بلوچ وبلوچستان
قومی جذبہ اور الائنس کیسے ممکن
تحریر: واھگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قومی سوچ، قومی جذبہ اوراس فلسفے کو سمجھنے اور احساس کے بعد ہی غلامی کا شدت سے احساس ہوتا ہے اور تب ہی ایک عام انسان اپنی قوم ، اُس سوچ، اُس جذبے اور فلسفے کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے جذبے کی تعمیر کا سفر شروع کرتا ہے، اور پھر اس کو بخوبی اس سفر کے مشکلات اور قربانیوں کا پتہ بھی ہوتا ہے، پر یہ جذبہ ان مشکلات اور قربانیوں کا سامنا کرنے کی طاقت دیتی ہے اور بغیر کسی شک کے ہر قربانی دینے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اور اسی فلسفے کو زندہ رکھنے کے سفر میں مر مٹنے والے بلوچ فرزند قربانیوں سے سرشار دن رات کام کرتے آرہے ہیں۔ اور یہ قومی کاروان بلوچ قوم کے آخری فرزند کو اس کاروان میں شامل ہونے اور ایک خوشحال آزاد بلوچ قومی ریاست کی تشکیل تک جاری رہے گی۔
بلوچ قوم کو غلام بنانے، اسکی سرزمین کومذہبی دہشت گردی کا اڈہ بنانے اور اس کے وسائل کیلئے دشمن ریاست، تنگ دستی، غریبی، سوشل سسٹم کی تباہی، بلوچ نسل کشی، اس کی پجار ختم کرنے کی ظالمانہ اور غیر انسانی پالیسیوں کو لیکر اپنے قبضے اور ارادوں کو مضبوط بنانے میں نظر آتی ہے۔ اور انہی حالات میں اگر اس قوم کو غلامی سے بیدار کرنے اور انکو اس کے خلاف لڑنے کیلئے اس قوم کے فرزندوں کو ایک قوم ہونے کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ دشمن ریاست کی نسل کش، سوشل سسٹم کی تباہی، قبضہ گیر وغیرہ جیسی پالیسیوں سے آگاہ کرانے اور اسکو اپنا قومی فریضہ بخوبی نبھانے کا جذبہ پیداکرانے کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ ذمہ داری اس قوم کی باشعور اور قومی آزادی کے فلسفے پر چلنے والے فرزندوں کی ہوتی ہے۔ اور آج بلوچ قومی فلسفے کے کاروان کو آگے بڑھانے کیلئے بلوچ قوم کو ایک قوم ہونے کا پکہ بھروسہ دلانے اور ان باشعور بلوچ فرزندوں کو اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے کیلئے وقت سوال کر رہی ہے۔
بلوچ ایک قوم ہے، یہ بلوچ فرزندوں کی بیش بہا قربانیوں کی بدولت ثابت ہو چکا ہے، اور اسے اپنی غلامی کا بھی اندازہ ہے اور اب اکیسویں صدی کے تقاضوں کو سامنے رکھ کراس قومی سوچ اور نظریے کو ہر روز ایک نئے جذبے کے ساتھ احساس دلانے کیلئے ایک مؤثر حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے جو کہ مختلف بلوچ آزادی پسند قومی تنظیموں کی یکجہتی کی صورت میں ممکن ہے۔ جس کا فقدان بڑی بے دردی سے محسوس ہورہی ہے۔
اتنے بلوچ فرزندوں، ماؤں، بیٹیوں، بہنوں کی قربانی ، حتیٰ کہ ظالم دشمن ریاست نے ہماری ماؤں ، بہنوں کو زیادتی کا شکار بنانے کے ساتھ ساتھ انکو شہید اور نفسیاتی مریض بنا دیا، بلوچ فرزندوں کواپنے غیر انسانی ٹارچر سیلوں میں بند کر کے انکو ڈرل اور مختلف اذیتیں دے کر انکی مسخ شدہ لاشوں کو بطور تحفہ پیش کرتے آ رہے ہیں۔ اسکے باوجود اگر ہم اس ریاست کی رچائی ہوئی سازشوں میں حصہ لیتے ہیں تو یہ بھی بلوچ نسل کشی میں حصہ لینے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ اور اتنی بے حسی کسی با شعور کو شیوہ نہیں دیتا اور وہ اپنے برائے نام مقصد اور منزل میں کبھی کامیاب اور مطمئن نہیں ہو پاتا جتنی بھی کوشش کرے۔
