تنظیم و ڈسپلن کے دعویدار، خود نابلد – برزکوہی

491

تنظیم و ڈسپلن کے دعویدار، خود نابلد

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

چلیں! لمحہ بھر کیلئے ہم ان تمام انشاء پردازیوں، دشنام طرازیوں، الزامات در الزمات اور حقائق و فسانے کے غیر متفرق گنجلک دلدل سے ہاتھ پیر مار کر نکلتے ہوئے بالا تر ہوکر، خالصتاً بطورِ ایک غیر جانبدار بلوچ ، بلوچ لکھاری اور تحریک کے ہمدرد کے حیثیت سے ناپ تول کرکے دیکھتے ہیں کہ کون موسیٰ کون فرعون، کون صحیح کون غلط، کون ملامت کون سلامت۔

ایک توقف کیلئے بیانیوں کو مان کر دیکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ بی ایل اے کے سینئر کمانڈر استاد اسلم بلوچ گذشتہ سال ہائی کمان، ڈسپلن اور اداروں کو بائی پاس کرتے ہوئے بغیر اجازت علاج کے غرض کیلئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں پھر ردعمل میں بی ایل اے کے ایک ترجمان آزاد بلوچ اخباری بیان میں یہ بات آشکار کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ حقائق قوم کے سامنے لارہا ہوں پھر فوراً بی ایل اے کے دوسرے متحرک ترجمان جیئند بلوچ اس بیان کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیے دیتا ہے اور سارے الزامات مسترد کرتا ہے۔

سلسلہ چلتا ہے اور کچھ وقت بعد بی ایل ایف کے ترجمان گہرام بلوچ کا بیان نظروں سے گذرتا ہے جس میں وہ اعلان کرتا ہے کہ بی ایل اے کے ساتھ اشتراکِ عمل طے پاچکا ہے لیکن چند دن بعد بی ایل اے کے ترجمان آزاد کا بیان آتا ہے اور کہتے ہیں کہ بی ایل اے کے دو کمانڈران اسلم و بشیر زیب اور دو ترجمان میرک و جیئند غیر معینہ مدت کیلئے معطل ہیں۔ پھر اسکے ساتھ ہی الزامات میں بھی اضافہ ہوتا ہے کہ اسلم بلوچ ناصرف بھارت گئے ہیں بلکہ انکے مذہبی شدت پسند گروہوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اور بشیرزیب کو معطل محض اسلم بلوچ کی حمایت پر کیا جاتا ہے۔ پھر اگلے دن بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ کا بیان آتا ہے کہ بی ایل اے کا کوئی متفقہ، مشترکہ اور منظور شدہ کوئی ہائی کمان ہی نہیں ہے اور باقی تمام الزامات کو جیئند بلوچ جھوٹ قرار دیکر چیلنج کرتا ہے۔ اس کے بعد مکمل خاموشی۔۔۔۔۔

یہاں پھر سوال یہ اٹھا کہ جیئند بلوچ نے جو کہا کیا وہ سب سچ تھا، اگر نہیں تو پھر آزاد بلوچ اپنے الزامات کے صحت میں کوئی ثبوت و دلیل یا کوئی صفائی پیش کرنے سے کیوں قاصر؟

پھر تقریبا پورے ایک سال تک بی ایل اے کے مکران سے لیکر بولان، کاہان، قلات، خضدار، نوشکی، دالبندین، خاران، حب چوکی، کوئٹہ، زہری و دیگر علاقوں میں تواتر کے ساتھ مسلح کاروائی ہوتے رہے اور ان کو بی ایل اے کے ترجمان جئیند بلوچ قبول کرتے رہے اور بی ایل اے کے سرمچار دوستوں کی شہادتیں بھی ہوتی رہیں۔ کبھی کبھار بی ایل ایف کے ساتھ مشترکہ کاروائیاں بھی ہوتے رہے اور خاص کر بی ایل اے اور یو بی اے کی آپسی جنگ بندی اور جنگ کا مکمل خاتمہ یوبی اے اور بی ایل اے کا مشترکہ بیان مرکزی ترجمانوں جئیند بلوچ اور مرید کا بیان بھی سامنے آیا، اس کے ساتھ مختلف مسائل اور حالاتِ حاضرہ پر پر بی ایل اے کے رہنما اسلم بلوچ کے مختلف اور وقتاً فوقتاً بحثیت بی ایل اے کے کمانڈر بیان، وڈیو پیغام اور انٹرویو بھی آتے رہے لیکن مکمل خاموشی۔۔۔۔ جب 11 اگست کے دن دالبندین کے مقام پر سیندک پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجنیئروں پر فدائین حملہ ہوا، اس واقعے کو بھی بی ایل اے کے مجید فدائین بریگیڈ نے ترجمان جئیند بلوچ کے نام سے قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ فدائین بی ایل اے کے جانثار ساتھی ریحان بلوچ تھا۔ اور ریحان بلوچ استاد اسلم بلوچ کے بڑے فرزند ہوتے ہیں۔

