ریحان نے ایسا کیوں کیا؟
شاھبیگ بلوچ
ہم جس بھی طرف دیکھ رہے تھے وہاں مایوسی پھیلی ہوئی تھی، لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال گھر کررہا تھا کے گزشتہ تحاریک کی طرح ایک دفعہ پھر قوم کی قربانیوں سے دغا بازی کی جارہی ہے۔ شہید اور لاپتہ افراد کی قربانیاں رائیگاں جانے والی ہیں ہم پھر سے تھک ہار کر آپس میں دست و گریبان ہونے کے بعد ختم ہونے والے ہیں، یہاں سے آگے بس اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ حالت اس نہج تک پہنچ چکے تھے کہ چالیس سال سے جہد آجوئی سے منسلک لوگ بھی سرنڈر کرکے سرکاری بندوق اٹھا کر دشمن کے ہمراہ ہوگئے تھے۔ وہ لوگ بھی ڈیتھ سکواڈ کے ہمراہ بن گئے جنکے پورے کا پورا خاندان قومی تحریک برائے آزادی کی خاطر قربان ہوگیا تھا۔ اس مایوس کن ماحول میں ہم بھی تھکاوٹ کا شکار ہوکر کام اور تحریکی ذمہ داریوں سے راہ فراری اختیار کرنے لگے تھے۔ ہمارے حوصلوں میں پستی، بے چینی اور بے یقینی اس حد تک بڑھ گئی تھی کے اپنی ذاتی زندگی، خواہشات، احساسات، ضروریات اور مجبوریاں اولیت کا درجہ رکھنے لگی تھی اور تحریک دوئم یا پھر یوں کہیں کہ تحریکی کام اس وقت ہی کرنے لگے تھے کہ جب اور کچھ کرنے کو نہیں ہو۔ تحریک ذمہ داری اور فرض کے بجائے مجبوری اور بوجھ لگنے لگا تھا۔ اور ایسا ہونا بھی کسی حد تک غلط نہیں تھا کیونکہ گزشتہ ۵ سالوں سے جس تسلسل کے ساتھ تحریک اور تحریکی رہنماؤں کی کردار کشی کی جارہی تھی اور تحریک کو ختم کرانے اور صرف اسے بیرون ملک مظاہروں تک محدود کرنے اور بزنس کرنے تک کی جو تگ و دو جاری و ساری تھی اس کے شر سے تمام تر لوگ اثر انداز ہورہے تھے۔
ایسے حالات اور ماحول میں بلوچ قوم کے حقیقی وارث اور وطن مادر کے سچّے اور بہادر فرزندوں نے ایک ایسا تاریخی فیصلہ کیا کہ وہ تحریک کو ایک ہی دن میں سالوں آگے لے گیا، جہاں بے یقینی، مایوسی، تھکاوٹ، راہ فرار، ڈر، خوف، لالچ، ذاتی زندگی اور خواہشات سب ہی بے معنی اور بہت ہی معمولی لگنے لگے۔ وہ فیصلہ ایک ایسے ورنا نے کیا جو ایک لائق، باصلاحیت، فرمانبردار، دردوار، اور عظیم سوچ رکھنے والا استاد تھا۔ وہ استاد اور رہنماء پھلیں شھید ریحان جان تھا۔ جو ہمیشہ تحریک کا مطالعہ کررہا تھا، جس نے تمام حالات و واقعات مطالعہ کرنے کے بعد مایوس ہونے یا کوئی بہانہ و عضر پیش کرنے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ جس مادر نے مجھے جنم دیا، نام دیا، پہچان دی اب مجھے اس مادر وطن کا قرض اتارکر ہمیشہ کیلئے اس کے آغوش میں سونا پڑےگا۔ کیونکہ اب یہی ایک راستہ ہے جو دشمن کو ہماری طاقت بتا سکتی ہے اور قوم کو یہ شعور دے سکتی ہے کے بلوچ سرزمین اتنی کمزور اور بانجھ نہیں کے کوئی بھی کہیں سے بھی بیٹھ کر قومی تحریک اور سرزمین کو اپنی مفادات اور خواہشات کے مطابق استعمال کرے اور ضرورت پوری ہونے کے بعد ہاتھ کھینچ کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجائے ہمارے بغیر نہ تو تحریک چل سکتی ہے اور نا ہی مزاحمت ہوسکتی ہے۔
پھلین شھید ریحان جان نے ہمیں خواب غفلت سے ایک ایسے سخت دھماکے سے بیدار کیا ہے کہ اب مرگ بھی ہمیں نہیں سلاسکتی کیونکہ آج کے حالات و واقعات کل سے یکثر مختلف ہیں، کل جو دوست اس بات کو سوچ کر خوف میں مبتلا تھے کہ فلانہ شخص سردار نواب قبائلی شخص ہمارے ہمراہ نہ ہوں، تو ہم کس طرح سے مضبوط مزاحمت کرکے دشمن کا سامنا کرسکیں گے۔ کیونکہ دشمن کافی طاقت ور اور پر وسائل ہے دوسری جانب ہمارے وسائل کم اور مسائل بہت ہی زیادہ ہیں۔
آج ریحان جان کے کاروان کے فکری ساتھی پرعزم ہیں اور انہی کم وسائل کی اہمیت اور افادیت کو سمجھ کر دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ رہے ہیں۔ آج بلوچستان کے ہرکونے میں بلوچ عوام ریحان جان کو اپنا آئیڈیل مان کر ان کے کاروان کو منزل تک پہنچانے کی خاطر بلوچ مرد، عورت، جوان، بزرگ اور بچے اپنے دل میں شمع آزادی جلاکر دشمن کو بلوچستان سرزمین سے نکال پھینکنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ ما سوائے چند لوگوں کے جن کی خواہشات اور خفیہ معاہدات پر کاری ضرب لگاکر ریحان جان نے ان کالی بھیڑوں کی حقیقت آشکار کرکے انہیں بلوچ عوام کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔ یہ ہم سب جہدکاروں کی اخلاقی اور قومی زمہ داری بنتی ہے ہم ان بے کرد اور دشمن کے پروپیگنڈہ کو بڑاوا دینے والوں سے الجھنے کے بجائے اپنی ہدف اور منزل کی جانب جواں مردی اور ایمانداری سے بڑھیں تاکہ ریحان جان سمیت ان تمام شہیدوں کی قربانیوں کو شرمندہ تعبیر کرسکیں اور اپنی سرزمین کو اغیار کی غلامی سے آزاد کرائیں جنہوں نے خود کو قربان کرکے ہمیں زندگی اور شناخت بخشی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