ایک قوم کیلئے تنظیم کی اہمیت – نودان بلوچ

2611

ایک قوم کیلئے تنظیم کی اہمیت
تحریر:نودان بلوچ

دنیا کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوگا کہ انسان بنیاد سے ایک تنظیم یا ایک نظام سے بندھا ہوا چلا آرہا ہے، ایک گھر بھی ایک نظام سے چلا آرہا ہے۔ گھر کے نظام کا سربراہ ماں باپ ہوتے ہیں، انسان ایک گھر سے بڑھ کر ایک خاندان کی شکل اختیار کرتا ہے، خاندان بھی ایک نظام سے چلتا آرہا ہے، اس نظام یا تنظیم کا سربراہ میر یا معتبر چلایا کرتا تھا یعنی انسان ایک خاندان سے ایک قبیلے کی شکل میں آیا۔ قبیلے کا نظام ایک سردار نواب یا ایک ملک چلایا کرتا تھا، پھر انسان قبیلے سے بڑھ کر کئی قبائل اور خاندانوں میں آیا، پھر یہ نظام یا تنظیم بادشاہت کی شکل میں آیا۔

پھر یہ تمام سردار، نواب، میر، معتبر بادشاہت کے ماتحت ہوگئے اور یہ نظام یا تنظیم کا سربراہ بادشاہ ہوا کرتا تھا، یہ تمام نظام یا تنظیم فرد واحد سے چلتے تھے۔

آیا یہ افراد نیک ایماندار اور مخلص تھے؟ اگر تھے تو وہ خاندان قبیلہ یا رعیت (عوام) خوشحال زندگی گزارتے تھے، اگر نا تو عوام ایک بدحال غلامی کی زندگی گزارتے تھے۔ کیونکہ یہ نظام یا تنظیمیں فرد واحد کی حکم سے چلتے ہیں، ان نظام میں فرد واحد کا حاکمی ہوتا تھا ایک بادشاہ ایک سردار یا میر کے خلاف بولنا اختلاف رائے رکھنا یا اظہار رائے کرنا جرم عظیم یا بغاوت تصور کرکے اس شخص کو دردناک سزا یا قتل کیا جاتا تھا۔

ان نظام میں انسان کو بس تابعداری اور ایک غلامی کی زندگی گزارنا پڑتا تھا اور انکے علاوہ بہت سے دوسرے گروہوں نے بھی حکمرانی کی ہے مثلا سرمایہ دار، جاگیردار یا مذہبی گروہوں نے بھی حکمرانی کی ہے۔ ان نظام یا تنظیموں میں انسان نے تابعداری یا غلامی یا بدحال زندگی گزارتے رہے ہیں۔ ان تمام تنظیموں یا نظام کے خلاف انسان نے بیزاری کا اظہار کرکے بغاوتیں کی ہیں۔ خونریزی ہوئی ہے، پھر انسان نے ایک آزاد زندگی گزارنے، محکومیت و غلامی سے پاک ایک نظام یا تنظیم کی تلاش کی، جو عوامی حاکمیت کا طرزنظام یا یعنی جمہوری طرز نظام یا جمہوری تنظیم یا جمہوری طرزحاکمیت یا جمہوری طرز اقتدار حاصل کی جو ابھی دنیا میں رائج ہے۔

جمہوری اقتدار یا جمہوری پارٹی میں جو قوم اور قومی رہنماوں نے اپنی قومی حاکمیت یا قومی پارٹی کو اپنے ذات سے بالاتر رکھ کر مخلص اور ایماندار رہے وہ قومیں ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور دنیا کے طاقتور ملک بن چکے ہیں، جن لوگوں نے قومی حاکمیت یا قومی پارٹی سے اپنے ذات کو بالاتر رکھ کر ترجیح دی قوم کے نام پر پارٹیاں بناکر قومی حاکمیت اقتدار حاصل کی، اپنی بزنس اور اپنی حاکمیت کو برقرار رکھا تو یہ قومیں بدحال اور بیچارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