دشمن ریاست اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، جس کا منہ بولتا ثبوت دشمن ریاست کی پروکسی مذہبی دہشت گرد تنظیموں کا بلوچ نسل کشی میں استعمال ہے۔ پتہ نہیں یہ دشمن ریاست کا ڈر ہے یا پھر اسکا جھوٹا بھروسہ جو ہر بار دیتا آ رہا ہے اور جو اب بھی کچھ بلوچوں کو الیکشن جیسی ریاستی چالوں میں حصہ لینے پرمجبور کر دیتا ہے۔
اتنی قربانیوں کے بعد اب ایک قومی سوچ اور نظریہ واضح دکھائی دے رہا ہے، جو قبائلی ، علاقائی، لسانیت کی سوچ سے کہیں زیادہ کا جذبہ ہے، پر اس قومی سوچ کو صحیح رُخ دینے اور اس فلسفے کو لیکر ایک آزاد اور خوشحال ریاست بلوچستان کی تشکیل کا سفر باقی ہے۔ اس سفر میں ہمیں قومی سوچ، نظریے اور اس قومی فلسفے کے جذبے کو تقویت دینی ہوگی۔ اس نظریے کو پختہ کرنے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ نسل کشی، بلوچوں کی معیشت اور سوشل نظام تباہ کرنے کی دشمن ریاست کی ظالمانہ پالیسیاں سخت سے سخت تر ہونگی پر ہر باشعور بلو چ فرزندکو اس کے مقابلے میں ان پالیسیوں کے ہوتے ہوئے ہوشیاری اور عقل مندی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ تو طے ہے کہ بلوچ قوم ایک آزاد ریاست کے ساتھ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے وجود میں آئے گا۔ کب آئے اور کیسے آئے یہ اب خود بلوچ قوم پر منحصر کرتا ہے نا کہ کوئی ایٹمی طاقتور ریاست۔
مختلف طریقوں سے بلوچ قوم اپنی آزادی اور اپنا وجود دنیا کے سامنے منوا سکتا ہے ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
(1 اگر بلوچستان کی آزادی کسی اور ملک کی مفاد میں ہو تب ایک ریاست وجود میں آتی ہے اور تب وہ ملک کس حد تک ہماری آزادی ہمیں دلا سکے گا یا بلوچ قوم اپنی ہوشیاری اور عقل مندی سے اس دوسرے ملک سے فائدہ اٹھا کر بلوچ قوم کو قومیت کے جذبے سے سر شار کرا کر بلوچوں کو ایک جھنڈے اور اس پر کام کرنے کا جذبہ دینے میں کامیاب ہوگا۔ اگر ایسا کرنے کے اہل نہیں تو ہم تب بھی غلام ہی رہیں گے فرق صرف ایک کی غلامی سے نکل کر دوسرے کی غلامی کا ہو گا۔
(2 اور اسی طرح بہت سارے مشکلات، بہت ساری تکلیفیں، اذیتیں اور بہت ساری قربانیوں کے بعد شاید دنیا کے برائے نام انسانیت پسند لوگ جاگ اٹھیں اور بین الاقوامی قوتوں سے ایک آزاد ریاست کا وجود ممکن ہو اور اس میں ہمیں پھر بھی اپنا سوشل نظام سنوارنے کیلئے قومی جذبہ پیدا کرانے کیلئے الگ سے مشکلات سے گزرنا پڑے گا، جہاں پھر قربانیاں دینی پڑیں گی، اور بہت سارے evolutionاور revolutionکے بعد ایک خوشحال آزاد بلوچ قوم اور بلوچستان کی تشکیل سامنے آئے گی۔
(3 اپنی قومی سوچ، نظریے، فلسفے کے جذبے کو لیکر اپنے علم و زانت اپنی تربیت سے مشکلات کو آسان اور قربانیوں کو کم کرا کے ایک خوشحال آزاد ریاست وجود میں لا سکتے ہیں، جو مجھے لیڈر شپ کے بنا ممکن نظر نہیں آتا۔ جنہیں دوسرے ملکوں کو اپنی علم اور ہنر سے اپنی آزادی کیلئے بخوبی استعمال کرنا آتا ہو، جسے دشمن ریاست کی پالیسیوں کا وقت اور حالات کے مطابق اندازہ ہو، جو ماضی ، حال اور مستقبل کے اندیشے کا علم رکھتا ہو، جو اپنے باتوں اور عمل سے بلوچ قوم کو ایک قوم ہونے اور اس کے فلسفے پر چلنے کا مؤثر بھروسہ دلا پائے۔ اور بلوچ قوم کو اپنا دفاع، اور اپنی حفاظت کرنے اور دشمن سے لڑنے کا صحیح اور موؤثر تربیت دینے کا اہل ہو۔ تب جا کر ایک قوم آزاد ریاست کے ساتھ ساتھ اپنی سوشل نظام اور معیشت کو سنوار کر ایک خوشحال قوم کی حیثیت سے وجود میں آئے گا جو کہ باقی دنیا کے مہذب قوموں کے ساتھ مل کر انسانوں کی خوشحالی، ، دنیا کی ترقی اور امن کیلئے پیش قدم رہ پائے گا۔
