تصویر کہانی
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
نچھل کردار کا مالک، روایتی کھسر پھسر کی خصلت سے بیگانہ، لاغر بدن، سبز رنگت، سبز شال اوڑھے، ہنس مکھ ،نجم الثاقب چہرہ۔ ازواجی زندگی کے امکان کے طرب سے مسکرانے یا قہقہہ لگانے کی کیفیت اور بے تحاشہ خوشیوں کی لہر کی دھوم میں جھومنا تو انسانی فطری حقیقت ہوتی ہے اور انسان کا خاصہ ہے کیونکہ انسانی زندگی کے ایک اہم پہلو کا آغازہی اذادوجی زندگی میں بندھ کرہی ہوتا ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں، انسان کی باقی خواہشات اذدواجی سے نتھی ہوتے ہیں۔
لیکن یہاں چہرے کی نشاط منگنی کی سبزرنگ شال اوڑھنے کی نہیں بلکہ وطن کی شالِ سہ رنگی میں ملبوس، قزاق اجل گردن پر سوار، بارود سے بھری وین میں سوار جسم کو خاک وطن میں تحلیل کرنا اپنی ذات کو فنا، آنے والی نسل کو تپتی صحرا سے نکال کر نخلستان میں آباد کرنے کی سوچ و قدم، پھر بھی مسکراہٹ، ہنسنا، مذاق کرنا اور دامن قہقہے کی گونج سے خالی نا ہونے دینا۔
آخر کون سی فطرت ہے؟ کون سا جذبہ و احساس ہے؟ کونسا فکر، درد اور کونسا شعور ہے؟ اس شعور کی سطح کیا ہوگا؟ مجھے تعجب ہے، مجھے حیرانگی ہے، مجھے بغض و حسد ہورہا، میں کیوں ایسا نہیں؟ میں کیوں ایسا نہیں بنتا اور نا بن سکا آپ کس خمیر کس خاک کس خون سے تھے؟
ہروقت خندہ زیر لب رہنا، ہنسنا، شالِ منگنی سے فدائین جیکٹ تک آپ نے کمال کیا سب کو لاجواب کیا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