بلوچ قوم گذشتہ کئی صدیوں سے قبائل میں تقسیم تھا اور اب تک ہے، قبائلی سرداری نظام رائج تھا، بادشاہت تک پہنچا قلات بادشاہت کا مرکز تھا لیکن بقول گل خان نصیر کے تاریخ میں ان کو کبھی جمنے نہیں دیا گیا، کئی سالوں تک خانہ جنگی ہوتی رہی ہر سردار اپنے اختیارات ایک دوسرے کو زیر کرنے میں لگایا ہوا تھا۔ پھر انگریز کا دور آیا، انگریزوں نے سرداروں کی اس رساکشی سے فائدہ اٹھاکر انکی نفسیات کو پڑھا، انگریز کو معلوم ہوا کہ بلوچ سرداران کو اپنی سرداری کے بقاء اور اختیارات کا جنون ہے، ناکہ قومی بقاء اس طرح انگریز بلوچ سرداروں کو اپنے تابع کرکے اپنی پالیسیاں مسلط کردے، جب کوئی سردار انگریز کو نہیں مانتا تھا تو انگریز نے ان کے دوسرے مخالف سردار کو تعاون کرنا شروع کیا، تو مخالف نے انگریز کے تعاون کو غنیمت جان کے اپنے بھائی پر ٹوٹ پڑتا، اس طرح سرداروں کی نااہلی اور خود غرضانہ سوچ سے بلوچستان میں انگریز نے اپنے مفادات کی غرض سے بلوچستان کو تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے، ایک حصہ ایران، ایک افغانستان، ایک پاکستان میں شامل کردیا۔

جب انگریز برصغیر یا ایشیاء سے جنگ عظیم دوئم میں ناکام ہوکر جا رہا تھا، تو ہندوستان کو دو جگہوں میں تقسیم کیا گیا، ایک حصہ پاکستان بنایا گیا، تقسیم ہند سے پہلے بلوچستان کو آزاد کیا گیا یعنی پاکستان کی بننے سے پہلے بلوچستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا گیا پھر جب پاکستان بنا پاکستان نے بھی انگریز کی طرز عمل کو اپنا لیا، اس طرح کسی سردار کو ورغلا کر کسی کو ڈرا کر کسی کو جھانسا دے کر بلوچستان کی آزاد حیثیت کو بکھیر دیا، پھر 28مارچ 1948کو لشکر کشی (فوج کشی) کر کے بلوچستان پر قبضہ کیا گیا، اس قبضے کو پاکستان الحاق یا اتحاد کہتا ہے لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کے یہ اتحاد یا الحاق نہیں بلکہ جبری قبضہ کہلائے گا، بلوچوں نے وقتا وقتا آزادی کیلئے تحریکیں چلائیں بغاوتیں کی جنگیں لڑیں لیکن پاکستان نے فوج کشی کر کے بے دردی سے بلوچ قوم کی نسل کشی کی بلوچ تحریکیں ہر بار وقتی ناکام ہوتی رہیں۔

بلوچ قوم کا موجودہ تحریک
بلوچ قوم کا موجودہ تحریک آزادی کی صورت حال پہلے کی تحریکوں کی نسبت بہتر اور سائنسی ہے، اب لوگوں میں شعور زیادہ ہے، تحریک آزادی پارٹیوں کی شکل میں 2000 میں تحریک شروع ہوئی، ابھی تک جاری ہے، بلوچ آزادی پسند رہنماوں نے سرزمین کے حالات دیکھ کر ہمارے زمین، زبان، رسم و رواج بچنے والے نہیں سوائے جنگ کے کیونکہ دشمن قابض ملک ایک فوجی زون ہے، ایک ڈیکٹیٹر ہے، اخلاقیات، انسانیت سے ختم ہوچکا ہے، اب ہمیں ایک گوریلا طرز عمل جنگ ہی بچا سکتا ہے کیونکہ ہماری جغرافیہ ہماری زمین صحیح ہے کہ ہم گوریلا جنگ سے دشمن کو شکست دے سکیں اور گوریلہ جنگ شروع کرنے کا مقصد یہ بھی تھا کے دشمن کی طاقت ہمارے طاقت سے بہت زیادہ تھا اور اُسکے دو بہ دو مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اسلیئے گوریلہ جنگی طرزعمل کو اپنایا گیا اور دشمن کے خلاف کاروائیاں شروں کی گئیں، اس جنگ میں آپسی اختلافات اور بزدل جہدکاروں کے سجدہ ریز ہونے کی وجہ سے کئی بار سُستی آئی لیکن اس جنگ کو جڑ سے ختم کرنے میں دشمن ناکام رہا اور انشااللہ ناکام رئیگا۔