میں اب بھی شاید confusionکا شکار ہوں کہ بلوچ ایک قوم ہے تو عام بلوچ کو اس قومیت کا جذبہ کتنا ہے کیا وہ اپنی اصل قومیت کے فلسفے سے واقف ہیں۔ میں آج دیکھتا ہوں کہ ہر بلوچ اپنی بلوچیت پرفخر کرتا ہے پر وہ اس کے اصل فلسفے اور جذبے سے بہت دور ہے یا پھر وہ انتظار میں ہے کہ پہلے آزادی پسند بلوچ قومی تنظیمیں یکجا ہو گی تب ہم اپنی کارکردگی بھی دکھائے گے؟
اور کچھ چیزیں کچھ وجوہات اب بھی ہیں جو تقسیم کو بڑھاوا دے رہے ہیں جو کہ دشمن ریاست ان سے بخوبی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اور یہ خامیاں اور کوتاہیاں بلوچ قوم نے خود ٹھیک کرنی ہیں۔
قومیت کا جذبہ بابا خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی، واجہ صباء قندیل، واجہ غلام محمد، بلوچ گوریلا کمانڈر بالاچ مری اور ان جیسے ہزاروں بلوچ شہداء میں تھا جنہوں نے اپنی ذاتی جذبوں کو پس و پشت ڈال کر صرف اور صرف بلوچ قومی جذبے پر قربان ہوئے۔ انکو بخوبی پتہ تھا کہ اس فلسفے پر شہید ہونے والے اپنے جیسے ہزاروں پیدا کریں گے جو انکی سوچ اور فلسفے پر کام کریں گے۔ پر کہاں ہے وہ جذبہ وہ قومیت اور بلوچیت کا جذبہ، اب بس ریاست کی سازشوں کا حصہ بن کر خود کی نسل کشی کا جذبہ رہ گیا ہے؟
پتہ نہیں کس جذبے نے آج مجھے اپنوں سے گلہ کرنے کا احساس پیدا کر لیا۔ گلے اور شکوے کا احساس اپنوں سے ہوتا ہے، ایک دشمن ریاست سے مجھے کوئی گلہ نہیں، یہ اپنا نہیں غیر ہے،اور ظالم دہشتگرد دشمن ہے۔پر وہ وقت دور نہیں کہ اس دشمن کوبلوچ قوم انصاف کے کٹہرے میں لا کر اسکے ظلموں کا حساب لے گا اور بہت سخت لے گا۔ اور قوموں کا انصاف تاریخ کرتی ہے اور ظالموں کی تاریخ تلخ ہوتی رہی ہیں۔ اس دشمن ریاست اور اسکے معاونین کا حساب بلوچ قوم کے ساتھ تاریخ لے گی۔ تاریخ حساب لے گی بلوچ فرزندوں کی شہادت، عورتوں اور بچوں کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ عورتوں کو زیادتی کا شکار بنا کر انکو شہید کر دینا،عام بلوچوں کو ریاست ہگواہ کر کے ٹارچر سیلوں میں اذیتیں دیکر ان کی مسخ شدہ لاشوں کا ویرانوں میں پھینکنا، با شعور بلوچ طبقے کا ٹارگٹ کلنگ کرنا، بلوچستان میں ریاستی فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ اپنی پراکسی مذہبی دہشت گردوں کوٹھکانا دے کر انکو استعمال کر کے بلوچ قوم کے سوشل سسٹم کی تباہی کے ساتھ بلوچ نسل کشی، چاہے وہ وکیلوں پر خودکش حملہ، کوئٹہ پولیس ٹریننگ پر حملہ یا اس جیسے کئی اور واقع میں ملوث ہے۔ ان سب کا حساب تاریخ لےگی اور بلوچ قوم کا قومی جذبہ تاریخ کو ان سے حساب لینے پرمجبور کرے گا۔
