حب علی یا بغض معاویہ
حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
جب کسی عمل کا بنیاد بد نیتی، جھوٹ، دھوکہ دہی اور خود فریبی پر مبنی ہو تو اس عمل کے نتائج منفی اور بے معنی اور بے اثر ہی ہوتے ہیں۔ گذشتہ دنوں واجہ صورت خان مری کا ایک صوتی انٹرویو سُننے کو ملا جس میں کافی پرتضاد سوالات ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت انکے سامنے رکھے گئے ایک نظر اس انٹرویو کے کچھ پہلووں پر۔
سب سے پہلے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کے انٹرویو شائع کیسے کیا گیا اور ادارے کی جانب سے ایک ایسے بزرگ آزادی پسند دانشور کی انٹرویو کو اپنے طور پر کس حد تک عوام تک پہنچانے کی کوشش کی کیونکہ جسطرح سے یہ انٹرویو شائع کیا گیا اور پھر انٹرویو سے جسطرح سے ایک خاموشانہ لاتعلقی کا اظہار کیا گیا تو اس کے پس پردہ وجوہات کیا تھے؟ کیونکہ وہ تمام فیک آئیڈیز جو ھمگام کی ہفتوں یا مہینوں میں شائع ہونے والے ایک بیان کو ہفتوں ہفتوں تک سینکڑوں لوگوں کو ٹیگ کرکے شائع کررہے ہوتے ہیں۔ان میں سے کتنے لوگوں نے اس انٹرویو کو پذیرائی دلانے میں کردار ادا کیا ؟ اگر نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا ؟ اس سارے معاملات کے بارے میں اگر سوچا جائے، غور و فکر کیا جائے تو بہت جلد ہی ایک بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ واجہ صورت خان مری نے کچھ لوگوں کے ان تمام خواہشات پر پانی پھیر دیا، جنہوں نے یہ انٹرویو کروایا ہی اس نیت سے تھا کہ اس انٹرویو میں حمد و ثنا کرائی جائے گی۔ اور دوسروں پر الزامات کے بھرمار کرائی جائے۔
واجہ صورت خان مری کے انٹرویو کو سن کر ایک بات واضح اور کافی صاف دیکھی جاسکتی ہے کہ واجہ صورت خان سے کچھ بیوقوفانہ سوالات کراکر انٹرویو کرانے والا شخص اپنے غصے کے ذریعے یہ پیغام دلانا چاہتے تھے کہ آپ ہمارے حق میں بات کریں اور ہمارے موقف کو صحیح قرار دیں لیکن اگر خوف و لالچ کسی ایماندار اور حق پرست دانشور کی سوچ یا بیان بدل سکتا تو انٹرویو کرنے والے گروہ سے زیادہ طاقتور تو ریاست کی ہے تو وہ دانشور انکے حق میں ہوکر ایک آسودہ زندگی گذار سکتے ہیں۔
انٹرویو کے بہت سے پہلووں میں سے ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ اس انٹرویو سے جو حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ انتہائی بری طرح سے ناکامی میں بدل گیا۔ اگر ہم سرد دماغی سے سوچیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ اس گفتگو کی وجہ صرف استاد اسلم بلوچ، چیرمین بشیر زیب، ڈاکٹر اللہ نظر، بی ایل اے، بی ایل ایف اور یو بی اے پر لگائے گئے بچگانہ اور بے بنیاد الزامات کی تصدیق واجہ صورت خان سے کرانا تھا۔ خوش قسمتی سے جواب دینے والا شخص کوئی زرخرید دانشخور، قلم کار، درباری، ذاتی نوکر یا قبائلی مرید نہیں تھا بلکہ ایک ایسے شخصیت ہیں جو حق اور باطل کے درمیان ہونے والی جنگ میں ہمیشہ حق کے ہمراہ ہیں اور باطل کے سامنے ایک چٹان کے مانند کھڑے ہیں اور مزاحمتی سیاست کی پرچار بغیر کسی خوف کے کرتے آرہے ہیں۔ اس انٹرویو کا دلچسپ ترین پہلو یہ بھی تھا کہ واجہ صورت خان مری نے کچھ ایسے سوالات سامنے رکھے جن کا جواب نام نہاد ہائی کمان اور مذکورہ گروہ کے سربراہ اور ان درباریوں کو بلوچ قوم کے سامنے رکھنے ہونگے۔
حرف آخر دانشور اس شخص کو کہا جاتا ہے، جو بے رحم ہو، جس کی نظر اور سوچ عام انسان کی سوچ سے وسیع اور انداز بیان ایسا ہو کہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرسکے۔ مسائل کا حل انکی باتوں میں پوشیدہ ہو، وہ دانشور کہے جاتے ہیں۔ اگر آپ کے ارد گرد کوئی شخص گھومتا ہے۔ دن رات آپ کی حمد و ثنا کرتا ہے آپ کو دنیا میں سب سے بہترین ظاہر کرنے کی کوشش کی تمام حدیں پار کردیتا ہو، وہ بھی آپ کی لائقیوں سے بڑھا چڑھا کر آپ کے کردار کو پیش کرتا ہو تو وہ شخص دانشور نہیں چمچہ کہلاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