اب چونکہ بلوچستان میں تحریک آزادی کی چار’پانچ پارٹیاں جدوجہد کررہے ہیں ایک ہی پروگرام (آزادی) کیلئے لیکن ابھی تک یکجا اتحاد کرنے میں ناکام رہے ہیں، وجہ کیا ہے؟ بہت مطالعہ کرنا پڑتا ہے مخلص کون ہے؟ غلط کون ہے؟ صحیح کون ہے۔ قوم کے تعلیم یافتہ طبقات، تعلیم یافتہ نوجوان، باشعور اشخاص اور نیک و خواص قلم کار، ڈاکٹر، وکیل سب کو پارٹیوں کا مطالعہ کرنا ہے، حقائق کو ڈھونڈنا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کے قوم کو ایک قومی پارٹی ہی آزادی دلا سکتا ہے، قوم کی بقا کا ضامن ہوسکتا ہے نا کے ایک بڑی شخصیت ایک ذاتی پارٹی نا ایک گروپ پارٹی قوم کے بقا کا ضامن ہو سکتا ہے۔ یہ پارٹیاں اپنے اپنے مفاد کے گرد گھومتی ہیں، قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، ایک قومی رہنما قوم کے ہر بچے کے باپ کی طرح ہوتا ہے، ہر وقت انکی بھلائی، خوشحالی اور بقا کیلئے سوچتا ہے، اپنا ذاتی مفاد پسِ پشت ڈال کر قومی مفاد کو ہزار درجہ ترجیح دیتا ہے۔