پر مجھے گلے ہیں، مجھے گلے اپنوں سے ہیں، اور مجھے لگتا ہے یہ گلے ہر بلوچ کو سب سے پہلے خود سے کرناچاہیئے۔ اور بہت سالوں بعد میں خود سے شکوہ کرپایا اورنتیجہ یہ کہ آج میں یہ شکوے لکھ پا رہا ہوں۔ جو مجھے بہت پہلے خود سے کرکے اس پر کام کرنا چاہیئے تھا، پر افسوس کے میں بھی ایک تماشائی کی سی ظلم دیکھتا رہا کہ ظالم کب تک ظلم کرے گا اور اس انتظار میں کہ کب بلوچ اکٹھا ہونگے، کب ایک قوم نظر آئے گی، کب آزادی پسند با شعور بلوچ اپنی صلاحیتوں کے مطابق بلوچیت اور بلوچ قومی تنظیموں کی تنظیم کاری پر مؤثرکام کریں گے کہ میں اپنی جان ندر کرنے سے نہ گھبراؤں ، مجھے اس قومیت اور اس جذبے کیلئے ہوشیاری اور عقل مندی سے کام کرنے کے علاوہ کچھ نظر نہ آئے، جس پر ہزاروں شہیدوں نے اپنی جان بغیر کسی ذاتی غرض کے قربان کر دیئے۔
میرا اول گلہ مختلف بلوچ آزادی پسندتنظیموں کے سربراہوں سے ہے۔ حالانکہ یہاں پر یہ (سربراہ) لفظ استعمال کر کے میں خود عجیب feelکر رہا ہوں۔ پر حقیقت یہی ہے۔ اور ہربلوچ آزادی پسند معتبر شخص یا گروپ اپنے علم اور زانت سے اپنے ہی ہم نظریہ دوسرے بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی ساخت اور اس کے ایک نظریے پر چلنے والے مختلف خیال سے اختلاف کر کے اپنی تنظیم بناتے آ رہے ہیں۔ یا پھر کسی اور وجوہات کی بنا پر مختلف الگ بلوچ آزادی پسند تنظیمیں بنیں ہیں۔ یا پھر شاید میں غلط ہوں!
اس بات سے کوئی بھی بلوچ آزادی پسند شخص لاعلم نہیں کہ یہ تقسیم دشمن ریاست کی بلوچ قوم پر اپنی حاکمانہ سوچ کی بنیاد ہے۔ اور میرے پاس بلوچ قومیت پر اتنا علم نہیں جتناعلم جتنی صلاحیت ایک بلوچ آزادی پسندتنظیم کے سربراہ کے پاس ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ ایک تنظیم بلوچ قومی نظریے پر بنا پاتے ہیں، پر بہت ساری صلاحیتوں کو utilizeکر کے آپس کی دوریوں کو مٹانے میں سست نظر آتے ہیں۔ جب مجھ نا زانت بے عقل، بے علم انسان کو اتنا سمجھ آ گیا کہ بلوچ و بلوچستان ایک فلسفہ، ایک نظریہ، ایک فخر، ایک سوچ اور ایک بہت بڑی طاقت ہے ، جس سے مجھے مری، بگٹی، رند، رئیسانی، بنگلزئی، لانگو، زہری، مینگل، گوادری، آوارانی، تربتی ، مندی، چابہاری، بنپشتی ، سندھ میں رہنے والے بلوچ، یا بلوچستان کی سر زمین سے باہر رہنے والے بلوچ ، جن میں اچھے ،بُرے، چور ، لٹیرے وغیرہ سب مجھے پہلے بلوچ لگتے ہیں پھر کسی اور catagory میں آتے ہیں انکو پہلے میں بلوچ جانتا ہوں پھر کچھ اور سمجھتا ہوں۔ اور جو بلوچ قومی نظریے پر کام کر رہے انکو خودکے قریب پایا۔ اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ میں بلوچ قومی نظریے پر نہ چلنے والوں کو خود سے دور سمجھتاتھا جو مجھ سے اور دور ہوتے گئے، جس کا مجھے پچھتاوا ہے۔ پر اب جب دیکھتا ہوں تو میں اکیلا نہیں بہت سارے ہیں میرے ساتھ بلوچ شہیدوں کی لہو ہیں ،میرے ساتھ آج ایک قومی نظریے اور اس پر کام کرنے والے میرے سنگت ہیں اور بہت سے ایسے دکھتے ہیں جو کام کرنا چاہتے ہیں پر ریاستی ڈر کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہے، جن کیلئے ہم سب نے مل کر ایک راستہ ہموار کرنا ہے تاکہ وہ بھی اپنی صلاحیتوں سے بلوچ قومی جذبے کی پاسداری کر سکیں۔
