جہد بلوچ کی داستان
تحریر : حسن دوست بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ویسے تو قوم بلوچ و سرزمین بلوچستان کی تاریخ بہت طویل اور طولانی ہے۔ لیکن ہم اپنی کم علمی اور بساط کے مطابق ہندوستان کی تقسیم یعنی ریاست قلات کی دوبارہ آزادی بالفاظ دیگر برطانوی سامراج کی قبضہ گیریت سے خاتمہ سابقہ حیثیت کی بحالی اور نوزائیدہ مملکت خدائیداد ( یا داد مفادات انگریزی سامراج ) پاکستان کی دو قومی نظریہ اور مذہبی بنیادوں پر وجود اور پھر نوزائیدہ مملکت خدائیداد پاکستان کی دوبارہ کم مدت میں ریاست قلات کی آزادی پر قدغن و جبری قبضہ کی مختصر تاریخ وصورتحال اور موجودہ سیاسی صورتحال و جہد آزادی کی تسلسل اور روز اوّل سے جاری بلوچ انسرجنسی یا اپنے وطن کے دفاع کی سیاسی اور مسلح جدوجہد پر ایک مختصر تحریر حاضر خدمت کر رہے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۸۳۹ کو قلات پر برطانوی راج و انگریز فوج کی چڑھائی و بڑے معرکے کے بعدخان محراب خان اور اسکے ساتھیوں کی شہادت کے بعد قلات پر قبضہ کیا گیا۔ اور انگریز کی یہی قبضہ گیریت ہندوستان کی تقسیم تک برقرار رہا جب اگست ۱۹۴۷ میں برطانوی سامراج نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اپنی نوآبادیات کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اسی دوران ۴ اگست ۱۹۴۷ کو برطانوی سامراج، نئی تشکیل پانے والی ملک پاکستان اور حکومت قلات یعنی بلوچستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کی رو سے برطانیہ و ہندوستان نے ریاست قلات کی سابقہ حیثیت کو بحال کرتے ہوئے ریاست قلات کو ایک آزاد و خودمختار ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ جس کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کو باقاعدہ آل انڈیا ریڈیو سے اعلان نشر ہوا۔
اسی اعلان کے بعد یعنی ۱۲ اگست ۱۹۴۷ کو خان قلات میر احمد یار خان نے ریاست قلات یعنی بلوچستان کی آزادی کا اعلان کرکے باقاعدہ اس وقت کے ریاست قلات کی جمہوری پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر (دارالعمراء اور دارالعوام ) کیلئے انتخابات کرائے گئے۔
کچھ عرصہ گذرنے کے بعد مذہب کے نام اور دو قومی نظرئے کے بنیاد پر بننے والی پاکستان کے گورنر جنرل مسٹر جناح نے خان قلات میر احمد یار خان پر زور دینے کے ساتھ مختلف سازشوں کے ذریعے مذہب کے نام پر بننے والی نوزائید پاکستان کے ساتھ شامل ہونے پر زور دیتے رہے کہ قلات پاکستان کے ساتھ مسلمان ہونے کے ناطے شامل ہو۔
اسی سلسلے میں خان قلات میر احمد یار خان نے ریاست قلات کے دونوں ایوانوں دارلعوام اور دارالعمراء کا اجلاس بلایا۔ ان دونوں ایوانوں نے بھاری اکثریت سے پاکستان کے ساتھ الحاق کو مسترد کرکے قلات کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔
آخرکار ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ کو پاکستانی فوج نے باقاعدہ فوج کشی کرکے بلوچستان پر بزور قبضہ کرکے خان قلات اور اس کے خاندان کو گرفتار کرکے لاہور منتقل کیا اور اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے قلات قلعے کے تمام مال و اسباب کی لوٹ مار کی گئی۔ اس قبضہ گیریت کے خلاف پہلی مزاحمت خان احمد یار خان احمدزئی کی بھائی آغا عبدالکریم گورنر مکران نے کی۔ جو اس قبضہ گیریت کے خلاف اپنے سیاسی و قبائلی ہم خیالوں کے ساتھ بغاوت کر کے افغانستان ہجرت کی اور بعد میں پاکستان حکومت نے افغانستان حکومت پر دباو ڈال کر اپنی مکاری یعنی اسلام کا مقدس نام استعمال میں لاکر اور کسی حد تک حکومت افغانستان پر دباو ڈالنے میں کامیاب ہوا کہ وہ آغا عبدالکریم کو ساتھیوں سمیت اپنی سرزمیں پر پناہ دینے سے معذرت کریں اور دوسری جانب آغا عبدالکریم کو پیغام بھیجتے رہے کہ واپس آنے پر آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے آپ کے جائز اور سیاسی مطالبات کو تسلیم کیا جائیگا۔ جب افغانستان کی پناہ دینے سے معذرت اور دوسری جانب پاکستان کے پیغامات کو مدنظر رکھ کر آغا عبدالکریم اپنے ساتھیوں سمیت واپس بلوچستان آئے، ان کے آنے پر پاکستانی فوج نے ان کو ساتھیوں سمیت گرفتار کرکے ان پر غداری کا مقدمہ چلایا۔
۱۹۵۸ کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعد ایک دفعہ پھر بلوچستان کی آزادی کی تحریک نے سراٹھایا ۔ اس دوران بلوچ تعلیم یافتہ طبقہ بھی قبائلی سرداروں کے ساتھ بلوچستان کی جہد آزادی میں شریک ہوا اور مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ بلوچ ورنا وانندہ گل کے نام سے سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دیکر جمہوری طریقہ سے بلوچ عوام کے حقوق کے حصول کیلئے آواز بلند کی۔ جبکہ پاکستان حسب معمول بلوچ عوام کی آواز کو دبانے اور انسرجنسی کو روکنے کیلئے بڑی شدت کے ساتھ فوجی آپریشن شروع کی اور یہ فوجی آپریشن ۱۹۵۸ تا ۱۹۶۰ تک جاری رہا۔
اس دوران نواب نوروز خان زرک زئی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرکے پہاڑوں پر جاکر مزاحمت شروع کی۔ پاکستانی فوج اپنی تمام زور و قوت کے باوجود نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو زیر کرنے میں ناکام ہوا تو پھر اپنی لومڑی جیسے چالبازیوں سے کام لینا شروع کیا۔ تو ۱۵ مئی ۱۹۵۹ کو پاکستانی فوج جنرل ٹکا خان نے بلوچستان کےسابقہ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ اور جھالاوان میں ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ ثناء اللہ زہری کے والد اور اس وقت پاکستانی فوج کا مخبر و دلال سردار دودا خان زرک زئی کو استعمال کیا۔ سردار دودا خان زرک زئی کی چالبازیاں بھی کار گر ثابت نہیں ہوئے تو پھر سردار دودا خان زرک زئی کے توسط سے پاکستانی فوجی جرنیلوں نے نواب نوروز خان کو قرآن مجید کا واسطہ اور ضمانت دیکر پہاڑوں سے اتارا اور ان سے بھی یہی کہا گیا کہ مذاکرات کے زریعے آپ لوگوں کے مطالبات کو تسلیم کریں گے۔ اور پھر اسلام کے نام پر بننے والی فوج نے قرآن مجید کا بھرم نہ رکھتے ہوئے نواب نوروز خان کو ساتھیوں سمیت گرفتار کرکے حیدرآباد جیل میں ان پر غداری کا مقدمہ چلایا۔ اور حیدرآباد جیل میں نواب نوروز خان کو بلیک میل کرنے اور دباو میں ڈالنے کیلئے اس کے پانچ ساتھیوں سمیت اس کے بیٹے کو اس کے آنکھوں کے سامنے پھانسی پر لٹکایا اور نواب نوروز خان کو پھانسی گھاٹ پر بطور تماش بین لاکھڑا کیا گیا تاکہ وہ انڈر پریشر آکر بلوچستان کی آزادی کی فلسفے سے رو گرداں ہو۔ لیکن نواب نوروز خان سر تسلیم خم نہیں ہوئے اور وہ خود پیرانہ سالی میں ۹۰ سال کی عمر میں حیدرآباد جیل میں شہید ہوئے۔ اس دوران باقاعدہ ایک سیاسی و عسکری تنظیم نہ ہونے کےسبب بلوچ سیاست و انسرجنسی میں کچھ عرصے کیلئے خلل پیدا ہوئی۔
