بقاء کی جنگ
تحریر۔ شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قومی بقاء کی جنگ انفرادی خواہشات کی بنیاد پر نہیں لڑی جاسکتی اور نہ ہی انفرادی خواہشات کو ساتھ لے کر کبھی کوئی اجتماعی مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔ اجتماعی مقصد کے لیئے اجتماعی فکر درکار ہے اور یہی اجتماعی فکر انقلابی طبقے کو ہجوم سے ممتاز کرتی ہے، وگرنہ نام نہاد پریکٹیکل انسان یعنی موقع پرست بننا تو ہجوم کا شیوہ ہے لیکن انقلابی موقع شناس ہوتا ہے وہ موقع کی نسبت کو اجتماعی مفاد میں موڑنے کے فن سے آشنا ہوتا ہے، جب کے سطحی ذہن موقع کی نسبت سے اپنے مقاصد کو لباس کی مانند تبدیل کرتا رہتا ہے۔
ایک عظیم اجتماعی مقصد ہی انسان کو اپنے ذاتی خواہشات سے بالاتر کرسکتا ہے، وگرنہ بقول لیون ٹراٹسکی انسان بغیر مقصد کے کہیں نہ کہیں کمزور پڑ جاتا ہے، جھک جاتا ہے، بک جاتا ہے۔” لیکن جب کوئی اجتماعی عظیم مقصد سے نظریاتی وابستگی ہوگی تب کھٹن حالات میں ذات کو قربان کرنے کے لیے وہ قربانی دی جاتی ہے، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہمارے اپنے سماج میں جب تحریک عروج پر تھی تب دعوے تو بڑے بڑے کیئے گئے لیکن اکثریت دعوؤں کی حقیقت کھوکھلی تھی، کسی نے بھی ذمہ داری نہیں اٹھائی اکثریت نے راہ فرار کو آسان سمجھ کر خود کو تحریک سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ ایسے کردار بھی ہیں جنہوں نے اپنے عمل کو برقرار رکھا اور آج جب کھٹن سے کھٹن حالات میں رہنمائی کی ضرورت ہوئی، تب استاد اسلم جیسے رہنماؤں نے عملی کردار کا ایک معیار قائم کیا کہ جب آپ اس حد تک اجتماعی فکر کی انتہا کو چھو لینگے تب آپ کو منزل ملیگی وگرنہ “کمفرٹ زون” میں بیٹھ کر چند طنزیہ یا مایوس کن جملے ادا کرنے سے اگر آزادی مل جاتی تو آج کردستان کے باشعور فرزند برسرپیکار نہیں ہوتے۔
وہ ایک تسلسل سے برسرپیکار ہیں اور ایک اجتماعی فکر کیساتھ، ان کی علامتی جدوجہد نے نوآبادیاتی قوتوں پر واضح کیا ہے کہ جب تک آپ لڑنا چاہیں ہم لڑ سکتے ہیں، لیکن لڑائی کی بنیاد پر ہم آپ کی غلامی کو تسلیم نہیں کرینگے۔ آج کرد دنیا میں ایک مقام پر پہنچ چکے ہیں، کیونکہ انہوں نے تحریک کی ذمہ داری اجتماعی فکر کے طور پر اٹھائی، حیلے بہانے کرکے کمفرٹ زون میں بیٹھنے کی بجائے انہوں نے راہ عمل کو اپنایا۔ آج ہم جو کمفرٹ زون میں رہ کر، بغیر کسی قربانی بغیر کسی کردار کے مایوس ہونے کی باتیں کررہے ہیں تو کیا آنے والے وقت میں ہمارا کردار انسپائرنگ ہوگا یا کردستان کی بیٹیوں کا جو لڑ رہے ہیں۔
ہم نے ذمہ داری کب اٹھائی تھی؟ ہم تو ٹھیکہ دار بن گئے لیکن تحریک میں نکھار تو ذمہ داری اٹھانے سے بنتی ہے۔ حالات لاکھ مشکل صحیح لیکن ذمہ دار انقلابی ان حالات میں تحریک کی راہ کو نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہم کب تک نوآبادیاتی نظام میں راہ فرار اختیار کرتے رہینگے؟