تو اب ادھر میں کیسے مان لوں کہ سب آزادی پسندبلوچ تنظیمیں ایک قومی نظریے پر بنیں ہیں، جو بلوچ قوم کے قومی جذبے اور ایک قومی نظریے پرالگ الگ کام کر رہی ہیں، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ بلوچ قوم کو دھوکا دے رہیں ہیں یا دشمن ریاست کی رچائی ہوئی گھناونا سازش ہے، یا بلوچوں کی تقسیم اور انکو منظم نا بنانے کی دشمن ریاست کا tacticہے۔ اگر واقعی ایسا نہیں ہے تو آج جب وقت چلا چلا کے کہہ رہی ہے کہ ہمیں ایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے تو ہم بہرے کیوں ہیں؟ اگر آپ بلوچ و بلوچستان کے فلسفے سے واقف ہیں تو اس امر کو سمجھ کر جان کر ایک ہونے اوراپنی یکجا صلاحیتوں اور قوتوں کو ایک ساتھ مل کر صَرف کرنے پر کام میں تیزی کیوں نہیں لاتے۔ یا صرف سربراہ ہونے کی دوڑ ہے؟ جو کہ میری کم عقلی ہے۔ یا پھر یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو حل ہونے میں وقت لگتا ہے؟ شاید۔
پر مجھے افسوس ہوتا ہے خود پر کہ میرے پاس وہ دماغی صلاحیت یا میرے علم اور تربیت میں کمی کہ میں اپنے ہی قوم کی نفسیات سمجھ کر اسی حساب سے تنظیم کاری اور اداروں کو تشکیل دے کر بلوچ قوم کو بھروسہ دلاکر اس کی یکجہتی عمل میں لائے۔
کیا ہم میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اس دشمن ریاست کی ظالمانہ پالیسیوں کو کاؤنٹر کر سکیں؟ کیا ہمارا نظریہ، ہماری سوچ اتناکمزور ہے کہ ہم اپنے ہم خیال ساتھیوں کا پہچان نہیں کر پا رہے؟ یا ان ہم خیال ساتھیوں کو ایک ساتھ لیکر کر چلنے کے اہل نہیں؟ یا پھر ہم کسی دوسرے باہر والی طاقت کا انتظار کرے کہ وہ ہمیں لیڈر دے گا اور ہماری قوم کو آزادی؟ کیا بلوچ قومی نظریہ، جذبہ اتنا کمزور ہے کہ ایک نااہل ریاست جو کے نا اہل جرنیلوں کے ہاتھ ہے جو مذہبی دہشت گردی کو فروغ دے کر اپنے اکاؤنٹس بھر رہے ہیں ، انکو شکست دیں۔ کیا بلوچ قومی نظریہ قومی فلسفہ اتنا کمزور ہے کہ دشمن ریاست کی بنائی ہوئی تقسیم سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ جو ہر کسی کو پتہ ہے کہ تقسیم میں غلامی کرنا کتنا آسان ہے ۔ پر میں نہیں مانتا کہ ایک قومی فلسفہ اتنا کمزور ہو سکتا ہے۔ قومی فلسفہ، قومی جذبہ ایک قوم کے فرزندوں کو اپنی جان خوشی سے قربان کرنے کا جذبہ دیتا ہے، پر ایک قومی جذبے میں اپنی انرجی ایک ساتھ ایک ضبط میں صَرف کرنے کا جذبہ نہیں دیتا؟ کیا ہمیں اس فلسفے پر جان قربان کرنا اتحاد کرنے سے زیادہ آسان لگ رہا ہے؟ یا یہ کچھ اور ہے جس میں confusionکا شکار ہیں؟
ایک قومی فلسفے پر اکٹھا ہونا، اس پر کام کرنا اور پورے قوم کو اس جذبے کا احساس دلانا، یہ سب بلوچ خود ہی ممکن بنا سکتا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے؟
آج وقت ہر باشعور بلوچ کو اس نظریے پر کام کرنے کی مانگ کر رہاہے، ہر بلوچ فرزند اپنے صلاحیت کے مطابق حصہ ڈالے، تاریخ میں سرخ رو ہو جائیں گے۔ اپنے اندر قومی جذبے کو وقتی نظر انداز کرکے آپ کو پچھتاوے اور شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ وقت ہے خود کو قوم پر utilizeکرنے کی، ضرورت ہے بلوچ قومی جذبے کے ساتھ دشمن کو للکارنے کی، وقت کی ضرورت ہے ایک آزاد خوشحال بلوچ ریاست کی، جو کہ ایک قومی جذبے سے ممکن ہے۔اور جہاں قومی سوچ ہوتی ہے وہاں ذاتیات compromiseہوتے ہیں، کیونکہ قومی سوچ ایک ہونے کا نام ہے، اور یہ سوچ اکٹھا ہوکر ایک ساتھ کام کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور ایک قومی نظریے کو تنقید برائے تعمیر سے مضبوط بنانے کی جرأت دیتی ہے۔ ایک قومی فلسفے پر اس قوم کے فرزند اپنی جان، ماں باپ بہن بھائی رشتہ دار عزیز سب قربان کر دیتے ہیں ، تو ایک قومی سوچ پر اکٹھا ہونا کیسے ممکن نہیں۔