اس خلاء کو پر کرنے کیلئے بلوچستان کے تعلیم یافتہ اور سیاسی حوالے سے پختہ اور باشعور افراد پر مشتمل نوجوانوں نے آخرکار ۲۶ نومبر ۱۹۶۷ کو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ ( اصل میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچ ورنا وانندہ گل کا ہی تسلسل تھا ) بہت جلد بی ایس او کو بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے علاوہ پورے بلوچ عوام میں پذیرائی ملی۔
۱۹۷۰ میں بلوچ سرداروں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ ) کے پلیٹ فارم سے ایک دفعہ پھر پاکستان سے ناکام دوستی کرنے کی کوشش کی ۔ جو آخرکار جا کر ۱۹۷۳ کو یہ دوستی اختتام پزیر ہوا۔ ہوا یوں کہ ۱۹۷۳ کے عام انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے بلوچستان میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے اور اس وقت بلوچستان میں نیپ کی قیادت سردار عطاءاللہ مینگل، نواب خیربخش مری، میر غوث بخش بزنجو اور صمد خان اچکزئی کررہے تھے۔ سردار عطاءاللہ مینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ جبکہ میر غوث بخش بزنجو گورنر منتخب ہوئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان حکومت کا بزور خاتمہ کیا اور ساتھ نیپ قیادت کے خلاف غداری کے مقدمات درج ہوئے اور ساتھ ہی نیپ قیادت کو حیدرآباد جیل میں بند کردیا گیا ( جو حیدرآباد سازش کیس کے نام سے جانی جاتی ہے ) جس سے پاکستان کے خلاف ایک دفعہ پھر بغاوت نے سر اٹھایا۔ اس دفعہ قبائلی لوگوں کے ساتھ سیاسی لوگ بھی اس انسرجنسی میں کود پڑے۔ بلوچوں کی پاکستان کے خلاف یہ انسرجنسی غالبا فروری ۱۹۷۳ سے شروع ہو کر ۱۹۷۸ یعنی ۵ سال تک جاری رہا۔ اس بغاوت میں پاکستان آرمی اپنی شکست کو دیکھتے ہوئے ایران سے کمک کی بھیگ مانگی اور اس وقت شاہ ایران رضا پہلوی نے پاکستان کو بلوچوں کی نسل کشی کیلئے ۲۰۰ ملین ڈالر اور کوبرا ہیلی کاپٹر مدد کیلئے دیئے۔ اور پاکستان آرمی انہی کوبرا ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بلوچوں کی نسل کشی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا۔
ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں پاکستانی ریگولر آرمی کے ۳۰۰۰ سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ جبکہ بلوچ مزاحمت کار اور عام بلوچ عوام کی بھی بڑی تعداد اس بغاوت میں شہید ہوئے اور بقول جنرل شیروف کے کہ پاکستان آرمی نے مری علاقے سے بلوچ خواتین کو اٹھا کر پنجاب کی منڈیوں میں فروخت کیا۔ اس کے علاوہ بلوچ عوام کی لاکھوں کے حساب سے مال مویشیوں کو بمباری کے ذریعے ہلاک کرکے باقی مویشیوں کو اٹھا کر پنجاب اور سندھ میں نیلام کیا گیا۔ اور ہزاروں کے حساب سے لوگ بے گھر ہوگئے اور اکثریت جلاوطنی کی زندگی گذارنے کیلئے افغانستان کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔
بلوچ لیڈرشپ اور مزاحمت کاروں کی اکثریت جلاوطن ہونے کے بعد یہ بھاری بوجھ مکمل طور پر بی۔ایس۔او کے لیڈرشپ اور ورکروں کی کندھوں پر پڑی۔ اس دوران بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ورکروں اور لیڈرشپ نے خندہ پیشانی سے حالات کا مقابلہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو ختم کرنے کیلئے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن ناکام ہوا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دوران بی۔ایس۔او پر مکمل پابندی لگائی گئی اور تنظیم کے بہت سے ورکروں کو ماورائے عدالت شہید کیا گیا۔ لیکن بی۔ایس۔او اپنی تعلیمی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کی قومی حق خودارادیت اور بشمول حق علیحدگی اور بلوچ قوم کو سیاسی و علمی حوالے سے منظم کرتے رہے۔
سردار عطاءاللہ مینگل نے جلاوطنی کی زندگی گذارنے کیلئے لندن کا رخ کیا جبکہ سردار خیربخش مری فرانس چلے گئے اور چند بی۔ایس۔او کے لیڈر بھی انہی مزاحمت کاروں کے ساتھ افغانستان چلے گئے۔ اور سردار خیر بخش مری کچھ وقت بعد فرانس کو چھوڑ کر افغانستان چلے گئے کیونکہ مری بلوچوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ سردار خیر بخش مری کے سیاسی ہم فکر و ہم خیال افغانستان میں تھے۔ سردار خیربخش مری کے ساتھ شیر محمد مری جنرل شیروف اور میر ہزار خان بجارانی بھی تھے۔ تو سردار خیربخش مری نے اپنے لوگوں کے درمیان رہنے کو ترجیح دی۔ اس وقت اجتماعی طور پر بلوچ مسلح تنظیم کا کمان میر ہزار خان بجارانی مری کے ہاتھوں میں تھا۔ افغانستان ہی میں پاکستانی آئی۔ایس۔آئی بلوچ تحریک کو کمزور کرنے کیلئے اپنے بندوں کو تحریک کے صفوں میں میر ہزار بجارانی و رازق بگٹی کی شکل میں پیدا کرنے میں کامیاب ہوکر سردار خیر بخش مری کے خلاف ( قبائلی کارڈ کو استعمال میں لاکر ) میر ہزار بجارانی کو بھڑکا کر تحریک کے خلاف اندرونی طور پر لاکھڑا کردیا۔ پھر ۱۹۸۵ میں دور جدید کے میر صادق و میر جعفر رازق بگٹی گروپ افغانستان میں موجود بلوچ لیڈرشپ اور ورکر بشمول سردار خیربخش مری کے درمیان سیاسی و قبائلی اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ میری کم علمی کے مطابق اصل میں دیکھا جائے میر ہزار بجارانی اور رازق بگٹی ایک پتے کے دو رخ تھے۔ بدبخت بعد میں یہی اختلافات زیادہ قبائلی شکل اختیار کر گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں مری قبیلہ اس اختلافات سے متاثر ہوا۔ سردار خیربخش مری کا تعلق ( مری قبیلے کے گزینی شاخ سے تعلق تھا اور دوسری جانب مری قبیلے کے سردار بھی تھے ) جبکہ جنرل شیروف مری، میر ہزار خان اور میر یعقوب خان مری قبیلے کے بجارانی شاخ سے تعلق رکھتے تھے)۔
جب روس افغانستان سے چلا گیا تو افغانستان میں مختلف جہادی گروپس جن میں حزب اسلامی ، وحدت اسلامی، دوستم ملیشیاء سمیت دوسرے گروپس کے درمیان اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے خانہ جنگی شروع ہوئی۔ اس دوران جہادی گروپس کے پیچھے پاکستان کے آئی۔ایس۔آئی سے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں تھے اور پوری شدت کے ساتھ پاکستان جہادی گروپس کو سپورٹ کرتا رہا تاکہ وہ اپنے قبضے کو افغانستان میں جما سکے۔
