شہید اللہ بخش تجھے سلام – واحد بخش

605

شہید اللہ بخش تجھے سلام

تحریر : واحد بخش

دی بلوچستان پوسٹ 

شہید اللہ بخش 1990 کو جھاؤ زیرکانی میں واجہ محمد یعقوب کے گھر میں پیدا ہوئے، وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، اس کا باپ ایک کسان تھا، وہ شہید اللہ بخش کو پڑھانے کا قابل نہیں تھا،اس لیئے اپنے ساتھ کھیتوں میں لے جایا کرتا تھا تاکہ مدد کر سکے۔ وہ تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور تھے، شہید اللہ بخش بکریاں چرانے لگے، بچپن سے بکریاں چراتا رہا اور اپنے باپ کے ساتھ کھیتوں میں جاکر اپنی باپ کی مدد کرتا تھا۔ بچپن سے جوانی تک باپ کو سہارا دیتا رہا اور دور دراز علاقوں میں مزدوری کے لیئےجاتا تھا، وہ ایک ان پڑھ ہوتے ہوئےکچھ چیزوں کا احساس رکھتا تھا، کبھی کبھار ایران اور دوسرے بڑے شہروں میں مزدوری کرنے کے لیئے جاتاتھا لیکن قوم پرستی کے جزبے نے کہیں پہ رہنے نہیں دیا۔ وہ چاہتا تھا میں قومی تحریک کے کاروان میں شامل ہو کر اپنا حق ادا کروں، آخر اس نے فیصلہ کر لیااور اپنے باپ سے پوچھنے لگا کہ ہماری قوم اتنی مجبور ہے کہ ایک پیناڈول گولی کے لیئے مر رہے ہیں، غلام قوم بغیر آزادی سے کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ میں چاہتا ہوں پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر آزادی کی جنگ میں شامل رہوں، یقیناآپ مجھے منع نہیں کریں گے۔ باپ نے جواب دیا میرا ارادہ تھا میں آپ کو کہوں گا اچھا ہوا آپ نے خود بتایا میں کہتا ہوں اگر آپ میراحقیقی فرزند ہو اپنے بھائیوں کے ساتھ جاکر آزادی کی جنگ میں شہادت کا رتبہ حاصل کرو کبھی مڑ کر پیچھے گھر کی طرف مت دیکھو، میں سب کچھ سنبھالوں گا، اسی سرزمیں نے ہمیں ایک نام دیا ہے، تم میرا نہیں اسی سر زمیں کے بیٹے ہو۔ شہید اللہ بخش بہت خوش ہوا اور کہنے لگا مجھے یقین نہیں آ رہا، مجھے پتہ تھا آپ مجھے منع نہیں کریں گے۔

شہید اللہ بخش نےمزدوری کا بہانہ بنا کر گھر سے نکل گیا، مشکے جاکر وہاں سے بی ایل ایف کے کیمپ جاکر ٹریننگ کی 2013 کا الیکشن ہو رہا تھا، بلوچ سرمچاروں نے جھاؤ زیرکانی میں فوج پر حملہ کرکےبہت نقصان پہنچایا تھا، فوج حواس باختہ ہو کر شہید اللہ بخش کے گھروں کو جلادیا۔ 80 بوری گندم سمیت سب کچھ جل کر راکھ ہو گئے، کچھ دوست شہید اللہ بخش کے باپ سے ملنے گئے اس کے باپ نے کہا تمھارے ساتھی سلامت ہیں؟ اللہ ان کو امان میں رکھے مجھے اپنے گھروں کی پروا نہیں مال کا نقصان پورا ہوتا ہے، سرمچاروں کا نقصان پورا نہیں ہوتا۔ ان کی ہمت کو دیکھ سب حیران رہ گئے کہ انہیں اپنی سر زمیں اور سرمچاروں سے کتنا محبت ہے۔

