سیکھنے کا نفسیاتی پہلو ۔ برزکوہی

868

سیکھنے کا نفسیاتی پہلو

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

امریکی ماہر نفسیات ای۔ایل تھارن ڈائک پہلے ماہر نفسیات ہیں جہنوں نے اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں سیکھنے کے اصولوں کو ایجاد کیا، جنہیں سیکھنے کے ابتدائی اصول ( Primary laws of learning )کہتے ہیں۔ یعنی سیکھنے کے ابتدائی اصول۔

آمادگی کا اصول(law of readiness ) تھارن ڈائک نے یہ واضح کیا کہ سیکھنے کے لیئے یہ ضروری ہے کہ سیکھنے والا سیکھنے کے لیئے سب پہلے خود تیار ہو، آمادہ ہو۔ جب سیکھنے والے کے سامنے اگر کوئی دشواری ہوتی ہے، پہلے وہ اسے حل کرنے کے لیے مکمل کوشش کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں وہ سیکھنے کے لیے آمادہ ہے۔ جب تک انسان سیکھنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ہے تو تب تک یہ نا ممکن ہے۔ تب تک نا تو وہ خود سیکھ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا اسے سکھا سکتا ہے، اس لیئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے متعلم کو سیکھنے کے لیے آمادہ کیا جائے آمادگی ذہن کو مرکوز کرنے میں معاون ہوتی ہے نتیجہ متعلم کسی بھی عمل کو تیزی سے سیکھ لیتے ہیں، سیکھنے کے بعد متعلم کو اطمینان کا احساس ہوتا ہے، انسان کب مطمین ہوتا ہے اور کب مطمئین نہیں ہوتا، اس کے لیے تھارن ڈائک نے تین حالات بیان کئے ہیں۔

1۔جب انسان کوئی کام کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے اور اسے کام دیا جاتا ہے تو اس سے اسے اطیمنان حاصل ہوتا ہے
2۔جب انسان کسی کام کو کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے اور اسے کام نہیں دیا جاتا ہے، تو اس سے اس کو عدم اطمینان ہوتا ہے۔
3۔جب انسان کام کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ہے اور اسے کام کرنے کے لیے دے دیا جاتا ہے اسے عدم اطمینان ہوتا ہے۔
یہ تھے ماہر نفسیات تھارن ڈائک کے سیکھنے کے پروسس کے حوالے سے علم نفسیاتی، ایجاد نقطہ نظر اور خیالات جن سے ہم استفادہ کرکے زیر بحث موضوع کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

ہر انسان کیوں نہیں سیکھتا ہے؟ یا پھر سیکھنے کے لیے آمادہ یا تیار کیوں نہیں؟ یا پھر آمادگی کے لیئے اسے کون تیار کرتا ہے؟ تعلیم، سماج، ماحول، استاد، تجربہ، قدرت، خداد صلاحیت، مقدر، قسمت، وراثت، عقل و علم، شعور، حس و حواس وغیرہ؟ ان تمام سوالات کا تعلق براہِ راست علم نفسیات کے ساتھ علمِ فلسفہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

بقول فلسفی جان لاک “انسان صرف تجربے کی صلا حیت لے کر پیدا ہوتا ہے، تجربہ بذریعہ حواس ہوتا ہے نہ کوئی الگ سے ‘ذہن ‘موجود ہے نہ ہی innate ideas ذہن ایک tabula rasa ہے یعنی ایک مومی خالی سلیٹ ہے تجربے کی تنظیم وترتیب سے علم پیدا ہوتا ہے۔”

فلسفی ڈیوڈ_ہیوم نے کہا کہ “مادے کے حسی تجربے سے پہلے کوئی” ذہن ” نامی چیز نہیں ہوتی، تجربات کی کثافت کم ہونے سے ہم ذہن کا وجود مان لیتے ہیں، ذہن کوئی جوہر نہیں ہے حس کا ایک mode ہے حس خود ایک جوہر ہے ذہن احساس غور و فکر اور جذبات کا ملا جلا نام ہے۔”