اس لمبی خاموشی کے بعد، خود کش حملے کے پانچ دن بعد بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ کا بیان آتا ہے کہ اس فدائین حملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ معطل شدہ دوکمانڈر اسلم بلوچ اور بشیرزیب بلوچ کا ذاتی فیصلہ تھا، انہوں نے اپنے ذاتی مفاد میں ریحان بلوچ کو استعمال کیا۔ لہٰذا یہ تنظیمی ڈسپلن کے خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے اور ان کے اوپر ایک اور مقدمہ بن گیا، لہٰذا وہ جوابدہی کے لیئے پیش ہوجائیں، ورنہ ان کا تنظیم سے بنیادی رکنیت ختم کردیا جائیگا، دوسرے دن بی ایل اے کے سینیئر کمانڈ کونسل اور آپرینشنل کور کمیٹی کا مشترکہ بیان ترجمان جئیند بلوچ کا نام سے آتا ہے کہ آزاد بلوچ کا اخباری بیان بچگانہ، شرمناک اور قابل افسوس ہے اور سرکاری بیانیہ ہے اور آئیندہ بی ایل اے کا خود ساختہ ہائی کمان اور ترجمان آزاد بلوچ سے کوئی تعلق نہیں ہے یعنی یہ خود ساختہ ہائی کمان بشمول اس کا ٹولہ بی ایل اے سے فارغ ہے لیکن بی ایل اے کے ترجمان جئیند بلوچ کے بیان کے بعد ایک مہینہ گذر جانے کے بعد بھی مکمل خاموشی، نہ دلیل نہ صفائی نہ وضاحت کچھ نہیں۔ کیا یہ خود کھلا تضاد نہیں ہے؟ غلط، جذباتی پن، بے شعوری، کم عقلی، تنظیمی امور سے نابلدی اور ملامت ہونے کی واضح ثبوت نہیں ہے؟ یا پھر جئیند بلوچ کے بیان کو من و عن حقیقت مان جانے اور تسلیم کرنے کی واضح اشارہ ہے؟

یہاں سب سے زیادہ مزاحقہ خیز بات مجھے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جتنا زیادہ تنظیم، ادارے اور اصول کی بات کی جاتی ہے، انکے ہاں ادارے، ادارہ جاتی طریقہ کار، تنظیمی امور کے بابت اتنی ہی لاعلمی اور نا اہلیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ بالفرض آزاد بلوچ اپنے بیان میں کہتا ہے کہ ان دونوں کمانڈران کو غیر معینہ مدت کیلئے معطل کی جاتی ہے۔ کیا دنیا کے کسی تنظیم میں غیر معینہ مدت تک معطل کرنے کا تصور موجود ہے؟ سزا ثابت ہونے پر کوئی تین مہینے، کوئی سال کوئی چھ مہنے معطل کردیتا ہے لیکن یہ دنیا کے تنظیموں کے تاریخ میں پہلا انہونا واقعہ ہے جہاں غیر معینہ مدت کیلئے معطل کی جاتی ہے۔ دوسری بات کیا کسی بھی تنظیم میں شوکاز نوٹس جاری کیئے بغیر اور اظہار وجوہ کا موقع دیئے بغیر سزا دی جاتی ہے؟ تنظیمی طریقہ کار یہ ہے کہ کسی اونچ نیچ کی صورت میں مذکورہ شخص کو شوکاز نوٹس جاری ہوتا ہے، وہ شخص جاکر اپنی صفائی پیش کرتا ہے، صفائی سننے کے بعد سزا و بری کا فیصلہ ہوتا ہے، کیونکہ یہی اخلاقی و تنظیمی اور قانونی اصول ہے، جب تک آپکو دوسرے کا موقف معلوم نہیں آپ کو سچائی کا مکمل علم نہیں ہوسکتا ہے، اسی لیئے کسی قتل کے مجرم کو بھی تب تک ملزم ہی کہا جاتا ہے جب تک اسے صفائی کا موقع نہیں دیا جائے۔ لیکن یہاں جس پر الزام لگے ہیں اسے بنا شوکاز اور صفائی کے موقع کے معطل ہونے کی خبر اخباروں سے پتہ چلتی ہے۔ یہ خود ان لوگوں کے اصول پرستی کے دعووں کی دھجیاں اڑانے کیلئے کافی ہے۔

