خلیل ساچان ایک ساتھی جو ہم سے بچھڑ گیا – میرین بلوچ

805

” خلیل ساچان ایک ساتھی جو ہم سے بچھڑ گیا “

میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی میں ہزاروں لوگ آتے اور جاتے ہیں، ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کو موت اور موت کو زندگی قراردیتے ہیں. جو اپنی سروں کو سروں سے ٹکراتے ہیں، ایسے اشخاص دنیا بھر کے تحریکوں میں سورج بن کر رہ جاتے ہیں، تحریکوں میں نام جڑتے نہیں، بلکہ کردار جڑ جاتی ہیں۔ آج میں ایک ایسے شخص کی بات کر رہا ہوں ، جس کے بارے میں میرے پاس کم الفاظ ہیں جو اس شخص کی تعریف کروں۔ کن حروف سے آپکا نام لکھوں اور کس زبان سے آپکا نام پکاروں، جس نے اپنی پوری زندگی اپنی قوم کی بقاء وسلامتی اور آزادی کی خاطرقربان کیا اور اس نوجوان کی اُس بہادر ماں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی لخت ءِ جگر کو مادر وطن پر قربان کر دیا۔

خلیل بلوچ عرف ساچان بلوچ تربت(کیچ)میں پیدا ہوئے۔ ساچان کو پڑھائی کا بہت شوق تھا، ساچان ایک قابل اسٹوڈنٹ تھا اور عطاشادڈگری کالج کیچ میں زیر ء تعلیم تھا۔ ساچان بی ایس او آزاد BSO A کے ایک سینیئر کارکن تھےکچھ عرصے کے بعد ساچان نے بلوچ لبریشن فرنٹ BLF کا رخ کیا اور اسی دوران پارٹی کے کاموں میں بہت مصروف رہے۔ ساچان نے ظلم کے خلاف ہر وقت آواز اٹھائی اور دشمن کے سامنے ایک پہاڑ بن کر کھڑے ہوئے تھے۔ جسطرح اختر ندیم کہتے ہیں کہ دشمن مجھے کمزور کرسکتا ہے لیکن مجھے مٹا نہیں سکتا، ساچان ایک پہاڑ تھا کچھ عرصے کے بعد ساچان اپنے علاقے کے ایریا کمان بنے۔ ایک بہت محنتی ساتھی تھے، جنہوں نے اپنے علاقے کے ہر کام میں ہاتھ بٹایا۔ ساچان ایک فکر اور ایک فلسفے کا نام ہے جو کبھی نہیں مٹ سکتا۔

ساچان ایک نڈر، بہادر اور ایک ایماندار و مخلص ساتھی تھے، جنہوں نے اپنے آپکو مادر وطن پر قربان کردیا، آج کی تحریک میں دیکھیں توا یسے کچھ لوگ دیکھنے میں ظاہر ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کی ساری خواہشوں کو اپنی مادر وطن پر قربان کر دیتے ہیں، جسطرح مجید جان، درویش جان، ریحان جان نے کیا۔ اپنے ہیروؤں پر فخر کرنا اور ان کے منتخب کردہ راہ پر چلنا زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ جنہوں نے اپنے مادر وطن پر اپنی جان قربان کردیا۔ ایسے کچھ لوگ دیکھنے میں ظاہر ہوتے ہیں، جو اپنی سروں کو سروں سے ٹکراتے ہیں۔ ساچان آج بھی زندہ ہے، وہ جسمانی حوالےسے ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن ان کی سوچ و فکر اور روح انکی یادیں ہر سانس تک ہمیں یاد دلاتی ہے کہ شہیدوں کا لہو ہر وقت ہمارے رگوں میں دوڑتی ہے۔ ساچان ایک جنگجو ساتھی تھا۔ ساچان ہر مشن میں سب سے پہلے رہنے والا ساتھی تھا۔ جو ہر وقت اپنے مادر وطن پر قربان ہونے کے لیئے تیار تھا۔ جب ریاستی فوج نے آپکے گھر کو گھیرے میں لیا اور آپ کے بیوی اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ تم آجاو سر ینڈر کرو آپ پھر بھی نہ مانے۔

جس دن آپکی شہادت کا حال ملا تو میرے لیئے وہ دن قیامت کا دن تھا، نہ مجھے زمین پر جگہ ملی اور نہ مجھے آسمان نے لیا میرے لیئے وہ دن قیامت کا دن تھا، میں بہت مایوسی کا شکار تھا، اب میں تنہا رہ گیا، اب ہمارے علاقے کا کوئی ساتھی نہیں تو میرے دوست نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک جہد ہے، تحریکیں شہداءکے خون سے بنتی ہیں جسطرح گاندھی کہتے ہیں کہ شھادت ایک انجام نہیں بلکہ ایک آغاز ہے، شہید ساچان کی جرت کو سرخ سلام اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