کچھ مہینے بعد شہید اللہ بخش واپس آیا، ان کو کیمپ لے جایا گیا انہیں پڑھنے کا شوق چڑھ گیا، وہاں کیمپ میں پڑھنا شروع کیا، پڑھائی میں بہت محنت کرکے جلد ہی پڑھنا سیکھ لیا، سنگر اور دوسرے بلوچی کتاب پڑھتے اوراپنے ساتھیوں کو پڑھاتے تھے۔ دوست ان کی پڑھائی دیکھ کر حیران رہ جاتے، ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے تھےبحث مباحثوں میں حصہ لیتا رہا، وہ کہتے یہ ایک جنگ ہے اگر ہم انفرادی امیدیں اور توقعات لے کر شامل ہوئے تو وہ پورے نہیں ہوں گے، ہم جلد ہی ٹوٹ جائیں گے اگر نظریاتی طور شامل ہوئے ہیں یقیناً اپنی منزل کو پالیں گے، ہم جانتے ہیں جنگ تباہی کا نام ہے، اپنے رشتہ داروں اور گھر والوں سے دور رہیں گے لیکن جنگ کے سوا ہمارےلیئے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں، ہمارے بقا کا تحفظ کر سکے، وہ ایک انقلابی شخص تھے، مشکل حالات میں خود آگے نکلتے اور اپنےدوستوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ وہ پورے قوم کا درد لیئےدشمن کے خلاف منصوبہ بناتے تھے، ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرتے رہے، اپنی محنت اور ذمہ داری کی وجہ سے کمانڈر بن گئے۔ وہ مخلص اور ایمان دار شخص تھے، بزدل دشمن اس کے نام سے خوف کھاتے تھے، فوج نے اس کے خاندان والوں کو اپنے آبائی گاؤں زیرکانی سے نقل مکانی پر مجبور کیا تاکہ ان کو خوف زدہ کریں۔ پورے زیرکانی گاؤں کے تمام لوگوں کو گرفتار کرکے اپنے آرمی کیمپ منتقل کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد سے ستر سالہ دوز محمد، محمد عمر اور دوستو کو شہید کرکے باقی لوگوں کو تشدد کرکے پورے زیرکانی گاؤں کو نقل مکانی پرمجبور کیا گیا۔ شہید اللہ بخش کمزورہونے کے بجائے اور پختہ ہوتاگیا۔

یہ بلوچ قوم کی کامیابیاں ہیں، وہ اپنے جنگی حکمت عملی کی وجہ سے دشمن کونقصان پہنچاتے، کبھی انہیں مایوس ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، دشمن کی خبر سن کر خوش ہوتے اپنے ساتھیوں کو تیار کرکے سفر پر روانہ ہوتے دشمن کو مارے بغیر واپس نہیں آتے۔ وہ ایک گوریلہ کمانڑرتھے، شاہین کی طرح شکار کرتےاور اپنے گھونسلے تک پہنچ جاتے تھے۔ دشمن کی چالوں کو جانتے،اپنا جنگی حکمت عملی اسی طرح بناتے تھے۔ دشمن نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیےپورے جھاؤ کو چوکیوں میں بدل کر اپنی فوجیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیئے عوام پر تشدد کرنا شروع کیالیکن ایسے پروپگنڈوں میں کامیاب نہیں رہے۔

28 اکتوبر2017کو شہید اللہ بخش عرف بشام اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے، راستے میں دشمن سے آمنے سامنے مدبھیڑ ہوئی، لڑائی شروع ہوئی، دوبدو لڑائی میں اپنے جان کی پرواہ کیئے بغیر اپنے تمام ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے میں اپنے شہادت کو ترجیح دے کر دشمن سے لڑتے رہے۔ شہید اللہ بخش اور شہید رازق جان عرف کہور جان نے جوان مردی سے لڑتے ہوئے اپنے تمام ساتھیوں کو نکال کر اپنی آخری گولی تک دشمن کا مقابلہ کرکے شہادت کا عظیم رتبہ پاکر شہید ہو گئے۔ فوج نے قریبی گاؤں میں جاکرلوگوں کو گرفتار کرکے اکٹھا کیا، اپنے بزدلی کی داستاں بتائی، شہید اللہ بخش اور شہید رازق جان نے رکتے سانس تک مقابلہ کیا اور شہید ہو گئے، ایسے سرمچاروں پر فخر ہونا چاہیئے، قومی آزادی کی جنگوں میں ہنستے ہوئے شہادت کو ترجیح دیتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