سیاسی پارٹی ریاست کا نعم البدل
تحریر۔عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سیاسی پارٹی، سیاسی گروہ بندی کا نام ہے نا کہ شخصیات کی اجارہ داری کا نام، سیاسی پارٹیاں یا وہ جماعتیں جو اپنے منزل مقصود کے لئے مسلح ہیں ان کا وجود اصل میں اس امر کا ضامن ہے کہ وہ خطے میں جب دشمن سے نبرد آزما ہونگے تو انہیں اپنے رعیت کے بین یا ان کے لئے فلاح جیسی کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اکثر اپنے نظریات منصوبہ جات اور اپنے نقطہ نظر کو تحریری صورت سمیت اپنی موجودگی کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں جو اس سیاسی جماعت کی ذہنیت اور مخصوص اہداف کے بارے میں عوام کو آگاہ کرتا ہے اور انہی اہداف کی بنیاد پر خطے میں موجود ان جماعتوں کا ایک دوسرے کے مابین اتحاد اور ہم آہنگی بنتے ہیں۔
بلوچ قومی آزادی کی اس طویل دورانیئے میں کارکنان کے لیئے ہمیشہ ایک تشنگی برقرار تھی اور وہ یہ کہ بلوچ سیاسی پارٹیاں اس جدوجہد میں ریاست کا نعم البدل بننے کا کردار ادا نہیں کررہے۔ گذشتہ دنوں بلوچ دانشور کماش صورت خان مری کا ایک صوتی انٹرویو سننے کو ملا، جس کے اندر بلوچ قومی آزادی کی اس طویل جدوجہد کو سامنے رکھ کر ماضی بعید سے لیکر تا حال ان کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی تھی اور چند اہم سوالات اٹھائی گئیں تھیں، جن کا ہر سیاسی کارکن جواب چاہتا ہے۔ کماش صورت خان مری کے انٹرویو کو لیکر میں چند گذارشات کی جانب لیڈران کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ قومی آزادی کی تحاریک میں وژن نظریہ اور Commitmentاہمیت رکھتے ہیں نا کہ شخصی اجارہ داری کا ڈھول کارکنان کے کندھے پر رکھ کر انہیں ثناء خوانی پر مجبور کیا جانا اولیت رکھتی ہے۔
سب سے اہم بات کہ موجودہ بلوچ قومی تحریک کی حالیہ لہر میں کن سیاسی پارٹیوں نے بلوچ عوام کے اندر ریاست کا نعم البدل ہونے کا کردار ادا کیا؟ اگر اس کا جواب منفی میں نکلتا ہے تو یہ گمان واضح نظر آئے گا کہ سیاسی پارٹیوں کو اس جانب توجہ دلانے کی کوشش نہیں گئی جس کا سب سے بڑا ذمہ دار وہ قوتیں ہیں، جنہوں نے ہمیشہ قومی پارٹیوں کو اپنی شخصیت کے گرد قید رکھا۔ جب ایک جنگ قومی بقاء اور قومی تشخص سمیت سرزمین کی قبضہ گیریت کے خلاف چلتی ہے، تو وہاں دشمن کے رویے اور عزائم کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس جنگ کو قوت فراہم کرنے والی قوتیں دشمن کے ہوتے ہوئے بھی اس نعم البدل کا کردار ادا کرتی ہیں، جسے ریاستی نعم البدل ما قبل آزادی کہتے ہیں اور اس طویل جدوجہد میں ہنوز ہمارے سیاسی پارٹیوں نے اس ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اکثر دیکھنے میں یہی نظر آرہا ہوتا ہے کہ حقیقی بنیادوں پر جس تحریک کی بنیاد ڈالی گئی، دورانِ جدوجہد رویوں کی تبدیلی نے ایسی بھیانک شکل اختیار کی جس سے سیاسی پارٹیاں مجموعی قومی خول سے نکل کر شخصیات کے گرد گھومنے لگے اور نتیجہ یہ نکلا کہ طاقت کا ناجائز استعمال شروع ہوا اور Black Mailingکے ایسے کھیل کھیلے گئے جو آج بھی کسی حد تک جاری ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کے حالیہ لہر سمجھنے کے لیئے اگر ہم بنیادی حوالے سے چند چیزوں پر غور کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ طاقت کا غلط استعمال قومی وژن کو شخصیات کے تابع کرنے کی روش کتنا زور پکڑ رہا تھا، جس کو ختم کرنے کے لئے قومی جہدکاروں نے ہمیشہ کوششیں کیں، لیکن آمرانہ سوچ اس کے آگے رکاوٹ بنتی گئی۔ بلوچ قومی مزاحمتی تحریک میں یہی وہ عناصر تھے، جنہوں نے قومی پارٹیوں کو وہ مقام نہیں دیا جسے سے ایک پارٹی ریاستی نعم البدل کا کردار کرے کیونکہ اس سے ہمیشہ یہی گمان قوی ہوتا تھا کہ جب لس مھلوک کی حاکمیت ہوگی تو ہمارے بنے مینار گرائے جائیں گے۔
