بلوچستان میں پرامن سیاسی جدوجہد طاقت کے استعمال کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے – بی ایس او آزاد

242

 بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں تنظیم کے سابقہ مرکزی انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شبیر بلوچ ایک پر امن طالب علم اور سرگرم سیاسی کارکن تھے جنہیں 4اکتوبر 2016کو تربت کے علاقے گورکوپ میں ایک فوجی آپریشن کے دوران انکی اہلیہ کے سامنے سے اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا اور آج دو سال کا طویل عرصہ مکمل ہونے کے بعد بھی انکو منظر عام پر نہیں لایا گیا جس سے انکی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہے۔

بلوچستان میں گزشتہ کئی عرصے سے ریاستی فوج نے اپنے خفیہ اداروں کی مدد سے بیشتر علاقوں کو نو گو ایریا میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔جہاں روزانہ کی بنیاد پر بلوچ نوجوانوں،بزرگوں،بچوں سمیت بلوچ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد لاپتہ کر نے کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے جو ہنوز شدت کے ساتھ جاری ہے،ایک مقفل سرزمین ہونے کی وجہ سے کسی بھی عالمی ادارے کو بلوچستان سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی جس کا عسکری ادارے بھرپور فائدہ اٹھا کر بلوچ فرزندوں کو ماروائے عدالت قتل کرکے انکے لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں جو دنیا کے قوانین کی پاسداری کی نفی کرنے اور پاکستانی عسکری اداروں کی منفی ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کی رپورٹ انکی اہلیہ اور بہن کی مدعیت میں درج کرائی گئی،انکی باحفاظت بازیابی کے لئے احتجاجی مظاہرے کئے گئے،ریلیاں نکالی گئی،پریس کانفرنسز کے ذریعے اعلی اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی حتی کہ اقوام متحدہ جیسے اعلی ادارے سمیت تمام انسانی حقوق کے اداروں کو جبری گمشدگی کے معاملے پر دستاویزی رپورٹ پیش کی گئی لیکن کوئی بھی نتیجہ بر آمد نہ ہوسکا۔عالمی اداروں کی خاموشی اور پاکستانی اداروں کی جانبدارانہ کردار نے جبری گمشدگی کے مسئلے کو تخفیف کرنے کے بجائے مزید سنگین بنادیا ہے جس سے نمٹنا بلوچستان میں انسانی بقاء کے لئے ناگزیر ہے۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں اپنے عروج پر ہے۔پر امن سیاسی سرگرمیاں طاقت کے بھرپور استعمال کی وجہ سے معطلی کا شکار ہے۔سیاسی کارکنان کو اغوا و شہید کیا جارہا ہے،اگر انکے اہلخانہ انکی بازیابی کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو انہیں دھمکیوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں۔لہذا اس سنگین انسانی مسلئے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی جانب توجہ نہ دی گئی تو ایک ایسا انسانی المیہ رونماء ہوسکتا ہے جو اس خطے کے امن و سکون کو غارت میں تبدیل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو دو سال کا عرصہ مکمل ہونے پر 4اکتوبر 2018کو سوشل میڈیا میں کیمپین چلائی جائے گی۔جس میں تمام انسان دوست،قوم دوست،سیاسی کارکنان سمیت سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اور تمام طبقہ فکر کے لوگوں سے اپیل کی جاتی ہیں کہ وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی میں اپنا انسانی اور اخلاقی فرض نبھانے میں لاپتہ افراد کے متاثرہ خاندانوں کا ساتھ دیں