بولان کے نام خط از کوہ سلیمان – مرید بلوچ

718

بولان کے نام خط از کوہ سلیمان

تحریر: مرید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

پیارے بولان!
امید کرتاہوں کہ تو ہزاروں غم، دکھ، تکالیف، عظیم فرزندوں کی بیگواہی، شہادت اور دشمن کی زوراکیوں کے باوجود اسی طرح سلامت و سینہ سپر ہے، جس طرح آج سے کئی سال پہلے میں نے آپ کو دیکھا۔ پیارے بولان میں انتہائی شرمندہ ہوں کہ جہاں کبھی گذرے دور میں، میں اور آپ بلوچوں کیلیے محفوظ پناگاہ ہوتے، اور حملہ آور دشمن کے خلاف ایک ہی محاذ پہ ہوا کرتے تھے پر آج کے اس نئی جنگ میں، میں تیرے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کے نہیں چل سکا۔ مجھے فخر ہے تجھ پر اے دوست، کہ تو دھرتی ماں کے بچوں کو آج بھی اسی طرح مہرومحبت سے نواز رہا ہے۔ گو کہ فرزندوں کی شہادت سے، ان کے بہتے لہو کو اپنے آنکھوں سے دیکھ کر تیرا کلیجہ منہ کو آتا ہوگا، پر تیری ہمت و دیدہ دلیری کل کی طرح آج بھی قائم ہے اور تیرے قدموں میں ذرا سی بھی لغزش نہیں۔ میلوں دور ہونے کے باوجود، تجھ پہ جو ستم دشمن نے ڈھائے ہیں، ان سے میں کبھی بے خبر نہیں رہا۔

نواب بگٹی کی شہادت ہو یا غلام محمد و شیر محمد، مجید جان ہو یا کمبر جان یا پھر ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ بلوچ اسیران۔ وہ ذاکرجان ہو یا زاہد جان ،یہ سب سن کے دل و دماغ میرے بھی سن ہوجاتے ہیں۔ میں بھی خون کے آنسو روتا ہوں۔ کیا کیا ظلم تو نے نہیں دیکھا ہوگا، کیاکیا جبر دشمن نے تجھ پہ نہیں ڈھائے۔ لیکن آو کہ تجھے میں اپنی بے کسی و لاچاری کا قصہ سناتا ہوں۔

اے میرے پیارے بولان!

جب سے اپنوں کی کمزوریوں اور دشمن کی چالاکیوں کی وجہ سے مجھے اور آپ کو جدا کیا گیا اس دن سے لیکر آج تک جس کرب میں میں مبتلا ہوں، وہ آپ سے بیان کرتاہوں۔ بولان تو تو خوش قسمت ہے کہ تجھ کو تیرے فرزند دشمن کی زوراکیوں سے بچاںے کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں، پر میرے باشندے آج بھی اسی غلامی کی نیند میں سورہے ہیں۔ راجن پور و ڈیرہ غازیخان جو کبھی بلوچ دھرتی کیلئے دل کی مانند ہوتے تھے، قومی سیاست سے کافی دور ہیں۔ دشمن کی تعلیم و نوآبادیاتی پالیسیوں نے یہاں ہر ایک چیز بدل کے رکھ دی۔ قومی سیاست کا یہاں سے ایسے صفایا کروایا کہ آج یہاں قومپرستی لوگوں کیلئے نئی لفظ لگتی ہے۔ پر شہر سے دور میرے دامن میں رہنے والوں نے ابھی تک بلوچی زبان و دودوربیدگ کو پھر بھی زندہ کیا ہوا ہے۔ جب سے دشمن تجھ پہ حملہ آور ہوا سوچا شاید اس بار میرے سینے پہ رہنے والے بلوچ باشندے تیری رکھوالی کی خاطر تیری مدد کو پہنچیں گے، پر میں غلط تھا کہ جو سوچ دشمن نے یہاں پروان چڑھایا شاید اب کوئی چاکر و نوری ہی پھر سے انہیں خواب سے جگا دے۔ نواب صاحب کی شہادت سے کچھ غم و غصہ وہ بھی سطحی جو غائبانہ نماز جنازہ اور رات کو چراغ روشن کرکے نواب صاحب کو عقیدت پیش کیا گیا،۔ اس کے بعد پھر وہی خاموشی وہی سناٹا جو صرف میں محسوس کرتاہوں کیونکہ باقی تو غلامی قبول کرکے اسی میں جینا ہی مقصد بنا بیٹھے ہیں۔ میں نے تیرا بھی بہت انتظار کیا کہ شاید تو آجائے، یہاں کے بلوچ آبادی کو کچھ سمجھانے، شاید غلام محمد کے عظیم قدم، شاید بی ایس او کے عظیم ساتھی، شاید مسلح ساتھیوں کا کوئی نمائندہ۔ لیکن اس سب میں بھی مجھے مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔ تیرا عظیم فرزند سنگت ثناء آیا تھا جسے دیکھ کر آنکھوں میں جیسے نور آگیا ہو۔ سوچا شاید وہ دوریاں سنگت ثناء کے آنے سے ختم ہو جائیں پر کئی سالوں سے غلامی میں سونے والے ایک ہی لیکچر سے کہاں بیدار ہوتے ہیں اور بعد میں دشمن نے سنگت ثنا کو بھی شہید کیا۔ ان کی شہادت کا سن کر میرے اپنے بلندیوں میں بھی جیسے پستی آگیا۔ ان کی شہادت سے وہ رابطےبھی منقطع ہوگئے۔

ماما قدیر کے آنے سے میں پھر سے زندہ ہوا، تب میں نے محسوس کیا کہ اگر ذرا سی محنت کی جائے تو شاید یہاں سے بھی قوم کے فرزند اپنی آزادی کے کارواں میں حصے دار بن جائیں۔ اب جدید دنیا میں دوریاں پہلے سے کم ہوگئے ہیں، اگر خلوص دل سے کوئی چاہے تو اب نزدیکی ممکن ہے بھٹکے ہوئے راستے کو تلاش کرنا آسان ہے۔

پیارے بولان!

یہ حقیقت ہے یہاں پاکستانی سیاست ایسے سرایت کرچکا ہے کہ اسکو زائل یا رد کرنے میں کافی وقت لگے گا، پر ناامیدی کفر ہے۔ گو کہ دشمن یہاں کے باشندوں کو قومی جنگ سے دور رکھنے کی خاطر ہر طرح کی کوششیں کر رہا ہے۔ یہیں سے ایک کٹھ پتلی کو وزیراعلیٰ بنا کر یہی دکھانا مقصود ہے تاکہ یہاں کے باشندے بغاوت پہ نہ اتر آئیں۔ لیکن جس طرح شاعر کہتا ہے کہ

ذرا نم ہو تو یہ مٹی
بڑی زرخیز ہے ساقی

۔ بہت سی باتیں ہیں جو تجھ سے کہنی ہیں، پر اس ایک خط میں نہیں۔ ایک آخری گذارش تجھ سے کرنا چاہتا ہوں، کہ لوٹ آو مجھے پھر سے اپنے سینے سے لگا لو، اس غلامی کی نیند میں سوئے ہوئے قبائل کو پھر سے آزادی پسند بلوچ بناو۔ ان کی رہنمائی کرو جس طرح تو نے مکران و رخشان کی رہنمائی کی۔

انہی الفاظ کے ساتھ تجھ سے اجازت چاہتا ہوں ۔
سدا سلامت رہنا اے بولان
وسلام۔
تیرا بھٹکا ہوا بھائی
کوہ سلیمان

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