اسی دوران افغانستان میں موجود مری بلوچوں کے کیمپس پر پاکستان نے اپنے پالے ہوئے جہادی گروپس کے ذریعے حملہ کروایا۔ اور کابل میں نواب خیربخش مری کی رہائش گاہ پر بھی راکٹوں کی بارش ہوئی۔ ان حالات میں بلوچوں کا افغانستان میں مزید رہنا مشکل ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔ بلوچ پاکستان مخالف ہونے کے ناطے ان کا پاکستان کے حمایتی جہادیوں کے ساتھ افغانستان میں رہنا مشکل و ناممکن تھا۔
۱۹۹۲ میں بلوچستان کے وزیراعلی تاج محمدجمالی اور بلوچستان کے بلوچ و پشتون قبائلی سردار اور غالباً کچھ افغانستان کے بلوچوں نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے سردار خیربخش مری سے واپس آنے کا بلوچی میڑھ اور اپیل کی اور ساتھ ہی پاکستان نے اپنے اس وقت کے آئی۔ایس۔آئی کے سربراہ جنرل حمید گل کے ذریعے سردار خیربخش مری اور دوسرے جلاوطن بلوچوں کو دوبارہ بہ نیت مذاکرات پاکستان آنے کی دعوت دی۔ اس دوران سردار خیربخش مری اور انکے دوستوں کے پاس دوسرا آپشن تھا ہی نہیں، لہٰذا انہوں نے اپنے وطن بلوچستان آنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران افغانستان میں موجود بلوچ جلاوطن دو گروپس میں تقسیم ہوکر جدا جدا بلوچستان آئے۔ میر ہزار خان بجارانی اپنے گروپ کے ساتھ پاکستان کے آئی۔ایس۔آئی کے ساتھ پہلے ہی سے ساز باز کر چکے تھے وہ آتے ہی آئی۔ایس۔آئی کے گود میں جا بیٹھے۔ جبکہ سردار خیربخش مری ۱۹۹۲ میں کابل سے کوئٹہ آئے اور ایک حلقہ احباب کے تجزیوں و خیالوں کے مطابق گوشہ نشینی کی زندگی ( یہاں پے تجزیہ نگاروں کی کم معلوماتی تھی کہ اسی گوشہ نشینی میں کیا راز پنہاں ہے )اختیار کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے۔ کیونکہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور پاکستان کے اندر نام نہاد جمہوری سیاسی فریم ورک میں سیاست سے انکاری تھے۔ اور پاکستان کی مخالفت اور بلوچستان پر پاکستانی قبضہ گیریت کا برملا اظہار کرتے تھے اور غلامی کی زندگی سے بیزار و انکاری تھے اور وہ بلوچ وطن کی آزادی پر یقین رکھتے تھے۔ بعد میں سردار خیر بخش مری نے اپنی خاموشی کوتوڑتےہوئے حق توار کے نام سے اسٹڈی سرکلز کااہتمام کر کے باقاعدہ سیاسی حوالے سے متحرک ہوئے اور پاکستان کو سردار خیر بخش مری کی یہ ادا پسند نہ آئی اور سردارخیربخش مری کو پاکستان نے مذاکرات نہ کرنے کی پادا ش میں جسٹس نواز مری بجارانی (جو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ) کے قتل میں شامل تفتیش کر کے گرفتار کیا۔ اپنے اس عمل سے پاکستان دو فائدے اٹھانا چاہتا تھا، اوّل نواب مری کو بلیک میل اور دباو میں لاکر مذاکرات کی میز پر لانا اور مری علاقے میں تیل و گیس کے ذخائر کو نکالنے کیلئے ساز باز کرنا اور دوسری جانب بجارانی و گزینی کے درمیان قبائلی اختلافات کو مزید ہوا دینا مقصود تھا۔ تقریباً ۱۸ مہینہ نواب صاحب جیل میں رہے۔ آخرکار عدم ثبوت کے بناء پر عدالت سے بری ہوئے۔