ڈیوڈ ہیوم کے اس نظام اور دلائل نے فلسفی کانٹ کو بہت متاثر کیا بلکہ ہیوم نے اس کو عقیدے کی نیند سے جگایا اب کانٹ نے یہ دلیل دی کہ سارا علم حس sens سے نہیں آتا ۔
“علم تجربے سے شروع ہوتا ہے تجربے پر ختم نہیں ہوتا ۔”

کانٹ کا سارا فلسفہ اسی جملے کی معنی تفہیم ہے لیکن کانٹ کے فلسفہ کو پڑھنا اس سے سیکھنا اتنا آسان نہیں بقول فلسفی شوپنہاور “جب کا نٹ کو پڑھتا ہوں میرا سر درد کرنے لگتا ہے”۔

کیا انسانی حس سے ہی انسانی احساس، جذبات اور غورو فکر پرورش پاکر علم و تجربہ حاصل ہوسکتا ہے؟ پھر تجربے اور علم ہی سے انسان سیکھ سکتا ہے؟ ہر انسان میں احساس و جذبات اور غور و فکر کے رجحانات ضرور پائے جاتے ہیں لیکن کیا وہ احساس و جذبات کی نوعیت انفرادی ہے یا اجتماعی ہے؟ اور غور و فکر کی پیمانہ محدود یا لا محدود ہے؟ کیا محدود غور و فکر اور انفرادی احساس اور جذبات کی کوکھ سے علم اور تجربہ حاصل ہوسکتا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہیں پھر تو اس علم اور تجربہ کا معیار کیا ہوگا؟

علم اور تجربہ انسانی حس سے حاصل ہوتا ہے یا انسان کی جسم کی خلیوں کی افزائش اور پرورش سے یعنی عمر کی پختگی سے یا پھر ذہنی نشونماء اور ترقی سے؟

کیا بچے اور نوجوانوں کی نسبت عمر کے لحاظ سے بڑے زیادہ باعلم اور تجربہ کار ہوتے ہیں؟ پھر کیا حس صرف بڑوں میں ہوتا ہے؟ کیا ہر بڑا تجربہ کار اور باعلم ہوتا ہے؟ پھر کیا ہر بچے اور نوجوان ناتجربہ کار اور لاعلم ہوتا ہے؟ اگر علم فلسفہ کے روح سے تمام علم اور تجربہ انسانی حس میں ہیں، تو پھر سیکھنے سمجھنے میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتا ہے تو علم و تجربے کی دارومدار انسانی حس پرہے نہ کہ انسانی عمر پر ہوتا ہے۔ اور حس متحرک ہوکر کچھ حاصل کرتا ہے اس وقت جب انسان سیکھتا ہے اور سیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور سیکھنا خود بقول ماہر نفسیات تھارن ڈائک کے آمادگی سے حاصل ہوتا ہے، وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ یہ عمر کے لحاظ سے ہوتا ہے مطلب اگر آمادگی بچے میں، نوجوانوں میں اور بڑے میں نہ ہو تو وہ اس وقت تک کچھ نہیں سیکھتا ہے۔