اس جدوجہد کولیکر کئی ہستیوں نے بے دریغ قربانیاں دیں یقناً ان قربانیوں کا مقصد، عظیم منزل کی جستجو تھی،لیکن بلوچ سیاسی پارٹیوں کے اندر ایک بھیانک سوچ کیونکر پیدا ہوئی؟ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ دورانِ جدوجہد ایسے مراحل آئیں گے جس سے تحریک سے جڑے وہ تمام اکائیاں اپنے شئے رگ یعنی عوام سے دور ہوجاتے ہیں لیکن اس کے متبادل وہ سوچ کبھی بھی نہیں مرتا جس سے عوام کی نزدیکیاں تحریک آزادی سے ہوتی ہیں لیکن بلوچ قومی تحریک کے اندر لازمی امر کو ہی بھلا دیا گیا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک آزادی سے متنفر ریاستی مشنری اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کریگا، جسے دشمن نے تحریک کے آگے رکاوٹ کی صورت میں پالا ہے۔
بلوچ دانشور کماش صورت خان مری کی حالیہ انٹرویو کو لیکر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک کے اندر چند قوتیں ناجائزیت کو جائز قرار دینے کی سعی کرکے اپنے عزائم حاصل کرنا چاہتے ہیں، بجائے سیاسی حوالے سے اپنا حصہ دیکر اس کثیر عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کی جائیں جس سے قومی تحریک میں Moblisationکا عنصر قائم رہے۔ ہم کماش صورت خان مری کی اس گفت و شنید سے دو چیزوں پر زور دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کو مدنظر رکھ کر کس طرح ہم ماضی کی غلطیوں کا سدھارممکن بنا پائیں گے۔ ایک یہ کہ قومی پارٹیاں کس طرح ریاست کے متبادل کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ بلوچ قومی تحریک کے اندر شخصی اجارہ داری سمیت حاکمیت والے سلوک کا خاتمہ کس طرح ممکن ہوپائے گا.
جب جب سیاسی اداروں پر ما تحت سوچ کا خاتمہ ہوگا، تب تب سیاسی پارٹیاں اس قابل بن جاتی ہیں کہ وہ دورانِ جدوجہد ریاست کا متبادل ہوں کیونکہ ان کے ہاں وہ سوچ پنپتی ہے جس سے ادارے بالادست ہوں۔ جب ادارے بالادست ہونگے تب جاکر قومی وژن مضبوط بن جاتا ہے، جس سے کامیابیاں از خود جانبِ منزل محوِ سفر ہوجاتے ہیں. کماش صورت خان مری کی حالیہ انٹرویو کو سننے کے بعد میں بہ حیثیت سیاسی کارکن کے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کوشش یہی کی جارہی تھی کہ موجودہ تحریک میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کے اصل ذمہ دار بلوچ قومی جہدکار استاد اسلم و سنگت بشیر زیب ہیں بات گھوم پھر کر اس جگہ آ کر رک جاتی ہے کہ صرف اور صرف یہ ثابت کیا جائے کہ مسئلوں کے جڑ یہی دونوں ہیں. لیکن یہاں ایک امر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کیا بلوچ قومی تحریک پر جب سوال اٹھائیں جائیں، جب اداروں کی بالادستی کی بات کی جائے تو لوگ منحرف کیوں قرار دیئے جاتے ہیں؟ تو یقیناً جواب یہی ہوگا کہ قومی تحریک پر جب شخصیات کو اداروں سے بالاتر کیا جاتا ہے تو یہی رویے جنم لیتے ہیں.