اگر اس میں ہمیں تھوڑی بہت گنجائش بھی میسر آتی تو شاید ہم بار بار اٹھنے پر مجبور نہیں ہوتے۔ بار بار زخم کھا کر ہم پیچھے ہوجاتے ہیں لیکن یہ مصلحت پسندی آخر کب تلک؟
آج ہمارے تحریک میں ہی کچھ کردار ایسے ہیں جنہوں نے عملی کردار کا ایک معیار قائم کیا ہے، جس کی سب سے بہترین مثال ریحان جان کی عظیم قربانی ہے۔
ہم اگر مایوس ہونے کے لیے ہزار جواز فراہم کریں لیکن اس سے نوآبادیاتی نظام کی گھتی نہیں سلجھنے والی اور نا ہی ہم نوآبادیاتی نظام کو قابل قبول بنا سکتے ہیں، نا ہی ہماری مصلحت پسندی نوآبادیاتی جبر کو ٹال سکتی ہے، جب تک نوآبادیاتی نظام ہے، ہمارے زخم مزید گہرے ہوتے رہینگے اور اس کینسر زدہ نظام کا علاج پیناڈول کی گولی سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے جہد مسلسل درکار ہے اور جہد مسلسل کے لیے اجتماعی فکر وگرنہ ہم بھٹکتے رہینگے، مارے جائینگے، دب جائینگے لیکن پھر اٹھینگے یہ سلسلہ جاری رہیگا کیونکہ نوآبادیات میں ہم پر جبر کی شدت میں کمی یا زیادتی ہوتی رہیگی لیکن یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ہم خود کو اگر کنفیڈریشن کا دھوکا دینگے بھی تو وہ دھوکا جبر کیساتھ ہمارے منہ پر دے مارا جائیگا اس لیئے جب ہم راہ فرار کے تمام آپشن استعمال کرلینگے، تب آخر میں ہمیں دوبارہ مزاحمتی فکر کی جانب لوٹنا ہوگا کیونکہ اسی میں ہماری بقاء ہے اور اسی میں ہماری نجات ہے۔ نوآبادیاتی نظام میں آج تک کسی نوآبادی کو ترقی نہیں دی بلکہ نوآبادکار کے جبر و استحصال کو انرجی فراہم کیا، گذرتے وقت کیساتھ نوآبادکار مزید طاقتور ہوتا چلا گیا جب کہ دیسی مزید تباہ حال اس لیے کہ دیسی نے خود کو نوآبادیاتی نظام میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی اور ایسا کرتے، وہ یہ بھول گیا کہ جو شے نوآبادیاتی نظام میں ایڈجسٹ ہوجائے وہ نوآبادیاتی نظام کا کل پرزا اور نوآبادکار کا مقامی نمائندہ بن جاتا ہے اور دیسی کے نجات کی راہ میں سب سے بڑا رکاوٹ۔
آج نوابادکار کو نمائندوں کی کوئی خاص کمی نہیں لیکن آج دیسی کی تحریک کو انرجی کی ضرورت ہے اور اس کے لیئے ہمیں اجتماعی فکر سے لیس ہوکر تحریک آزادی کو اپنی اولیں ترجیح بنانا ہوگا۔
تمام ہم فکر دوست جو تحریک آزادی سے ہمدردی رکھتے ہیں، وہ تحریک آزادی کو منظم کرنے کے لیئے اپنا کردار ادا کریں اور کج روی سے پرہیز کرتے ہوئے مثبت رویوں اور مثبت رجحانات کو اپنائیں۔ تحریک کو اس کھٹن مرحلے سے نکال کر کامیابی سے ہمکنار کرنا ہی بلوچ قوم کے تمام تکالیف کا مداوا ہوگا اور اس کے لیے اجتماعی فکر سے لیس ہوکر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