قطع نظر اسکے کہ شنید میں آیا ایک دو دفعہ بطور قبائلی جرگہ پیغام رسانی کیلئے اسلم بلوچ کے پاس بھیجے گئے، کیا اس جرگے کے ارکان تنظیمی امور، تنظیمی مسائل، تنظیمی ڈسپلن، تنطیمی اصولوں کے فرنبرداری و خلاف ورزی سے بلد اور باعلم یا با اختیار تھے؟ اگر نہیں تو پھر پورے ایک سال تک اسلم، بشیر اور ان کے دوستوں کی سرگرمیوں کا جیئند کے نام سے قبولیت حتیٰ کے بقول ان کے تنظیم کے دوست کو بھی ذاتئ مفاد کے لیئے فدائی حملہ کروایا گیا یعنی بقول ان کے بار بار ہر بار پورے ایک سال تک تنظیم کے ڈسپلن کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انکی طرف سے متنازعہ ہائی کمان اور ترجمان آزاد کو فارغ کرنا، بی ایل ایف کے ساتھ مشترکہ کاروائی، یوبی اے کا ساتھ جنگ کا خاتمہ، اس کے باوجود معطل در معطل پر گذارہ کرنا؟ پھر بھی بنیادی رکنیت ختم نہیں کرنا کس تنظیم، کس ڈسپلن کی علامت ہوتا ہے؟ دنیا میں ایسی کوئی مثال موجود ہے؟ ایسی کسی تنظیم اور ڈسپلن کے وجود کا کوئی ذکر کرسکتا ہے؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں سب سے زیادہ تنظیم و اصولوں کی رٹابازی ہورہی ہے وہ تنظیم و اصول کے ابجد سے بھی ناواقف لوگ ہیں۔

یہاں سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ وسائل کی کمیابی، جنگی سازو سامان کے چھینے یا چوری کیئے جانے، وسائل کی ترسیل بند ہوجانے اور انتہائی کسمپرسی کے حالت کے باوجود یہ پورے بلوچستان میں ایک سال تک بہت زور و شور طریقے سے مسلح کاروائیاں کرتے ہیں، فدائین حملے کرتے ہیں اور یہ حملے کھلم کھلا جیئند بلوچ قبول کرتا آیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ دو بندے اسلم بلوچ اور بشیر زیب جادوئی چھڑی گھما کررہے ہیں یا پھر انکے ساتھ مختلف علاقوں کئی کیمپ کمانڈران اور سرمچاران موجود ہیں۔ جو ایک سال سے اس کم وسائلی میں بھی انکے شانہ بشانہ دشمن پر آتش و آہن برسا رہے ہیں، تو پھر یہ باقی تمام کمانڈران کو اور سرمچاران کو ڈسپلن کے خلاف ورزی پر معطل کیوں نہیں کیا جارہا؟ دیکھا جائے تو پھر وہ بھی واضح احکامات کی خلاف ورزی کررہے ہیں، پھر باقی سب معطل کیوں نہیں؟ یہاں تنظیم و اصول اور ڈسپلن کہاں گئی؟

یہ اب تک نا تنظیم کو سمجھ سکے ہیں اور تحریک کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں، تنظیم کا محور فعالیت ہوتا ہے اور تحریک کا محور ہدف! تنظیم کی کارکردگی رپورٹس، اعداد و شمار سے بھری ہوتی ہے جبکہ اگر پوچھیں اس تمام فعالیت نے آپ کو ہدف اور اپنے نصب العین سے کتنا نزدیک تر کیا ہے تو جواب مشکل ہی ملتا ہے۔ تحریک ہدف کی طرف حرکت کرتی ہے۔ چاہے پورے سال فعالیت رہے لیکن ہدف کی طرف ایک قدم بھی نہ بڑہے تو یہ وقت ضائع کرنا ہے کیوںکہ حرکت نہیں کی، اپنی جگہ کھڑے ہو کر پاؤں مارے ہیں۔ تنظیم فعالیت محور ہے اور تحریک ہدف محور ہے۔ ظاہر ہے ہدف تک پہنچنے کیلئے حرکت اور فعالیت چاہیئے لیکن فعالیت سے مراد کارکردگی رپورٹس کا پیٹ بھرنا نہیں بلکہ ہدف اور مقصدِ اعلیٰ سے نزدیک تر ہونا ہے۔ لیکن اپنی تنظیمی نابلدیت کی وجہ سے انہوں نے تنظیم کا محور ہی بدل کر غیرفعالیت میں ڈھال دیا ہے جس کی وجہ سے وہ نا صرف خود تحریک کے محور ہدف سے نکلتے جارہے ہیں بلکہ دوسروں کی ٹانگیں بھی کھینچتے نظر آتے ہیں۔

