سندھو دیش روولیوشنری آرمی (ایس آرے اے)کی جانب سے ’’شہید ریحان بلوچ‘‘ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیئے ایک تقریب منعقد کی گئی۔ تقریب کی صدارت شہید ریحان بلوچ کی تصویر سے کرائی گئی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایس آر اے کے کمانڈر صوفی شاہ عنایت نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے آپس میں تاریخی، سماجی اور ثقافتی تعلقات رہے ہیں۔ سندھی اور بلوچ قوم کا نہ صرف مقصد اور منزل (آزادی ) ایک ہے بلکہ ہمارا دشمن بھی ایک ہی پنجاب سامراج ہے۔ اس لئے شہید ریحان بلوچ نہ صرف بلوچ قوم کا بلکہ ہمارا بھی شہید ہے۔ اس کی کمٹمنٹ، حوصلے، ہمت اور قربانی کو یاد کرنا اور خراج تحسین پیش کرنا ہم اپنا قومی اور انقلابی فرض سمجھتے ہیں۔
ایس آر اے کمانڈر نے کہا کہ اگر ہم اپنے اپنے زمان اور مکان میں ساری دنیا کی قومی آزادی کی تحریکوں کا جائزہ لینگے تو ہمیں سب شہداءِ وطن کا ایک علیحدہ اور اپنا مقام نظر آئیگا۔ کہیں ان میں مقصد ، ارادے اور جذبے کے حوالے سے یکسانیت نظر آئیگی تو کہیں وہ اپنے اعلیٰ کردار اور قربانی کی وجہ سے منفرد حیثیت سے پہچانے اور یاد کیئے جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شہید ریحان بلوچ بھی ہم سب کے لیئے قربانی اور شہادت کا ایک اعلیٰ اور منفرد مثال چھوڑ کر گیا ہے اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ جس قوم کے نوجوانوں میں شہید ریحان بلوچ جیسا جذبہ اور ارادہ پیدا ہوجاتا ہے، اُس قوم کو کوئی بھی سامراج زیادہ وقت غلام بناکر نہیں رکھ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 22سال کی چھوٹی عمر میں شہید ریحان بلوچ کی قربانی اور شہادت اس لیئے بھی منفرد اور اعلیٰ ہے کہ شہید نے جس ٹارگٹ کا چناؤ کیا، وہ ٹارگٹ بڑا تھا کیونکہ چائنا اس خطے کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح نیا ابھرتا ہوا سامراج ہے۔ چائنا قابض پاکستانی سامراج سے مل کر سی پیک اور دیگر منصوبوں کے نام پر نہ صرف بلوچ قوم کی زمین، سمندر اور وسائل پر بلکہ سندھ کی زمین، سمندر اور انرجی کے وسائل پر بھی اپنا مستقل سیاسی، معاشی اور عسکری قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
شہید ریحان کی قربانی اور شہادت کی دوسری انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کے والد استاد اسلم بلوچ اور ماں یاسمین بلوچ نے اپنے ہی لخت جگر کو خوشی خوشی بلوچستان کاپرچم اوڑھا کر فدائین کے لیئے روانہ کیا۔ قومی آزادی کی تحریکوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔
ایس آراے کمانڈر نے آخر میں سندھی قوم اور ایس آراے کی طرف سے شہید ریحان بلوچ کو قومی سلام پیش کرتے ہوئے سندھی قوم اور بالخصوص سندھی نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ ہمیں بھی سندھ کی سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور جغرافیائی آزادی کے لیئے اپنے آپ میں شہید ریحان بلوچ جیسا جذبہ، حوصلہ، ارادہ، قربانی اور شہادت کا مادہ پیدا کرنا پڑیگا۔ تب جاکے پنجاب سامراج کو شکست دینے اور اپنی قومی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب اور کامران ہونگے۔