میرے نظر میں سیکھنے کا عمل بالکل آمادگی میں ہے اور آمادگی خود توجہ اور دلچسپی میں ہے، جب کسی چیز کے بارے میں دلچسپی اور توجہ نہ ہو تو آمادگی نہیں ہوگا۔ جب آمادگی نہیں ہوگا، تو انسان مطمئین نہیں ہوگا، جب مطمئین نہیں تو خود بخود دلچسپی نہیں ہوگا۔ میں اگر کمپیوٹر نہیں چلاسکتا ہوں، تو کمپیوٹر میں کبھی بھی چلا نہیں سکتا ہوں، اگر کوئی مجھے کمپیوٹر چلانا سیکھاتا ہے، میں سیکھ نہیں سکتا ہوں، تو میرا آمادگی نہیں ہے۔ جب آمادگی نہیں ہوگا تو دلچسپی اور توجہ نہیں ہوگا۔ میں مطمین نہیں ہوں۔ کیوں مطمین نہیں ہوں وجوہات کیا ہیں؟ جب تک میں ان وجوہات کی تشخیص نہیں کرتا ہوں اور ان کو حل نہیں کرتا ہوں، اس وقت تک میں آمادگی کے بغیر غیرمطمین ہوکر سیکھنے کی کوشش کروں بھی اور سکھانے والا لاکھ کوشش کرے میں کبھی نہیں سیکھ سکتا ہوں۔

اسی فلسفیانہ اور نفسیاتی علم و منطق کے تناظر میں دیکھا جائے، آج ہم نہیں سیکھتے ہیں تو بنیادی وجہ ہم سیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ کیوں نہیں چاہتے؟ ان مشکلات اور مسائل کو پہلے ڈوھنڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو حل نہیں کرنا چاہتے ہیں اور جب نہیں سیکھتے اور سمجھتے ہیں، تو بغیر سمجھے جانے کوئی بھی کام اور ذمہ داری غیر مطمین شکل میں، اگر ہم کربھی لیں، تو وہ کبھی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتا ہے اور اس کام اور ذمہ داری کو کرتے ہوئے بھی ہم اس کام اور ذمہ داری کے حوالے سے کبھی علم اور تجربہ حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ 20 سال پہلے ہمارا علم اور تجربہ کہاں پر کھڑا تھا۔ 20 سال بعد وہیں کا وہیں ہوگا۔ کیونکہ تجربہ و علم سیکھنے میں پوشیدہ ہے ناکہ عمر کی افزائش اور پرورش میں ہے۔

سیکھنے کے عمل میں سب سے اہم اور بنیادی وجوہات، مشکلات اور مسائل یہ ہیں کہ ہم اپنے ذہن میں خود تعین اور فیصلہ کرچکے ہیں کہ میں جو بھی ہوں بس کافی ہے، اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں، دوسرا عقل کل اور عقل سلیم والی سوچ کیونکہ جب انسان یہ مستحکم ارادہ کرلے میں کچھ نہیں ہوں، کچھ نہیں جانتا ہوں اور ابھی تک کچھ نہیں کیا تو پھر وہ سیکھنے کی طرف مسلسل کوشش اور آمادہ ہوگا اور جب سیکھے گا مطمین ہوگا تو وہ سب کچھ کریگا اور پھر توجہ اور دلچسپی کے ساتھ مسلسل موت تک سیکھے گا علم اور تجربہ حاصل کرتا رہیگا۔

اگر انسان کی حس اور حس سے انسان کے احساسات و جذبات اجتماعی کے بجائے انفرادی ہوں اور غور و فکر کی سطح انسان کی ذات تک محدود ہو تو ایسے انسانوں کو اجتماعی احساس و جذبات اور غور و فکر کے حوالے سے لاکھ ٹھوس دلیل و ثبوت دو مگر وہ کبھی بھی سیکھنے کے لیئے آمادہ اور تیار نہیں ہونگے۔ زمین اور آسمان کو آپ ایک کرو پھر بھی وہ نہ سیکھے گا، نہ سمجھے گا کیونکہ وہ شعوری فیصلہ کرچکے ہیں۔ کبھی بھی مطمین نہیں ہونا چاہتے، جب وہ آمادہ اور مطمین نہیں ہوگا تو وہ نہیں سیکھے گا جب نہیں سیکھے گا تو کچھ نہیں کریگا۔

ہمیشہ انسان وقت پاسی اور وقت گذارنے والے پر اپنا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرے بلکہ وہاں کوشش کرے جہاں آمادگی موجود ہو تب
جاکر سیکھنے کا عمل نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