جبری طور پر لاپتہ کیئے جانیوالے سات طلباء میں سے 3 طلباء زیر سن ہیں۔ جو کسی غیر قانونی سرگرمی کا حصہ نہیں رہے ہیں اور کسی سیاسی تنظیم سے تعلق نہیں ہے۔ لاپتہ طلباء کے لواحقین کا پریس کلب تربت کے سامنے احتجاج
دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق تمپ دازن کے سات طالب علموں کی بھوانی سے فورسز کے ہاتھوں حراست بعد گمشدگی کے خلاف لواحقین نے تربت پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے لاپتہ طالب علموں کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا۔
تمپ دازن سے تعلق رکھنے والے خواتین و بچوں نے تربت پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے سات لاپتہ نوجوان طالب علموں جابر علی ولد الہیٰ بخش، عبدالمجید ولد قادر بخش، عزیز احمد ولد تاج محمد، ساجد علی ولد نذیر احمد، زاہد علی ولد کریم بخش، شعیب احمد ولد پیر محمد اور قدیر احمد ولد محمد موسیٰ کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔
اہلخانہ کا کہنا ہے کہ ان لاپتہ طلباء میں سے تین کم عمر نوجوان ہیں، جن کے شناختی کارڈ بھی تاحال نہیں بنے ہیں اور تمام نوجوان کسی غیر قانونی سرگرمی کا حصہ نہیں رہے ہیں اور نا ان کا کسی سیاسی تنظیم یا پارٹی سے تعلق رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ساتوں نوجوان آپس میں گہرے دوست ہیں اور ہمیشہ ایک ساتھ رہتے تھے جبکہ سیر کی غرض سے مقامی ٹرانسپورٹ کمپنی کی بس پر 21جولائی کو کراچی جارہے تھے کہ راستے میں انہیں تقریباً گیارہ بجے کے قریب بھوانی کے مقام پر فورسز نے حراست میں لے لیا جو تاحال لاپتہ ہیں اور ان کے بارے میں ابھی تک ہمیں کوئی خبر نہیں دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے معصوم ہیں اور وہ طالب علم ہیں۔ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا جس کی اتنی بڑی سزا دی جارہی ہے۔ انہیں انسانیت کی بنیاد پر رہا کیا جائے کیونکہ ان گمشدگیوں کے بعد ہمارے خاندان مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں۔
لواحقین نے چیف جسٹس پاکستان سے ان کی رہائی کے لیئے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا جبکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی، سردار اختر مینگل، وفاقی وزیر زبیدہ جلال، ایم پی اے حاجی اکبر آسکانی و دیگر حکام سے بھی ان کی باحفاظت بازیابی کے لیئے مدد کی اپیل کی۔