اگر اسی جذبے پر تنظیمی الائنس اور لیڈر شپ مضبوط ہو تو بلوچ عوام اس نظریے پر کام کرنے کیلئے اپنے لئے آسانی سے گراؤنڈز بنا پائے گا۔ دشمن ریاست بلوچ قوم پر اپنی حاکمیت جاری کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے ہر ہتھکنڈے استعمال کر لے گی، بلوچ قوم پر اپنی پالیسیوں میں بدلاؤ اور سختی لائے گی، ویسے مسخ شدہ لاشوں، اجتماعی قبروں اور عورتوں کی زیادتی سے زیادہ سخت اور کیا ہونا ہے، پر اب ان پالیسیوں کو کاؤنٹر کرنے کا وقت ہے، ان کی ظالم، غیر انسانی پالیسیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اور یہ سمجھ ہمیں اپنانا ہے اس کو ایک آواز ہو کر عام بلوچ کو اس کا احساس دلانے کے ساتھ دنیا کے مہذب قوموں کو باور کرا کر انکا بھروسہ جیتنا ہے۔
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اس جذبے سے بلوچ قوم پورے بلوچستان کو بند کر دیتے تھے، دشمن ریاست اس چیز سے تذبذب کا شکار تھا، پر اس جذبے میں کمی آئی اس جذبے کی شدت میں کمی آئی، اسکی سب سے بڑی وجہ دشمن ریاست کی ظالمانہ اور غیر انسانی پالیسیوں اور مختلف سرنڈر جیسےdiscourse اور کچھ بے ضمیر ، بیوقوف، نادان بلوچوں کو پیسے اور طاقت کا لالچ دے کر انکو اپنے ہی قوم کی نسل کشی میں حصہ دار بنانے کی پالیسیاں شامل ہیں۔
پر اس شدت میں کمی آنے کی ایک وجہ آزادی پسند بلوچ تنظیموں کی تقسیم اور اس تقسیم کو ختم کرنے کی انکی کوتاہی، اور اس تقسیم کا دورانیہ ہے ، جس کی وجہ سے عام بلوچ نے وقتی نااُمیدی اپنے اندر دبا رکھی ہے ، جسے ایک ہو کر ختم کیا جا سکتا ہے۔
دشمن ریاست کا کام ڈرانا، دھمکانا، مارنا، ایک قوم پر طاقت سے حکمرانی کرنا ہے، پر بلوچ آزادی پسند تنظیموں کا کام ہے بلوچ قومی جذبے کی پاسداری کر کے عام بلوچ کو اس کا احساس دلانے اور انکو ان پر اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی مؤثر کوشش کرنا ہے۔ اوریہ الائنس اور اچھی لیڈرشپ سے ہی ممکن ہے۔
کیا ہم میں اتنی قابلیت نہیں کہ ہم الائنس کو ممکن بنا سکے؟ کیا ہماری نفسیات کا ہم سے زیادہ دشمن پنجابی ریاست کو پتہ ہے، جو ہمیں غلام بنایاہوا ہے؟ کیا واقعی سب آزادی پسند بلوچ تنظیم کے سربراہاں، انکے کارکناں اور اتنے سارے بلوچ اتنے نا اہل ہے کہ ایک قومی نظریے کے جذبے کو اپنے ہی لوگوں تک اپنے کردار اور عمل سے ممکن بنائے۔ واقعی اتنے نا اہل ہیں کہ ایک دوسرے کو سراہنے سے زیادہ ایک دوسرے کو نیچہ دکھانا آسان لگتا ہے۔ ہم اتنا نا اہل ہیں کہ اپنی دماغی صلاحیتوں کو اپنی قومی بقا اور دشمن ریاست کی غیر انسانی پالیسیوں کے خلاف استعمال نہیں کر سکتے۔ ہم میں اتنی اہلیت نہیں کہ ہم اپنے لئے اپنی نفسیات کے مطابق ایک خوشحال معاشرے کا خاکہ تیار کر سکیں، جس کی خواہش ہر بلوچ فرزند کو ہے جس میں وہ اپنی سوچ اور صلاحیت کے مطابق اپنا حصہ ڈال کر اس کو عملی جامے پہنانے میں اپنا قومی فریضہ ادا کر سکے۔ ہم ہر بلوچ کو یہ باور کرانے میں نا اہل ہیں کہ قومی سوچ ، قومی نظریہ اور اسکے اصل فلسفے کو جان کر اس پر کام کرنا ہی بلوچ قوم کی بقا کا واحد راستہ ہے ۔ ہم مذہبی دہشتگردی،معاشی، چور اور لٹیروں کا اڈہ، تعلیمی، سائنسی وغیرہ حوالے سے پوری دنیا کے سامنے بدنام، ناکام اور نا اہل ریاست سے بھی نا اہل کہ جس کی اب تک ہم غلام ہیں؟
