بلوچستان کی مخلوط صوبائی حکومت میں قیام کے 10 روز بعد ہی اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور اتحادی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی صوبائی قیادت نے صوبائی حکومت کی کارکردگی کو “غیر تسلی” بخش قرار دیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی صوبائی قیادت نے بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کی قیادت کو شدید تنقید کا ہدف بناتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے صوبائی اسمبلی کے ارکان کو کابینہ میں پُر کشش وزارتیں دے کر انہیں پارٹی سے توڑنا چاہتی ہے۔
لیکن بلوچستان عوامی پارٹی نے پی ٹی آئی کے صوبائی رہنماﺅں کی تنقید کو بلاجواز قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے صوبائی صدر سردار یار محمد رند نے الزام لگایا ہے کہ بی اے پی کی قیادت پی ٹی آئی کو صوبے کی مخلوط حکومت کے ایک بڑے حصے دار کے طور پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سردار یار محمد رند کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی، بی اے پی کی ‘بی ٹیم’ نہیں۔
سردار یار محمد رند کا کہنا تھا کہ جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کی مہم کے آخری دن تک بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماﺅں نے پاکستان تحریکِ انصاف اور اس کے سیاسی پروگرام کی مخالفت کی تھی لیکن اس کے باوجود انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے بی اے پی کی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا اور پی ٹی آئی نے وزیرِ اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ بھی دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے محسوس کیا ہے کہ ‘بی اے پی’ کا رویہ تحریکِ انصاف کے ساتھ ٹھیک نہیں اور پی ٹی آئی کو صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی تحفظات ہیں جنہیں ان کے بقول ہم وزیرِ اعظم عمران خان تک پہنچائیں گے۔
سردار یار محمد رند نے کہا، “آج ہم نے اخبار میں دیکھا کہ دو بہت بڑے سولر پراجیکٹس کی منظوری دے دی گئی۔ یہ اختیار وزیرِ اعلیٰ کو کسی نے نہیں دیا کہ وہ خود شہباز شریف اور نواز شریف کی طرح معاہدے کریں۔ ہم اس کی مخالفت کریں گے اور ایسے معاہدے اس وقت تک نہیں ہونے دیں گے جب تک انہیں کابینہ اور صوبائی اسمبلی میں زیرِ غور نہ لایا جائے اور اس کی منظوری ان اداروں سے نہ لی جائے۔”
واضح رہے کہ پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی صوبے کی 65 رکنی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری تھی۔ آزاد ارکانِ اسمبلی کی شمولیت اور خواتین و اقلیتوں کی نشستیں ملنے کے بعد بی اے پی کے ارکانِ اسمبلی کی تعداد 24 ہوگئی تھی۔