بلوچ قومی تحریک کے اندر پائی جانی والی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھ کر تحریک کے اسٹیک ہولڈرز اس پوزیشن میں ہیں کہ ان پیچیدگیوں کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والی کوتاہیوں اور غلطیوں کو تسلیم کرکے نئی راہیں تلاشیں گی؟ کامیاب تحریکوں کی منزل مقصود تک پہنچنے کا سب سے عیاں زرائع یہ ہیں کہ ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی جانب پیش قدمی کی جائے نا کہ شتر مرغ کی طرح سر رت میں چھپائی جائے اور اپنے مخالف پر نشتر برسا کر بری الذمہ ہونے والی رویہ کامیابی دلا سکتا ہے. اب جب کہ تحریک کے کے بین یہ لمحہ آن پہنچا کہ سوال اٹھنے لگے کارکنان کی تشنگی اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا، تحریک کے اندر ون مین شو کے خاتمے کے لئے جدوجہد شروع ہونے والی تھی، جس سے مرکزیت تحریک و قومی مجموعی وژن کو ملنے کا قوی امکان نظر آرہا تھا، عین اسی وقت آپس کی کشمکش کو مزید دوام دینے کی کوشش سر اٹھانے لگی. جس کی واضح مثال قومی تحریک کے اندر اہم پلر Mother Organisation بی ایل اے کا دو لخت ہونا اور اسی دوران بلوچ قومی جہدکاروں کے گرد گھیرا تنگ کرنا حتیٰ کہ ما بعد انہیں قتل کیا جانا، سب سے بڑا بلنڈر ہے، جو آج تک جواب طلب ہے. اسی جستجوانہ تشنگی کو محسوس کرکے بی ایل اے کے کچھ جہدکار جن میں استاد اسلم بلوچ اور بشیر زیب نمایاں تھیں ان کی کوشش تھی کہ اس تقسیم در تقسیم کو اور آپسی برادر کشی کو کسی طرح ختم کیا جائے، اب جب کہ سوال اٹھنے شروع ہوئے تو نئے قصے گھڑے گئے لوگ معطل ہوکر یکسر رد انقلابی تصور ہونے لگے، کیا یہی وہ سیاسی رویے ہیں جس سے گروہیت کا خاتمہ ہوگا؟ جبکہ مجموعی حوالے سے با اختیار قوتوں کی جانب نتائج زیرو ہوں تو میدان میں موجود وہ جہدکار سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ کیوں یہ رویہ برقرار ہیں؟
اب جب کہ شخصی بالادستی پر سوالات اٹھ رہے ہیں تو اس کے برعکس بجائے کوتاہیاں تسلیم کرکے ان راہوں کو آسان بنانا چاہیئے کہ ہم نے ماضی میں غلطیاں کی تھیں اب وقت کی چاہ ہے کہ ہم ان کوتاہیوں کا تدارک کرکے قومی تحریک کو صحیح معنوں میں چلائیں گے.
میں یہاں کماش صورت خان مری کے اس نقطے کو اہمیت دینا چاہتا ہوں کہ “ہمارے ہاں اس سوچ کو جان بوجھ کر روکا جارہا ہے جس سے اذہان نمو پذیر ہوتے ہیں” سیاسی سوچ کو ایک سازش کے تحت گلو گیر کیا جارہا ہے. طویل تاویلیں پیش کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے سیاسی سوچ پر قدغن تو لگایا جارہا ہے لیکن کیا یہ رویہ دائمی ٹہرتے ہیں؟ اب وقت کا یہی تقاضہ ہے کہ سوال اٹھائے جائیں، بکھری طاقتیں یکجا کی جائیں، ماضی کی غلطیوں کو سمجھ کر فاصلے مٹائے جائیں، جو اس ضمن میں آگے بڑھے گا، وہ اپنا مقام پائے گا اور جو تاویلیں پیش کرے گا شتر مرغ کی طرح زیر زمین سر رکھ کر ارد گرد کی آوازیں سن کر مسحور کن کیفیت میں رہ کر اونچے خواب دیکھے گا، تاریخ کے اوراق میں وہ ہمیشہ نا مراد دکھیں گے.
جن قوتوں کے کاندھوں پر عظیم ذمہ داریاں ہیں ان کے لئے لازمی ہے کہ ان تلخ حقائق پر توجہ دینے کی کوشش کریں جن کی نشاندہی بلوچ دانشور کماش صورت خان مری نے کیا ہے.
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