تم کامیاب ہوگئے ریحان ۔ عائشہ بلوچ

345

تم کامیاب ہوگئے ریحان

تحریر۔ عائشہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ریحان جان اس شخصیت کا نام ہے، جس نہ اس چھوٹی سی عمر میں وہ کرکے دکھایا، جو میری سوچ سے بہت آگے ہے۔ ریحان جان نے یہ ثابت کردیا کہ سوچ کا عمر سے کوئی تعلق نہیں، واقعی ریحان جان تم نے جو کہا وہ کرکے دکھایا مجھے یاد ہے آج بھی جب تم بارہ سال کے تھے تب تم نے کہا تھا کہ میں انشااللہ فدائی حملہ کرونگا، دشمن پر۔۔۔ میں بہت زیادہ ہنسی تھی اور میں نے کہا تھا ریحان بولنا بہت آسان ہے اور تم خود بھی میرے ساتھ ہنسے تھے، اپنے صفائی میں اور کچھ بھی نہیں کہا تم نے۔

ریحان جان آج میں بہت شرمندہ ہوں، پھل تمہارے عمل و سوچ کے سامنے، تم نے جو کہا وہ کر دکھایا۔ اس دن کے بعد کبھی بھی تم نے مجھ سے اس بات کا ذکر نہیں کیا اور نہ کبھی بڑی بڑی باتیں کیں، پھل میں تو اس بات کو مزاق سمجھ کر بھول گئی تھی لیکن تم نہیں بھولے تھے، کیونکہ تم مذاق نہیں کررہے تھے۔ پھل تمہارا مقصد تب ہی سے تمہارے ساتھ تھا، آج تمہارے بارے میں لکھنے کو بہت دل کرتا ہے، مگر بہت مشکل سے لکھ پاتی ہوں، میں جانتی ہوں تمہارا عمل میری لفظوں کا محتاج نہیں، پچپن سے لیکر تمہارے الوداع کہنے تک کا سفر بہت یاد آتا ہے، ایک ساتھ اسکول جانا، مستی مذاق، لڑنا جھگڑنا سب کچھ تمہارے وہ پیاری باتیں، گھر میں داخل ہوتے ہی میرا نام لینا آج بھی تمہاری آواز میرے کانوں میں گونجتی ہے، ریحان بہت زیادہ فخر ہے مجھے تم پر، تم نے ہم سب کو حوصلہ دیا ہے، ہمیں جذبہ دیا وطن سے کس حد تک محبت کرتےہیں وہ سکھایا ہے۔

میری مایوسی کو توڑدیا تم نہ، میرے اس کمزور دل کو مضبوط کردیا، اپنے عمل سے۔ پہلے بھی تم عظیم تھے جب بھی کوئی تمہیں ڈانٹتا تھا، تم مسکراتے کسی کے ناراضگی کو بھی مسکرا کر سہہ لیتے۔ تم نے کبھی بھی کسی کو ناراض نہیں کیا، تمہاری مخلصی ہی تمہاری عظیم ہونے کا ثبوت ہے۔

میں نے تم سے کہا تھا نا کہ میں تمہارے بغیر کیسے رہونگی لیکن آج تم میرے ساتھ ہو، تم زندہ ہو میری سوچ میں میری باتوں میں میری یادوں میں تمہاری باتیں ہمیشہ میرا ذہن میں ہیں، تمہارا وہ مسکراتا چہرہ ہمیشہ میرے سامنے ہے۔ میں نے کبھی بھی تمہیں مایوس نہیں دیکھا، ایک بار پوچھا بھی تھا تم سے ریحان تم ان حالات میں مایوس نہیں ہوتے؟ تمہارا مسکرا کر جواب دینا کہ “نہیں بلکل بھی نہیں۔” تب میں نہ کہا تھا “ارے تم تو بہت ہی پے پروا ہو۔”

تب بھی تم نہ مسکرا کر کہا تھا “اس میں پرواہی کی کیا بات ہے؟” تم بالکل بھی پے پروا نہیں تھے، پھل آج یہ ساری باتیں بہت تکلیف دیتی ہیں، جب بھی میں تمہارے مقصد تمہارے عمل کے بارے میں سوچتی، دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ہاتھ لرز جاتے ہیں اور جب ماں باپ کے بارے میں سوچتی ہوں کہ کیسے انہوں نہ تہمیں ہنستے مسکراتے رخصت کیا اور آج تم پر فخر کر رہے ہیں تو میرا حوصلہ خود مضبوط ہوجاتا ہے، دل خود بہ خود بڑا ہو جاتا ہے۔ ریحان جان! تمہاری سوچ آج ہر جگہ موجود ہے۔ سب میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو گیا ہے، تم کامیاب ہو گئے، میرے پھل پوری طرح سے کامیاب۔۔۔۔