تقریب میں بلوچستان کے تحریک آزادی کے اہم شخصیت و گوریلا کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا پیغام بھی سنایا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ انسان کی معلوم تاریخ میں صرف ایک نتیجہ یکتا و سیمبولک رہا ہے کہ قومیں اپنی مادر وطن یا جس دھرتی سے جنم لے چکی ہیں، اس کے لئے ہمیشہ قربانیاں دیتی چلی آرہی ہیں۔ غاصب اور قابض کے خلاف اپنی نحیف آواز کے ساتھ کمزورنے خود کو آبان کردیا ہے۔ ویسے انسان نے زندگی کے دوسرے پہلوو گوشوں میں ارتقاء کے لیئے قربانیاں دی ہیں ۔ اگر اعداد و شمار کریں تو اپنی جنم بھومی کے لئے حضرت انسان کی قربانیاں بے حد زیادہ اور انوکھی رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج میں ایک ایسے دھرتی ماں کی عشاق کے قافلے میں سے ایک ایسے فرد کی جرأت و ہمت اور انوکھی قربانی کا ذکر کررہا ہوں جو ہمارے چشم زوں سامنے ہوئی ہے۔ یہ قربانی شاید کسی صحبت کا نتیجہ ہو لیکن عمل و جرأت ان کی اپنی اندرونی انسان کی بار بار نصیحت اور اپنی باقی ماندہ ماں، بہن اور بھائیوں یعنی قوم جو دو وقت کی روٹی کے لیئے ترس رہی ہے، اس کے اُکسانے پر یہ عمل نو (وقوع) پزیر ہوا۔ یہ مرد مجاہد کوئی اور نہیں میرا اپنا دوست، بیٹا ریحان بلوچ ہے جس نے اپنی دھرتی بلوچستان اور بلوچ قوم کے لیئے خود کو نثار کرکے اپنی کم سنی اور لاکھوں خواہشات کو یکطرفہ رکھ کر خود کو بیرونی یلغار اور وطن کے دفاع کے لیئے قربان کر کے تاریخ میں امر ہوگیا جو اب ابدیت کا حصہ ہے یا یوں کہیں کہ لافانی ہے اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے سنہرے لفظوں میں یاد کیا جاتا رہیگا۔
ڈاکٹر اللہ نظر نے کہا کہ موت کی اپنی نفاست، نزاکت اور افادیت ہوتی ہے لیکن بہت کم خوش قسمت لوگ ان اوصاف کو پورا کرتے ہیں جہاں ایسے کرداروں کے جوش و ولولہ سے بھر پور لبیک کی آواز پوری قوم کو جگاتی ہے۔
تقریب میں بلوچ لبریشن آرمی کے رہنما استاد اسلم بلوچ کا بھی پیغام سنایا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ ریحان بلوچ نے جو قدم اٹھایا ہے وہ نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی اختتام ،بلکہ وہ ایک جنگی طریقہ کارکا تسلسل ہے ۔ہمارے لوگوں نے اس حوالے سے بہت ساری قربانیاں دی ہیں۔ اور آگے بھی دیتے رہینگے۔ آج جو حالات چل رہے ہیں اوردشمن ریاست پاکستان ،چائنا کے ساتھ مل کر جن پالیسیوں پے عمل پیرا ہے ، بحرے بلوچ اور سندھ دھرتی پر جو ساحلی پٹی پر قبضہ کرنے کیلئے جس گھناؤنے منصوبے پر کام ہورہا ہے یا ذوالفقار آباد جیسے میگا پراجیکٹ اور سی پیک کے حوالے سے جو منصوبہ بندی کی جارہی ہے ان کو روکنے کیلئے آج ریحان نے ہمارے لیئے ایک دروازہ کھولا ہے۔ہمیں دروازے کے اس پار دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرف کیا ہورہا ہے ۔ آج ہماری ذمہ داری کیا ہے کہ صرف شہید ریحان کو یاد کریں یا پھر اس تسلسل کو آگے بڑھائیں؟
