شہید سے پوچھا بتاؤ کیا کام کرتے ہو بدمعاش شہید نے دلیری سے کہا میں بدمعاش نہیں ایک طالب علم ہوں، علم کا طلب گارہوں۔ بدمعاش وہ ہے جو دن دہاڑے لوگوں پر بغیر کسی وجہ سے تشدد کرتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھتا نہیں۔ سپاہی نے بات سن کر ایک اور پنجہ رسید کرکے شہید کو مار کر کہا کہ تمہارے مونچھوں سے پتہ چلتا ہے تم بدمعاش ہو۔ شہید سرفراز شیر کی طرح بہادر تھا اور اس کے خوبصورت بڑے مونچھ تھے خیر سبکو تلاشی لینے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ ہم اپنے منزل پر روانہ ہوگئے۔

کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد شہید سرفراز اسی بابا سے پوچھا “بابا آپ کہاں جارہے ہو؟” بابا نے کہا بیٹا میں علاج کیلئے دوسرے شہر جارہا ہوں، میں دل کا مریض ہوں۔ شہید کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں نے کہا شیر کی آنکھوں میں آنسو؟ اس نے کہا یہ آنسو کسی ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ قبضہ گیر کے سپاہی میرے بوڑھے اور مریض بابا کو مار رہے تھے اور میں کچھ کر نہیں سکا۔ بابا نے کہا بیٹا میری وجہ سے آپ نے گالیاں کھائیں اور مار کھایا، پھر بھی میرے لیئے افسوس کر رہے ہو۔ میں مبارک باد پیش کرتا ہو اس عظیم ماں کو جس نے آپ جیسے بہادر اور نرم دل بیٹا جنم دیاہے۔ شہید سرفراز یہ سب کچھ سننے کے بعد پوری گاڑی کے مسافروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ” آج تم لوگوں کو یہ ضرور محسوس ہوگا کہ ہم غلام ہیں کیونکہ غلام کی یہی اوقات ہوتی ہے، آقا کے سامنے کوئی بھی حرکت کرکے نہیں دیکھائے، کچھ بھی بولے مت، خیر کچھ خاموشی کے بعد بابا نے پوچھا بیٹے سرفراز آپ نے اس ظالم کے سامنے کیوں سخت لفظ استعمال کیئے؟ اُسے صاحب کہتے رہوتاکہ آپ مار پیٹ سے بچ سکو۔ شہید نے بابا کے بات سن کر ایک عجیب شعر ہمیں سنایا.”جو ہے فرعون و دنیا میں.میں اس کو خدا کہہ دو یہ مشکل ہے۔۔۔۔ مجھے زنجیر پہنا دے، مجھے سولی پہ لٹکا دے میں رہزنوں کو رہنماء کہہ دوں یہ مشکل ہے۔”

سب شہید کی بات سن کر خوش ہوگئے اور میں نے تالیاں بجانا شروع کیا اور مجھے فخر محسوس ہوا کہ میں ایک سچے اور دلیر شخص کا ہمسفرہوں، مجھے آج تک فخر ہے، سرفراز آپکی بہادری اور ہمت و حوصلے پر فخر ہے۔

خیر میرا اور آپ کا دوستی جاری رہا 28 اپریل 2015 کے دن میں اپنے دوستوں سے ایک خوشگوار موڈ میں تھا اچانک کسی دوست نے کہا حافظ سرفراز اپنے مدرسے جامعہ محمدیہ سے لاپتہ ہوا ہے، کسی کو پتہ نہیں کہاں ہے۔ میں بہت پریشان ہوکر رہ گیا، میں کبھی مسجد جا کے اپنے وفا دار دوست کیلئے دعا ئیں مانگتارہا، کبھی ماں بہنوں سے دعا کی عرض کی، میں بہت پریشان تھا۔ ان ایام میں اچانک خبر آیا کہ پاکستانی آرمی کے کارندوں نے میرے قریبی کچھ دوستوں کو اغوا کرکے اپنے کیمپ میں منتقل کردیا ہے۔

میں کچھ اور پریشان رہ گیا، کچھ دن کے بعد دوستوں کے بازیاب ہونے کا حال سن کر خوش ہوا، دوستوں کی حال پرسی کیلئے انہوں کے گھر گئے، دعا و سلام کے بعد دوست نے کہا بھائی ہم نے حافظ سرفراز کو زندان میں دیکھا تھا، آپ کے دوست اپنے مضبوط حوصلوں کے ساتھ وہی سرفراز تھا اس نے ہمیں جیل میں حوصلہ دے کر ہمیں بھی اپنے حوصلوں کی وجہ سے حوصلہ مند رکھا۔

جب میں اپنے دوستوں سے رخصت ہوکر اپنے گھر کی طرف روانا ہوا، تو راستے میں طرح طرح کے سوالات میرے ذہن میں آرہے تھے، کیا شہید سرفراز دوبارہ مجھ سے مل سکتا ہے کہ نہیں؟ وہ کونسی چیز ہوسکتی ہے جو اتنے دن زندان میں مارپیٹ تشدد کے باوجود آپ کا فکرو حوصلہ مضبوط رہا۔

لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا کچھ مدت کے بعد 20 جولائی 2016 کی رات کو میں جب ریڈیو بی بی سی سن رہا تھا، پاکستان کے بزدل فوج نے یہی اعلان کر دیا کہ سرفراز سمیت کچھ دہشتگرد مقابلے میں مارے گئے ہیں اور انکی کیمپ سے بھاری مقدار میں اسلحہ فوج نے برآمد کی ہے لیکن دوسری طرف بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے واضح کردیا کہ شہید سرفراز ایک طالب علم تھا انکو پاکستانی آرمی نے اپریل 2015 کو کراچی شیر شاہ مدرسے سے اغوا کیا تھا۔ ایک سال کے بعد انہیں جعلی مقابلے میں شہید کردیا۔