میرا ایک غیرجانبدار بلوچ لکھاری کی حثیت سے ایسے تنظیم، تنظیمی اصول اور تنظیموں امور سے نا واقف، نابلد اور لاعلم لوگوں سے عرض ہے کہ وہ سب سے پہلے تنظیم، تنظیمی اصول اور طریقہ کار کے بارے میں زیادہ اگر ممکن نہیں کم سے کم کچھ نہ کچھ ضرور مطالعہ کرلیں، یہ جان لیں کہ تنظیم اور تنظیمی امور خود کیا ہوتا ہے اور تنظیمی فیصلے تنظیمی و اصولی طریقہ کار سے کیسے عمل میں لائے جاتے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کے ایسے بچگانہ، غیر سنجیدہ اور مضحکہ خیز حرکتوں سے ضرور چند مٹھی بھر غیرسنجید علم سے نابلد سوشل میڈیا اکٹیوسٹ، مراعات یافتہ، چاپلوس، خوشامدی، ضرور خوش اور مطمئین ہونگے۔ ان کے لیئے آپ بلی کو شیر اور شیر کو بلی قرار دو وہ قبول کرچکے ہیں اور قبول کرتے رہیں گے لیکن پوری بلوچ قوم ایسی نہیں، ایسے بھی بلوچ بہت ہیں جو سیاسی حوالے سے باعلم اور پختہ ہوکر ایسے بچگانہ حرکتوں کو دیکھ کر ان کے پاس ہنسنے کے سوا اور کچھ نہیں، دنیا میں اور بھی مختلف مکاتبِ فکر کے انتہائی زیرک قسم کے ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جن کی نظر اس وقت بلوچ قومی تحریک پر فوکس ہے، وہ بھی سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور وہ آپ لوگوں کی طرح تنظیم اور تنظیمی امور سے نا بلد بھی نہیں ہیں۔

آپ قوم اور اہلِ دانش کی نظروں میں ایک مزاق بنتے جارہے ہیں، شاید آپ لوگوں کو اس بات کا گمان بھی نہیں ہے اور آپ لوگوں کو یہ بھی اندازہ نہیں ہوا کہ آپ لوگ اپنے اس سارے کھیل اور ڈراموں کے ذریعے خود اسلم بلوچ اور بشیرزیب کو صحیح ثابت کررہے ہو۔ اگر کسی میں تھوڑا بہت علم و شعور اور اس کو تنظیمی امور پر عبور اور تجربہ حاصل ہے، وہ آپ کے ان حرکات سیاسی نابالغی یا بوکھلاہٹ ہی کہہ سکے گا۔

صرف اور صرف رٹے بازی، سنی سنائی باتوں پر قیاسات کے محل تعمیر کرنا اگر علم و شعور کا معیار ہوتا تو دنیا میں اس وقت سب سے ذہین، باشعور اور باعلم جانور طوطا ہی ہوتا۔ دنیا کی دیگر تحریکوں کے بارے میں غلط تشریحات کرکے، انہیں خلط ملط کرکے اپنے ذاتی مفاد، خواہش اور مرضی کی مطابق پیش کرنا ہرگز دانشمندی نہیں ہوتا۔ ذمینی حقائق، اپنے وسیع ماحول سے عدم واقفیت، مخصوص و محدود سرکلوں میں مقید ہوکر خلا میں تیراندازی کرنے کا نتیجہ ہمیشہ زوال ہوتا ہے۔

اگر تھوڑی بہت شعور اور عقل ہوتی تو بہتر انداذ میں یہ تجزیہ ہوتا کہ کل کی حمایت، طاقت، باصلاحیت لوگوں کی اکثریت کہاں چلی گئی؟ آج ادھر ادھر سے تمام سست و کاہل، کام چور، مفاد پرست درباریوں، چاپلوسوں اور پیداگیروں کو اکٹھا کرکے تنظیم اور ڈسپلن کا نام دینا اور خوش فہمی میں مبتلا ہونا۔ عنقریب یہ ارگرد کے مفاد پرست خود ایسا درد سر بن کر رہینگے جس کا اندازہ آج کسی کو نہیں ہے، ہر ایک کے ذاتی مفادات اور ذاتی خواہشات کا آپسی ٹکراو آج سے شروع ہے، مستقبل قریب میں کیا ہوگا وہ آج خود ظاہر ہے۔

ہاں اگر سب کچھ مخصوص ایجنڈے کے تحت رفتہ رفتہ ختم کرنے کی پالیسی تھی اور پالیسی ہے، تو سب کچھ صحیح چل رہا ہے اور اسی طرف آپ اور آپ ٹولہ بالکل جارہا ہے۔ لیکن پھر بھی کامیابی نہیں ملی آپکو کیونکہ بی ایل اے کے مخلص، ایماندار، محنتی، بے غرض اور قربانی کے جذبے سے سرشار دوست آج بھی اور کل بھی اور مستقبل میں بھی اپنے حقیقی وجود کے ساتھ قائم تھے اور قائم رہینگے۔