شہید وطن کامریڈ فدا بلوچ بھی ۸۰ ہی کی دہائی میں سیاسی حالات کی نزاکت کو جانچنے اور افغانستان میں روس کی موجودگی اور روس کی حمایت و ہمدردی سنٹرل ایشیاء میں سیاسی حالات کی تبدیلیوں کے آثار کے علاوہ افغانستان میں موجود بلوچ جلاوطن رہنماؤں کے درمیان تضادات و اختلافات کو نزدیک سے سمجھنےکی غرض سے خود افغانستان تشریف لے گئے۔ دوران افغانستان اس نے تمام حالات کا بغور جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچا کہ بلوچستان کی تحریک آزادی کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کیلئے سرفیس ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جو اپنی زور بازو پر بلوچ وطن کی آزادی کی تحریک کو منزل مقصود تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اسی سلسلے میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ایک بہت بڑی کھیپ اسٹوڈنٹس پالیٹکس سے فراغت کے بعد انکو ایسی انقلابی ماس پارٹی کی ضرورت بہت پہلے سے تھی۔
جب شہید فدا بلوچ افغانستان سے بلوچستان آئے تو پارٹی بنانے کی تگ و دو میں لگ گئے اور آخر ۱۹۸۷ میں بی۔ایس۔او کے دوستوں کے ہمراہ داری سے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بنانے میں کامیاب ہوئے۔ بلوچ قوم کی شومی قسمت کہ بہت جلد بلوچ تحریک کے اندر آستین کے سانپوں نے رازق بگٹی اور (طیب اکبر و طیب اصغر ) یعنی مالک و حئی کے ذریعے کامریڈ فدا کو ۲مئی ۱۹۸۸ کو شہید کرکے اپنے لیئے پاکستانی پارلیمنٹ کیلئے راہ ہموار کردیئے۔ کیونکہ شہید کامریڈ فدا اور دوسرے ساتھی قطعاً بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کو پاکستان کے پارلیمنٹ کی زینت بننے کیلئے تیار نہیں تھے۔
ڈاکٹر حئی کی قیادت میں مالک اینڈ کمپنی نے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ پر ایک طریقے سے قدغن لگا کر پاکستانی پارلیمنٹ کا حصے بنے ۔ اور بلوچ عوام کو اس دھوکے میں رکھا کہ آپ لوگوں کے تمام دکھوں کا مداواہ پاکستان پارلیمنٹ ہی میں ہے۔
غالباً ۱۹۸۹ کی جماعتی انتخابات میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ نے نواب اکبر خان بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی کے ساتھ مل کر بلوچ نیشنل الائنس تشکیل دیکر انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر نواب اکبر خان بگٹی بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے ۔ لیکن بدقسمتی سے یہی آستین کے سانپ جن پر شہید فدا بلوچ اور دوسرے دوستوں نے اعتماد کرکے ایک انقلابی پارٹی بنانے میں ساتھ ملایا تھا پارلیمنٹ پہنچ کر اپنے ذاتی مراعات کے حصول میں مگن ہو کر باقاعدہ بلوچستان کی تحریک آزادی و حق خودارادیت کی جدوجہد سے منحرف ہوئے اور بلوچستان کی حقیقی جدوجہد آزادی کو نوکری ، گاڑی ، نالی روڈ اور زاتی مراعات کی بھینٹ چڑائی ۔ ۱۹۸۸ سے ۲۰۰۰ تک مالک اینڈ کمپنی عیش و عشرت بلوچ عوام کو دھوکہ دینے میں مگن و مدہوش رہ کر اپنے لیئے زر و دولت جمع کرتے رہے۔ ( یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ۲۰۰۴ کے بعد جب آئی ایس آئی کی ایماء پر بننے والے جھالاوان میں ڈیتھ اسکواڈ کا سرغنہ سردار ثناء اللہ زہری اور حاصل بزنجو کی شراکت داری سے وجود میں آنے والی نیشنل پارٹی بلوچ تحریک کی مخالفت میں اپنی آخری حدوں کو چھوتے ہوۓ باقاعدہ ایم ۔ آئی اور آئی۔ ایس۔ آئی کی بی ٹیم کے بطور سامنے آئی اور بلوچ پولیٹیکل ورکر سے لیکر بلوچ سرمچاروں کے خون سے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں نہیں بلکہ اپنا پورا بدن ڈبو دیا ) جبکہ دوسری جانب شہید غلام محمد بلوچ اور ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی شکل میں ایک ایماندار و مخلص اور سرفروش کھیپ انہی آستین کے سانپوں کے درمیان تیار ہورہی تھی ۔
۲۰۰۲ میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے ڈاکٹر اللہ نظر کی قیادت میں بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل موومنٹ کی پاکٹ آرگنائزیشن بننے اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کے لیڈران کو مزید پارلیمنٹ تک پہنچانے کی سیڑھی بننے سے انکار کرکے بی۔ایس۔او آزاد کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کی آغاز کی جو حقیقتاً بی۔ایس۔او بنانے کا مقصد و ہدف یہی تھا۔ ۲۰۰۵ میں پاکستان کی خفیہ ادارہ آئی۔ایس۔آئی نے بی۔ایس۔او آزاد کی قیادت کو ڈاکٹر اللہ نظر اور اس کے چار ۴ ساتھیوں کے ہمراہ کراچی کے علاقہ گلشن جوہر سے اغواء کرکے لاپتہ کردیا۔ پاکستان کی اس غیر قانونی و غیر اخلاقی عمل کے خلاف بلوچ آزادی پسند پارٹیوں نے مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد و احتجاج شروع کیا۔ اسی دوران بی۔ایس۔ او آزاد کے وائس چیئرمین شہید سہراب بلوچ نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کی اور بی۔ این۔ ایم کے شہید رسول بخش مینگل اور غفار بلوچ نے خضدار تا کراچی لانگ مارچ کی۔ سیاسی ورکروں کی جمہوری جدوجہد اور احتجاج کرنے کے تقریباً پانچ مہینے کے بعد ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کے چار ساتھیوں کو صوبہ پنجاب کے شہر صادق آباد سے منظرعام پر لاکر ان کو رہا کیا گیا۔ لیکن ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ بدستور لاپتہ رہے۔ اس دوران ان کو بے انتہا ذہنی و جسمانی طور پر اذیت خانوں میں اذیت دی گئی۔ آخر کار ایک سال کے بعد ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کو ڈیرہ مراد جمالی کے ایک جیل میں ظاہر کیا گیا۔ اس وقت اللہ نظر کی حالت انتہائی خراب تھی۔ آخرکار ڈاکٹر اللہ نظر کو نیم مردہ حالت میں سول ہسپتال کوئٹہ کے جیل وارڈ میں منظر عام پر لایا گیا۔
دوسری جانب اکتوبر ۲۰۰۳ کو ڈاکٹر مالک اینڈ کمپنی نے بلوچستان نیشنل موومنٹ کو یرغمال بناکے پاکستان کیمونسٹ پارٹی اور بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ ملکر پاکستان کی سطح پر بنام پاکستان نیشنل پارٹی بنانا چاہتے تھے۔ پارٹی کے اندر مالک اینڈ کمپنی کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا آخر جاکر مالک اینڈ کمپنی نے بی۔این۔ڈی۔پی کے ساتھ انضمام کرکے چار ستاروں والی نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی اور جبکہ پاکستان کیمونسٹ پارٹی نئی بننے والی پارٹی میں پاکستان کا نام نہ ہونے کے سبب شامل نہیں ہوا۔