اسلم بلوچ نے کہا کہ بلوچ سرزمین اور بلوچ قوم کی آزادی صرف اور صرف ایک خطرناک، دردناک اوربھیانک جنگ میں ہے اور اس جنگ کی کامیابی میں ہے۔ اگر ہم اس جنگ کو جیتینگے اور ہمارے دشمن کو شکست دیں گیں ،تب ہی ہمارا مقصد پورا ہوگا ۔
آج چائنا کتنی بڑی نیول بیس بنانا چاہتا ہے، کتنی آبادی اس طرف لانا چاہتا ہے، میانمار میں جو روہنگیا بنگالی ہیں بلکہ جو بنگلہ دیش کے غدار وطن تھے ان کو یہاں سندھ کے ذولفقار آباد سے لیکر گوادر کی ساحلی پٹی پر آباد کرنے کا جو منصوبہ ہے ۔ اگر ہم بحیثیت بلوچ اور سندھی قوم اسکو روک نہیں سکے تو ہماری شناخت مٹ جائے گی۔آج ہم جو کررہے ہیں اس سے آگے بڑھ کر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے کچھ نہیں کیاہے کیونکہ کئی گھر، کئی گاؤں مٹ گئے، کئی جانیں چلی گئی، کئی نوجوان مارے گئے، ہمارے ماں بہنوں کے زخموں کا مداوا صرف دو یا دس قربانیوں میں نہیں ہے۔ جب ہماری سرزمین کا جھنڈا ہمارے ہاتھ میں ہوگا اور ہم اپنے سرزمین کے مالک ہونگے وہی ایک فتح ہوگی، اس سے کم کچھ نہیں ہے، اگراس سے کچھ کم ہے تو وہ یہی موت ہے جو ہمارے ساتھی قبول کرتے آرہے ہیں اور کررہے ہیں۔
استاد اسلم کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی پوری توجہ اپنے دشمن ، اپنے کام اور آج جو حالات چل رہے ہیں اس پہ کرنی ہوگی۔ ہم کسی بھی تنظیم میں ہوں،بنیادی بات یہ ہے کہ ہم کون ہیں اور کس لیئے لڑ رہے ہیں۔یہ وقت جو ہم سے ضائع ہورہا ہے کیا وہ واپس آئے گا؟جو مواقع ہمارے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں،کیا کوئی ہمیں پھر سے وہ واپس دے گا؟یہ وقت گیا تو پھر واپس نہیں آئیگا اور اس کے لیئے کل ہم ہی کو جواب دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ریحان کیا دیکھ رہا تھا، وہ کیا سمجھ چکا تھا۔ کیا ہم سب دوست اس چیز کو سمجھ رہے ہیں؟ اس نے شعوری حوالے سے کچھ تو سمجھا تھاتب ہی اس عمل کا انتخاب کیا۔ میں کہتا ہوں کہ وہ میرا نہیں تھا بلکہ وہ ہم سب کا تھا اور اس قوم کا تھا۔ریحان نے اپنی قوم اور آزادی کے لیئے کیا ہے۔وہ اگرمیرے اور اپنی والدہ کے لیئے کرتا تو بیٹھ کر ہماری خدمت ہی کرتا۔
استاد اسلم نے آخر میں کہا کہ ہم سب دوستوں کو اس حوالے سے سوچنا چاہیئے کہ وہ شعور کیا ہے جس کی سطح تک ہم پہنچ نہیں پارہے ہیں۔ ہمیں اپنی جنگ کو منظم کرنا چاہیئے ۔ ہمیں دنیاوی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے نکل کر خود کو منظم کرنا چاہیئے۔ ہمارے نوجوانوں کو سوچنا ہوگا کہ آج قوم وقومی ضروریات ہم سے کیا تقاضے کررہے ہیں اور ہم اسے کیا دے رہے ہیں۔ ہمیں ضرورتوں کو سمجھنا چاہیئے جو وقت و حالات میں ہماری جنگ اور ہماری تحریک تقاضہ کرتے ہیں ، انہیں پورا کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیئے۔