شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
شہید عبدالسلام، شہید اسماء بی بی
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اکثر ہم یہ بات سُنتے ہیں کہ شہید کی موت قوم کی حیات ہوتی ہے، زندگی ہے مگر وہ کیسے اور کس طرح کہ شہید کی موت قوم کی حیات یا زندگی ہے؟ ایک انسان اپنی جان قربان کرکے دوسرے ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کو زندگی بخشتا ہے، وہ اپنے جان کو قوم و سرزمین کی امانت جان کر قوم کی عزت، بقاء تحفظ، سربلندی اور آزادی کے لیئے قربان کرتا ہے، شہید کے لہو کے قطرے زمین پر گر کر زمین کو سیراب کرتے ہیں اور اُنکے مقدس لہو کے قطروں سے اُنکی سوچ و فکر کی آبیاری ہوتی ہے، شہید مرتے نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ و جاویداں ہیں، موت صرف جسمانی طور پر الگ ہونے کا نام ہے کوئی مر کر صرف ہم سے جسمانی طور پر الگ ہوسکتا ہے لیکن اگر کسی انسان نے اپنے زندگی میں کوئی اچھا کردار ادا کیا ہے یا اپنے قوم و سرزمین کے لئے اپنی قیمتی جان قربان کیا، ایسے عظیم کردار کبھی نہیں مرتے اُنکا نظریہ، سوچ اور اُنکی فکر اُنہیں مرنے نہیں دیتی بلکہ وہ اپنے عظیم خیالات، تعلیمات اور کردار کی وجہ سے ہمشہ زندہ رہتے ہیں۔
ایسے تاریخ ساز کردار ہر دور میں اپنے لہو سے تاریخ لکھتے آرہے ہیں اور لکھ رہے ہیں، قوموں کے تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسے بہت سے عظیم کرداروں سے واقف ہوتے ہیں، جنھوں نے بے شمار اذیتیں جھیل کر اپنے قوموں کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر آزادی کی ٹھنڈی سائے میں داخل کیا ہے، آج بھی اگر ہم تحریکوں اور انقلابات کی تاریخ اور شخصیات کی سوانح عمری پڑھتے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں، ہمارے ساتھ ہیں اور ہماری رہنمائی کررہے ہیں۔ دنیا کے وجود سے لیکر تاحال کروڑوں انسان مرچکے ہیں لیکن ان کروڑوں انسانوں میں سے ہم ایسے چیدہ چیدہ شخصیات کو جانتے ہیں اُنکے کارناموں اور عظیم کردار سے واقف ہیں، جنھوں نے اپنی زندگیاں اپنے قوم اور سرزمین کے لئے وقف کیئے ہیں اور اپنے مقصد پر قربان ہوئے ہیں۔ جب تک یہ دنیا قائم ہے، لوگ اُنکے بارے میں جانتے رہینگے، اُن کے زندگیوں کا مطالعہ کرتے رہینگے، اُنکے تعلیمات، سوچ اور فکر سے استفادہ حاصل کرتے رہینگے لیکن کروڑوں زندہ انسان اب بھی روئے زمین پر موجود ہیں، وہ صرف اپنے ذات اور اپنے ضرورتوں کے حصول تک محدود ہیں۔ زندہ ہوتے ہوئے ہم اُن سے واقف نہیں ہیں کیونکہ اُنکا عمل انفرادی ہے، اس لیئے وہ زندہ ہوکر بھی محدود ہیں، اُنکی سوچ محدود ہے، وہ دو وقت کی روٹی، اچھے کپڑے، عالیشان گھر اور گاڑیوں کی حصول کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں لیکن انہی کروڑوں انسانوں کے درمیان چند گنے چنے لوگ موجود ہیں، جن کو اپنی ذات کی کوئی فکر نہیں، وہ انسانیت کی بقاء کے لئے جستجو کررہے ہیں، دنیا میں ناانصافی، ظلم و جبر کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ آج بھی زندہ ہیں اور مرنے کے بعد بھی زندہ رہینگے، صدیوں تک اس طرح زندہ جاویداں رہیں گے دنیا میں جہاں بھی کوئی انسان غلامی، ناانصافی، سامراجیت، نوآبادیات، اور قبضہ گیروں کے خلاف اُٹھے گا، لڑے گا، بات کرے گا وہ ہمیشہ مظلوم انسانوں کی دلوں میں، سوچ میں اور نظریات میں زندہ ہی رہے گا۔