شہید غلام محمد بلوچ نے دوستوں کے ہمراہ اس انضمام اور قدغن کی مخالفت کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل موومنٹ کی حیثیت کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ مئی ۲۰۰۴ میں شہید وطن فدا بلوچ کی یوم شہادت کے موقع پر بی۔این۔ایم کے کونسل سیشن میں پارٹی کا نام بلوچستان نیشنل موومنٹ سے تبدیل کرکے بلوچ نیشنل موومنٹ رکھنے کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ہی پاکستان کی پارلیمانی سیاست کو الوداع کرکے کامریڈ فدا بلوچ کی وژن جہد آزادی کیلئے بی ۔این۔ایم کی راہ تعین کر کے حقیقی حوالے سے جہد آزادی کے منزل کی حصول کیلئے کمر بستہ ہوکر رواں دواں ہوئے۔
بلوچ سیاست میں آپ کو معمولی اختلافات و تضادات اور آپسی بدگمانیوں کے سبب بہت سی نشیب و فراز ملیں گے اور بلوچ وہ بدبخت قوم ہے جو اپنی زد اور اناء کی وجہ سے اپنے تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ۲۰۰۴ میں جب بلوچوں کی باقاعدہ قومی آزادی کی جنگ قبائلی حصاروں سے آزاد خالصتاً سیاسی و سائنٹیفک اور سیاسی و مسلح تنظیموں کے تحت شروع ہونے والی تحریک میں بھی بہت کم عرصے کے بعد غیر سیاسی بنیادوں پر ایک دوسرے کے اوپر بےجا تنقید شروع ہوئی۔ اس جدید دور میں سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے بجائے اپنے خلاف جی بھر کے استعمال کیئے کچھ وقت خاموشی کے بعد اب دوبارہ تنقید برائے تنقید اسی زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔ جو کبھی بھی کسی بھی حالت میں بلوچ اور بلوچ تحریک کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔ سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ اس تحریک سے وابستہ تمام جانتے ہیں کہ یہ بلوچوں کی بقاء و آزادی کی آخری جنگ ہے۔ اور تمام کو احساس بھی ہے اور شعور بھی ہے۔ آج بلوچ نوجوان اپنی قیمتی جانوں کو مادر وطن پر نچھاور کررہے ہیں ان میں کوئی بھی لاشعوری طور پے یا ہیرو ازم کے تحت نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ بلوچ تحریک میں شعور اپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ یہ جنگ آزادی کی اور شعور کی انتہاء ہے کہ شہید ریحان بلوچ کی ماں و باپ اپنے لخت جگر کو دشمن کا راستہ روکنے کیلئے انتہائی قدم یعنی خودکش کرنے کیلئے رخصت کررہے ہیں۔
یہ حقیقت بھی بلوچ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ بلوچ کو اپنی جیتی ہوئی جنگ کیلئے وقت بہت کم اور حالات دن بدن ناسازگار ہوتے جارہے ہیں اور جس تیزی سے بلوچستان میں مداخلتیں بڑھ رہی ہیں، اس کا ہمیں اندازہ نہیں۔ اگر ان کو نہ روکا گیا تو پھر وہی ہوگا کہ “ داستان تیری نہ ہوگی داستانوں میں”۔
آج بلوچ قوم کے غم خوروں کو آزادی پسندسیاسی پارٹیوں کو مسلح تنظیموں کو سر جوڑ کر بیھٹنا اور سوچنا چاہیئے کہ بلوچ وطن کی یہ جہد آزادی کی جنگ رکنے نہ پائے۔ جب تک بلوچ قوم کو ایک آزاد و خودمختار وطن نصیب نہیں ہوگا۔
یہی جہدوجہد کا وقت ہے۔ اسے گنوادیا تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ماسوائے غلامی کی زندگی اور موت کے۔