ترکی کے صدر طیب اردوان نے کہا کہ انقرہ، روس اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ڈالر استعمال نہیں کرے گا اور الزام عائد کیا کہ امریکی رویہ ’جنگلی بھیڑیے‘ کی مانند ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق ترکی اور روس کو امریکا کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔
اس سے قبل صدر طیب اردوان کی جانب سے ’ہنگامی بنیادیوں پر‘ روس سے انتہائی حساس نوعیت کا ایئر ڈیفنس سسٹم خریدنے کا عندیہ دینے پر نیٹو ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
طیب اردوان نے کہا تھا کہ ’ترکی کو فضائی حدود کے تحفظ کے لیے روسی ساختہ ‘ایس 400 ایس’ کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں معاہدہ طے پا چکا ہے، ہم بہت جلد یہ سسٹم خرید لیں گے۔’
اس حوالے سے ترکی کے صدر نے کہا کہ روس کے ساتھ ڈالر کے علاوہ دوسری کرنسی میں تجارت کی بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے کرغیزستان اور ترکی کے صنعت کاروں سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقات کے دوران واضح کیا کہ ’ہمیں ڈالر کے ذریعے تجارت سے نقصان ہورہا ہے، ہم امید نہیں چھوڑیں گے اور کامیابی ضرور ملے گی۔’
خیال رہے کہ واشنگٹن سمیت نیٹو ممالک اور انقرہ کے درمیان تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک اسٹیل اور المونیم پر نئی ٹیرف عائد کر دیئے تھے، امریکا کی جانب سے مذکورہ اقدام ترکی میں امریکی پادری کی گرفتار کے بعد سامنے آیا۔
پادری اینڈریو برنس پر الزام تھا کہ وہ فتح اللہ گولن کی تحریک اور کردستان ورکرز پارٹی سے روابط رکھتے تھے۔
امریکی فیصلے کے نتیجے میں گذشتہ ماہ ترکی کرنسی لیرا اپنی ایک تہائی قدر کھو بیٹھی تھی۔
امریکا نے روس پر اقتصادی پابندیاں اس وقت عائد کیں جب برطانیہ کے شہر سیلیسبری میں سابق روسی انٹیلی جنس افسر اور ان کی بیٹی کو زہر دینے کا واقعہ پیش آیا۔
امریکا اور برطانیہ نے الزام عائد کیا تھا کہ زہر روسی ایجنٹوں نے دیا۔
دوسری جانب طیب اردوان نے کرغیزستان سے مطالبہ کیا کہ وسطیٰ ایشیائی ممالک کے 60 کروڑ لوگ فتح اللہ گولن سے تمام نوعیت کے رابطے ختم کر دیں۔
امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن نے فوجی بغاوت سے متعلق ترکی کے الزام کو مسترد کیا، تاہم واشنگٹن نے فتح اللہ گولن کو ترکی میں عدالتی کارروائی کے لیے بھیجنے سے بھی انکار کردیا تھا۔
ترکی کے جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن نے امریکا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ترکی کی جانب سے ان کی حوالگی کے لیے کی جانے والی درخواست کو مسترد کر دے۔