غلام بن کر دشمن ریاست سے ڈرتے ہوئے اسکی زبانی بول کر اپنے survivalکو بڑھاوا دینے والے عام بلوچ ایک آزادی پسند بلوچ قومی لیڈر اور ان سب کو ایک کرنے کے انتظار میں ہیں۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ کب ہمیں دشمن ریاستی دھوکے، سازشوں ، ہتھکنڈوں سے چھٹکارا دلا پائیں گے، یہ سوال ہر باشعور بلوچ سے قوم کر رہی ہے۔ ہم اتنا نا اہل ہیں کہ اپنی تقسیم میں دشمن ریاست کی سازشوں اور اپنی کوتاہیوں میں واضح پہچان نہ کر سکیں؟
بلوچ مسلح تنظیموں کا کردار بلوچ قومی بقا اور آزادی کیلئے نمایاں رہا ہے اور انکی قربانیوں اور انکی جہد کو بلوچ قوم نے کبھی رد نہیں کیا ہے، اور انکے جذبے اور طاقت سے بلوچ قوم خود کو محفوظ اور ان کی اتنی بڑی قربانی کا احساس کر کے ہی وہ عام زندگی میں اپنی صلاحیت کے مطابق اپنا کردار نبھانے میں پیش پیش رہے، پر انکی تنظیمی ساخت میں کمی اور خامی ہیں، کیاہمیں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں، عام بلوچ کی نفسیات، اور ریاستی سازشوں کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہے؟ جس کو سمجھ کر مسلح تنظیمیں اپنی تنظیم کاری، اداروں کی تشکیل اور اپنی جنگی حکمت عملی بہتر بنا کر دشمن سے مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم سے ایک مضبوط ربط پیدا کر پائیں گے۔ دشمن ریاست کی پالیسیوں کو سمجھ کر ان کے خلاف بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیمیں اپنی گوریلا جنگی tacticsمیں بدلاؤ کے ساتھ اپنے بلوچ ہم سفر مسلح دوستوں کو تنظیمی ساخت ، تنظیمی پالیسیوں میں کردار ادا کرنے پر زور دینا ہو گا۔ انکو اپنے ہی صلاحیتوں اور قابلیت سے آشنا کرا کر کم وسائل میں مختلف اور بہتر حکمت عملی کی طرف سراہنا ہوگا۔ اور مختلف آزادی پسند مسلح تنظیموں کے ساتھ مل کر اسے ممکن بنا پائیں گے تب جا کرایک خوشحال آزاد ریاست بلوچستان کی تشکیل دینے کا منزل آسانی سے طے کر پائیں گے۔ پرکچھ مسلح دوست اپنی قومی جذبے سے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے دشمن کو شکست دے کر اپنی قومی بقا پر کام کرنے کے بجائے نئی ٹیکنالوجی، اور بہت سارے اسلحہ اور جنگی سامان کے انتظار میں مایوس ہوکر سرنڈر جیسی ریاستی سازشوں اور discourseکا حصہ بنتے ہیں۔حالانکہ سرنڈر کرنے کی صرف ایک یہ وجہ نہیں ہے اس میں فیملیزکو دھمکیاں اور اس جیسے کئی اور وجوہات ہیں۔اور اس میں آزادی پسند بلوچ تنظیموں کی ساخت میں خامی، اپنے مسلح بلوچ کارکنوں کو قومی جذبے اور اصل قومی فلسفے سے نا واقف کرانے کی تنظیمی کوتاہی بھی شامل ہیں۔
اور اس کے علاوہ آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں کا دشمن کو شکست دینے کی کاروائیوں میں بلوچ قومی سوچ کس حد تک ایک عام بلوچ میں پروان چڑ ھ سکتی ہے۔ مختلف سازشوں اور دھوکوں میں آ کر ایک دن سرنڈر کردہ مسلح بلوچوں کو پچھتاوا ضرور ہو گا، پر مسلح تنظیموں کا مختلف سازشوں پر سرنڈر کردہ بلوچوں میں فرق واضح کر نے کے ساتھ اسکی تذلیل اور غیر انسانی طریقوں سے سزا دینے سے گریز کرنے پر مؤثر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حتیٰ کے دشمن کو مار کر اسکی لاش کی تذلیل کرنے سے بھی انسانی emotionsکی وجہ سے آزادی پسند بلوچ تنظیموں پر تنقید ہو سکتا ہے اور ان جیسی چیزوں اور غلطیوں پر دشمن ریاست بخوبی فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ اور یہ نقصان ایک فرد سے ایک تنظیم اور ایک قومی تنظیم سے قومی سوچ اور نظریے کو ہوتا ہیں۔ پر یہ آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قومی جذبے اور کردار سے عام بلوچ کو اپنائیت کا احساس دلائے۔ ایک قومی سوچ، قومی آزادی کی فخر کے ساتھ ساتھ ایک خوشحال آزاد بلوچ معاشرے کی تشکیل دینے میں آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیمیں میں اپنا مؤثر اور بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں جو کہ مختلف آزادی پسند بلوچ تنظیموں کی آپس میں کوآرڈینیشن کو بڑھانے اور ایک ساتھ کام کرنے سے ہی ممکن ہے۔
بلوچ قوم کو اپنی غلامی کا احساس ہے بس اب وہ صرف confusionکا شکار ہے جسے دشمن ریاست کے ساتھ ساتھ باشعور بلوچ اور confuseکررہے ہیں ۔ اب آزادی پسند بلوچ تنظیمیں اپنے قوم کی اس confusionکو دور کرنے میں کیا اور کتنا احساس کر رہے ہیں ، اپنی پوری صلاحیتیوں کو بروئے کار لا کر الائنس کی طرف کیوں نہیں جا رہے۔ کیوں پوری قوم کو ایک ہونے کا جذبہ نہیں دے پا رہے اور یہ الائنس ممکن ہے۔
محدود مدت کیلئے ایک الائنس بنانے کی ضرورت ہے، جوصرف سب آزادی پسند تنظیموں کی الائنس اور اس میں پیش آنے والی رکاوٹوں پر کام کریں، ہر آزادی پسند بلوچ تنظیموں کاایک ممبراس الائنس کا ممبربنے اور اس کے ہی ذریعے اپنے ہی تنظیمی کارکنوں میں الائنس ممکن بنانے کا کیمپین چلائے اور ہر کارکن اپنی پوری صلاحیت اور زانت سے ایک دوسرے کی رائے پر بحث کر کے اس کی ڈرافٹ بنائے ۔ اس الائنس کا دورانیہ محدود رکھیں فرض کریں چھ مہینے کا الائنس اور اس الائنس کا مقصد صرف اور صرف مختلف آزادی پسند بلوچ تنظیموں کا آپس میں ربط بڑھانا اور بلوچ قومی سوچ کی تقویت ہونا چاہیئے۔ ہر آزادی پسند بلوچ تنظیم اپنے باقی سارے کام اپنے مطابق جاری رکھے اس میں الائنس کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیئے۔ اس الائنس کی مدت پوری ہونے تک بلوچ آزادی پسند تنظیمیں ایک دوسرے پر پبلکلی تنقید کرنے سے روکے بلکہ اسی الائنس کے ذریعے اپنی بات سامنے رکھے یا اس الائنس کی مدت پوری ہونے تک compromiseکر لے۔ ہاں اگر دو تنظیموں کا آپس میں کوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ پبلک کرنے کے بجائے الائنس کے ذریعے بحث میں لائیں اور اگر چھ مہینے کی الائنس ہے تو چھ مہینے تک اس چیز گریز کریں۔ اور اگر کوئی تنظیم بلوچ قومی مفاد کیلئے اپنی سوچ اور پہلو کو مدنظر رکھ کر ایک کیمپین چلانا چاہے تو وہ الائنس کے ذریعے دوسری آزادی پسند بلوچ تنظیموں سے اس پر بات کرکے حمایت کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کرے گا اگر حمایت نہیں کرنا تو اس پر پبلک میں تنقید بھی نہیں کرے گا بلکہ الائنس کے ذریعے اپنی رائے سامنے رکھے گا یا اس پر بات نہیں کرے۔ اور وہ تنطیم قومی مفاد میں وہ کیمپین اپنے مطابق چلاپائے گا جس کا اس محدود الائنس کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔ بلوچ قوم کو اپنا اتحاد ممکن بنانے،سب ایک ساتھ مل کر اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لا نے اور ایک قومی جذبے اور ایک قومی سوچ کو تقویت دینے کیلئے ایک محدود تنظیمی الائنس کی تشکیل لازمی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