شہید عبدالسلام ایڈوکیٹ اور اُنکی بیٹی شہید اسماء بی بی کی شہادت بلوچ تاریخ کا ایک انمٹ حصہ بن چکی ہے، کرخ کے سر سبز و شاداب زمین، پہاڑ، لہلہاتے کھیت و کھلیان، بہتے پانی، چرند و پرندوں نے بہت سے لوگوں کی موت دیکھی ہوگی لیکن وہ کبھی اس طرح افسردہ، غمزدہ، خاموش اور مایوس نہیں ہوتے ہونگے، جس طرح ان شہیدوں کی موت نے کرخ سمیت بلوچستان کے باسیوں کو غمزدہ اور افسردہ کیا، شہید عبدالسلام و اُنکی بیٹی کی شہادت پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل غمزدہ تھا۔
28 ستمبر 2011 کا دن ایک انتہائی کرب ناک دن ثابت ہوا، ویسے دیکھا جائے ہر دن، ہر ساعت بلوچ قوم اور بلوچستان کے لئے کربناک اور درد بھری کہانیاں سیمٹتا ہے، بلوچ تاریخ قربانیوں، شہادتوں سے بھری پڑی ہیں جب مادرِ وطن نے اپنے بچوں کو پکارا ہے تو بچے اپنے دھرتی ماں کی پکار پر اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، عقوبت خانوں میں دشمن کی اذیتیں، تشدد اور وحشت سہے ہیں، دشمن کے گولیوں کو اپنے سینوں پر سجا کر اپنا قرض ادا کیا ہے اور کوئی بھی فرزند قرض ادا کرنے سے کھبی بھی پیھچے نہیں ہٹا ہے۔
28 ستمبر 2011 کے دن عبدالسلام ایڈووکیٹ اپنے بچوں کو گھر سے بازار لے جارہے تھے، گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ریاستی ایجنٹوں، کرائے کے قاتلوں نے اُن کے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردیا، جس سے عبدالسلام ایڈووکیٹ موقع پر شہید ہوگئے جبکہ اُنکی کمسن بیٹی اسماء بی بی شدید زخمی ہوگئی جبکہ دیگر بچے معجزانہ طور پر محفوظ رہے، اسماء بی بی کو کوئٹہ منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہیں ہوسکی، شہید ہوگئی۔ وہ ایک ننھی پری اور ننھی تتلی تھی، جو ابھی اُڑ نہیں پائی تھی۔ ایسی پھول تھی، جیسے بن کھلے مسل دیا گیا۔ درندگی اور وحشت کی ایسی مثال کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی لیکن یہاں انسان کے بھیس میں حیوان اور درندے بستے ہیں، جو چند وقتی مراعات اور مفادات کے لیئے قبضہ گیروں کے ہاتھوں استعمال ہوکر درندہ اور حیوان بن جاتے ہیں، ایسے انسان نما وحشی درندوں کے ہاتھوں کئی اسماء شہید اور کئی معصوم بچے یتیم اور بے سہارا بن چکے ہیں۔
عبدالسلام ایڈووکیٹ اور اُنکی کمسن معصوم بیٹی کی شہادت نے ہر آنکھ اشکبار کردیا، شہید عبدالسلام ایڈووکیٹ ایک قوم پرست، بلوچ دوست اور انسان دوست تھے۔ وہ تحریک سے وابستہ سیاسی کارکنوں کے کیسزز بلکل مفت لڑتے۔ اُنہیں نشانہ بھی اس لیئے بنایا گیا کہ جب 2007 سے 2010 تک ریاستی ادارے سیاسی کارکنوں گرفتار کرکے اُن پر مختلف بوگس مقدمات بناتے تھے، شہید عبدالسلام ایڈوکیٹ ایسے سیاسی کارکنوں کو قانونی معاونت فراہم کرتے، اُنکی ضمانت کرتے اور کیس لڑ کر اُنہیں جھوٹے مقدمات سے بری کرواتے۔ اس دوران شہید کو ریاستی اداروں کی جانب سے دھونس و دھمکی ملتا رہا، اُنہیں لاپتہ کرنے اور قتل کرنے کی دھمکی دی گئی، خضدار چھوڑ کر چلے جانے کو کہا گیا لیکن وہ دھونس و دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنا فرض نبھتا رہا اور ریاستی اداروں اور اُنکے کاسہ لیسوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے بجائے موت کو ترجیح دیا اور مادر وطن پر جان نچھاور کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے لیکن سودا بازی، مصلحت پسندی، بلیک میلنگ، لالچ اور خوف کا شکار نہیں ہوئے، آخری دم تک اپنے اصولوں اور موقف پر ڈٹے رہے ایسے کردار، ایسے انسان ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں، مرنے سے قومیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ قوموں کا زوال اُس وقت شروع ہوتا ہے، جب وہ اپنے تاریخ، اپنے آباؤاجداد اور شہداء کے قربانیوں، اُنکے بتائے ہوئے راہ سے انحراف کرتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