جانبداری، غیر جانبداری کی قومی تحریک پر اثرات – لطیف بلوچ

280

جانبداری، غیر جانبداری کی قومی تحریک پر اثرات

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

علمی بحث بہت سے نکات کو واضح کرتی ہے، اگر عقل و دلیل کے کسوٹی پر جانچا اور پرکھا جائے تو عقلی بنیادوں پر چیزوں کو پرکھ کر قبول اور رد کی جاسکتی ہے بلوچ سیاست اور سیاسی ہیت، تنظیم و تنظیمی ساخت اداروں کی تشکیل سمیت دیگر تنظیمی کمزوریوں اور اس سے متعلق درپیش مسائل پر بحث کی بہت گنجائش موجود ہے لیکن یہ بحث یکطرفہ حمایت یا مخالفت سے درست سمت میں نہیں بڑھ سکتی، اس بحث کو درست سمت میں بڑھانے کے لئے عقل و دلیل کی بنیاد پر غیر جانبدار رہ کر چیزوں کو پرکھنا چاہیئے کمزوری و کوتاہیوں پر کھل کر بات کرنی چاہیئے، جہاں جہاں کوتاہیاں سر زرد ہوئیں ہیں اُن پر بحث و مباحثہ سیاسی، قبائلی، ذاتی تعلق داری سے بالاتر رہے کر کی جائے پھر کسی نتیجے پر پہنچی جاسکتی ہے۔ اگر ذاتی، سیاسی اور قبائلی تعلقات کا خیال رکھا گیا پھر عقل و دلیل اور علم کے بجائے جذباتیت اور تعلقات کو سامنے رکھ کر سوچیں گے۔ مصلحت پسندی آڑے آئے گی، جب ہماری سوچ جذبات کی بنیاد پر ہوگی اور مصلحت و لحاظ داری آڑے آئے گی۔ الفاظ اور خیالات کو قلم کے ذریعہ کاغذ پر لکھی جاسکتی ہے لیکن یکطرفہ تعلق داری اور مصلحت پسندی سوچنے،سمجھنے، پرکھنے، لکھنے اور بولنے کے لئے بہتر الفاظ مہیا نہیں کرسکیں گے، ہم بہت سے چیزوں کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھ کر اپنے مقصد کے نتائج اخذ اور حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں سماج اور تنظیموں سے لیکر قبائلی اور سیاسی شخصیات کی حمایت اور مخالفت اپنے نقطہ نگاہ سے کرتے ہیں، خیالات سے اختلاف کی جاسکتی ہے لیکن خیالات کو جواز بناکر دوستی اور دشمنی کا تعین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ خیالات اور رائے وقت و حالات کے مطابق بدل سکتے ہے کل کسی ایک لیڈر اور شخصیت کی حمایت اُنکی سیاسی سوچ اور خیالات کی وجہ سے کی جاتی تھی لیکن آج سوچ اور خیالات بدل گئے تو حمایت، سیاسی مخالفت میں بدل گئی، کل جن کو دشمن سمجھا جاتا تھا آج اُن کے متعلق رائے میں تبدیلی پائی جاتی ہے۔

واجہ صورت خان مری کے حالیہ انٹرویو پر ایک بحث کا آغاز ہوچکا ہے، انٹرویو لینے والی بہن کے سوالات اور دیئے گئے جوابات میں کئی ایسے نکات ہیں جن پر بحث کی گنجائش موجود ہے، سوالات کو سن کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انٹرویو حُب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں لی گئی ہے۔ بلوچ سیاست میں ایک المیہ یہ رہا ہے کہ اپنے مخصوص مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے دانشوروں، لکھاریوں، رہنماؤں سمیت سیاسی اور صحافتی اداروں و تنظیموں کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہوتا رہا ہے۔ دانشور، لکھاری، تجزیہ کار، ادیب و شاعر اور صحافتی ادارے ایک فرد اور تنظیم کی ملکیت نہیں بلکہ قومی اثاثہ ہوتے ہیں، ان سے مخصوص خواہشات کی تکمیل کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے۔

اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ مضبوط سیاسی تنظیم موجود نہ ہونے کی وجہ سے بلوچ تحریک ہچکولے کھا رہی ہے، فردی فیصلے ہوتے رہے ہیں، ہورہے ہیں اختلافات بھی سیاسی، نظریاتی اور علمی نہیں بلکہ فردی ہیں، دو افراد کے آپسی اختلافات کو لیکر تنظیمیں ٹوٹتے اور بنتے رہے ہیں، جب تک مضبوط سیاسی تنظیم اور ادارہ تشکیل نہیں پاتے اُس وقت تک شخصی فیصلے بھاری ثابت ہوتی رہینگی، بندوق کو نظریئے کے تابع لاکر منظم و مضبوط سیاسی تنظیم معرض وجود میں لاکر ان تمام کمزوریوں اور سیاسی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

تنظیم اور اداروں کے نہ ہونے کا الزام صرف سیاسی اور مزاحمتی لیڈر شپ پر نہیں ڈالی جاسکتی، بلوچ قوم کو ایک مضبوط سیاسی تنظیم مہیا کرنے میں بلوچ دانشوروں نے کیا اپنے ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش کی ہے؟ یا اس سے متعلق اُنہوں نے قوم و سیاسی کارکنوں کی رہنمائی کی ہے؟ جواب نفی میں ہی میں ملے گی۔ صورت خان مری، نواب خیر بخش مری کے انتہائی قریبی سمجھے جاتے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں وہ نواب مری کے قریب تھے کیا اُنہوں نے نواب مری سے کبھی تنظیم اور مضبوط ادارے بلوچ قوم اور تحریک کو مہیا کرنے کے ضرورت پر بات کرنے اور اس حوالے سے اپنے ذمہ داروں کو نبھانے کی کوشش کی ہے؟ آج بلوچ قومی تحریک کیوں اتنے اختلافات کا شکار ہے بی ایل اے کی بطن سے یو بی اے کا ظہور کیوں ہوا؟ نواب مری اور اُس کے ساتھیوں نے اس کی ضرورت کیوں محسوس کیا؟ وہ کونسی عوامل و حالات تھے کہ بی ایل اے دو دھڑوں میں تقسیم ہوا؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ نوبت پیش کیوں آئی؟

بی ایل اے کی تقسیم یو بی اے کی تشکیل، اختلافات، جنگ اور ایک دوسرے کے خلاف طاقت استعمال کرنے سے لیکر جنگ بندی اور صلح تک قوم کو کچھ نہیں بتایا گیا بلوچ قوم اس بات سے آج تک نا آشنا اور حقائق سے نابلد ہے کہ ان تنظیموں کی اختلافات کے وجوہات کیا تھے، کیا بلوچ دانشوروں نے اس سے متعلق حقائق جاننے، تحقیق کرنے اور کھوج لگانے کی کوشش کی ہے، لکھاریوں اور دانشوروں کی جو ذمہ داری بحیثیت دانشور و لکھاری بنتی تھی کیا اُنہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوشش کی ہے؟

اس تناظر میں اگر سیاسی تنظیموں کا جائزہ لیں، بی این ایف کی صورت میں ایک مضبوط فرنٹ موجود تھی یہ فرنٹ سنگل پارٹی کی روپ دھارنے یا ایک پارٹی میں تبدیل ہونے کی بجائے کیوں کچھ عرصہ میں شدید اختلافات کا شکار ہوکر ٹوٹ و پھوٹ گئی، بی ایس او کے تمام دھڑوں کا اتحاد سنگل بی ایس او کا قیام اور پھر ٹوٹ و پھوٹ کا شکار ہونا یہ بحث طلب مسائل ہیں کیونکہ اس تمام دورانیے میں سیاسی، فکری اور نظریاتی اختلافات سے زیادہ ضد، انا پرستی، ہٹ دھرمی، شخصی فیصلے، شوق لیڈری تنظیموں کی تقسیم اور اتحاد و یکجہتی اور مضبوط اداروں کے قیام میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔

کسی آرگنائزیشن کو ضلعی قرار دینا غالباً یہاں صورت خان مری کا اشارہ لشکر بلوچستان کی طرف تھا، کس زاویے سے ضلعی تنظیم کا لفظ استعمال کیا گیا، کسی تنظیم کے ضلعی اور مرکزی ہونے کا پیمانہ کیا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ لشکر بلوچستان ایک ڈسڑکٹ تک محدود ہے لیکن دوسرے تنظیموں کا تنظیمی ہیت، ساخت اور کنٹرول کا جائزہ لیا جائے تو یکساں نتیجہ سامنے آتے ہیں،کسی تنظیم کا معیار اُس کے بڑے اور چھوٹے ہونے سے نہیں لگائی جاسکتی، آج اس بڑے اور چھوٹے کی دوڑ میں معیار کی بجائے تعداد کی جانب توجہ مرکوز کرچکے ہیں۔ کوالٹی کی بجائے کوانٹٹی بڑھ رہی ہے۔ جسکی وجہ سے ادارے پنپ نہیں رہے، بلوچ تحریک سے جڑے کسی تنظیم اور رہنما کو پاکستانی پارلیمنٹ پرست قرار دے کر اپنی انا کو تسکین دی جاسکتی ہے یہ صرف ایک الزام ہوسکتا ہے حقیقت نہیں اگر حقیقت ہے پھر اس الزام سے آگے بڑھ کر قوم کو ثبوت فراہم کی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ مذکورہ تنظیم اور تنظیم کے ذمہ داران کب اور کہاں ریاست سے ملکر ایسا کوئی کام سرانجام دے چکے ہیں، جس کے بل بوتے پر تنظیم کو پاکستان پرست یا پارلیمنٹ پرست قرار دیا جارہا ہے؟ اگر اس سےمتعلق دستیاب معلومات سے آگاہی دی جائے تو بہتر ہوگا اور سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کن ذرائع و حقائق کی بنیاد پر یہ سنگین الزام لگایا جارہا ہے/ مسئلہ الزامات کی نہیں بلکہ الزامات کو ثابت کرنے اور حقائق کو سامنے لانے کی ہے، کیونکہ اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر بہت سے جہد کاروں، ساتھیوں نے اپنی قومی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے شہادت کے منصب پر فائز ہوگئے ہیں۔ بہت سے جہد کار کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ عقوبت خانوں میں اذیتیں برداشت کررہے ہیں۔ بہت سے جہد کار آج بھی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ صرف ذاتی عناد، بغض، پسند، نا پسند اور اختلاف کو جواز بناکر بلا تحقیق ایک تنظیم کو ریاست پسند قرار دے کر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جاری ہے؟ اگر خاندانی رشتہ داریوں کو جواز بناکر یہ من گھڑت الزامات عائد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو پھر اُن الزامات کا کوئی حقیقت و صحت نہیں کیونکہ اگر اس پیرائے میں دیکھا جائے تو تمام مزاحمتی، سیاسی تنظیمیں، رہنما اور دانشور اس الزام کے دائرے میں کہیں نہ کہیں آتی ہیں کیونکہ ریاستی تعلق داری سے کوئی مبرا نہیں۔

بہت سے ایسے خاندان بلوچستان میں ہیں کچھ آزادی پسند اور کچھ ریاست پسند ہیں، اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خاندانی رشتے کی بنیاد پر کسی آزادی پسند کو غدار اور ریاست پرست قرار دے کر اُنکی قربانیوں اور جدوجہد کو نظر انداز کی جاسکتی ہے؟

آج بلوچ قوم، سیاسی جہد کاروں، دانشوروں کو بلوچستان قومی تحریک کو کامیابی کی طرف بڑھانے کے لئے مثبت خیالات اور شعور کو مثبت سمت دینے کی ضرورت ہے، لہٰذا ہر فرد کو قومی سوچ رکھ کر اپنے خیالات کو قومی رنگ دے کر بیان کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیئے مثبت انداز میں سیاسی کارکنوں کی تربیت و عمل کو جاری رکھنا چاہیئے تاکہ بلوچ قوم کا دیرینہ خواہش آزاد بلوچستان کے قیام کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