ایک قومی پارٹی کے خدوخال اور معیار
ایک قومی پارٹی پورے قوم کا ہوتا ہے، جو اس سرزمین سے ہو، نا کے ایک قبیلے کا یا ذات کا، نا مذہب یا بااثر شخص امیر و غریب کوئی بھی جتنا ہو سب برابر ہیں کسی کو ترجیحات کے بنیاد پر نہیں رکھا جاتا، سوائے کردار کے ایک نیک کردار شخص ضرور ترجیحات میں ہوتا ہے کیونکہ ایک قومی تحریک کو ایک نیک اور مخلص کردار شخص ہی منزل تک پہنچا سکتا ہے، ایک قومی پارٹی میں جتنے بھی قوم پرست رہنما یا کارکن ہیں، ایک قومی سوچ رکھتے ہیں، وہ قوم کے فلاح و بہبود اور بقا کیلئے کام کرتے ہیں، پارٹیاں بناتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کے قوم کی بقا و خوشحالی ایک مضبوط قومی ادارے، قومی اجتماعی قوت سے ہے نا کے گروپوں کی، قبیلوں کی شکل میں الگ الگ پارٹیوں سے ایک قومی قوت بن سکتا ہے، قوموں میں قوموں کی تحریک میں دو یا تین پارٹیاں بھی ہوسکتے ہیں، سب کا مقصد پروگرام (آزادی) ایک ہی ہوتا ہے لیکن حکمت عملی اور طریقہ کار میں اختلافات ہوتے ہیں یہ آگے جاکر ضرور ایک ہوسکتے ہیں کیونکہ سب کو قومی مفادات اور نقص کا احساس ہوتا ہے۔ طریقہ کار کی وجہ سے الگ جدوجہد کرتے ہیں، آگے جاکر سب کو تجربہ ہوگا کے کس طریقہ کار کو اپنانا ہے، کبھی ایک دوسرے پر منفی پروپیگنڈہ نہیں کرتے، وہ ہمیشہ حساس ہوتے ہیں کے ہاں کہیں ہمارے درمیان دشمنی پیدا نا ہو، آگے ضرور یکجا یا اتحاد ہوسکتا ہے، قوموں میں اس طرح کی پارٹیاں بھی ہوتے ہیں کہ کوئی بااثر شخص وڈیرہ حاکم ہوا کرتا تھا یا ہے اپنے وڈیرہ شاہی یا حاکمیت کو برقرار رکھنے کیلئے قومی پارٹی بناتا ہے، اس کو خطرہ بھی ہوگا کہ ایک قومی پارٹی ابھر کر آئے میرا زوال ہوگا۔ اس طرح قومی پارٹی کے نام پر ایک پارٹی کی بنیاد ڈالتا ہے اور جدوجہد کرتا ہے، اس طرح کی پارٹی سے قومی بقا اور تحفظ کا امکان نہیں ہوسکتا، یہ کبھی قومی مفاد کو ترجیح نہیں دیگا، بلکہ اصل قومی پارٹی کیلئے بھی نقصاندہ ہوگا اب بلوچ قومی تحریک آزادی کے جو پارٹیاں الگ الگ قومی آزادی کیلئے لڑرہے ہیں یا جدوجہد کر رہے ہیں ایک ہی پروگرام آزادی کیلئے لیکن یکجا اتحاد کرنے میں ناکام ہوئے ہیں، اس سے قوم میں مایوسیاں جنم لے رہے ہیں کیونکہ بلوچ قوم جو صدیوں سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، علمی اور سیاسی اعتبار سے بلکل نا ہونے کی برابر ہیں، اس طرح لیڈروں کی رساکشی کو دیکھ کر مایوس ہوجاتے ہیں، پھر دشمن آسانی سے ان اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے، کیا یہ نا اتفاقی ایک دوسرے پر منفی پروپیگنڈہ ایک متملی یا پروگرامی خدشات پر ہیں یا ہیروازم کا ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہو رہا ہے کہ قوم کا سر پرست میں رہوں بس میرا نام سرفہرست رہے یہ وہی گائے کا مثال ہے۔

کچھ لوگ اس شوہر کی طرح ہیں جس نے ابھی تک گائے تو نہیں لیا مگر بیوی کو اس لئے پیٹ رہے ہیں کہ اس نے کہا تھا کہ اگر گائے لوگے اور اسکو بچھڑا ہوا تو میں اسکےدودھ کی چھوائی کرونگی اور اس کے دودھ کی چھوائی سے گائے کا بچھڑا مر جائےگا، آزادی کیلئے پہلے لڑنا آزادی کیلئے لیڈروں اور قوموں کیلئے یہ نیگ شگن نہیں ہے، اگر خدشات تیسری پارٹی سے ہے کے قوم کے نام پر قوم پرستی کے چادر میں کہدائی یا اپنے وڈیرائی کو قائم کرنا ہے، درپردہ پارٹی کی پالیسیاں فیصلے فرد واحد یا وڈیرہ یا کہدہ کرتا ہے تو پھر اس طرح کی پارٹی سے اتحاد کرنا بھی تحریک کیلئے اچھی بات نہیں ہے، اس سے پرہیز کیا جائے تا کہ اصل قومی پارٹیوں پر غالب نا آجائے، پھر قومی مفاد کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

بلوچ قومی تحریک میں آئے روز تنظیموں میں اختلافات کی وجہ سے دوریاں بڑھ رہی ہیں، ایک دوسرے کو سمجھنے سے زیادہ ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں وقت گزاری جا رہی ہے، شخصیوں کو مقصد سے بالاتر سمجھا جا رہا، خود کو چھوڑ کر ہر کوئی دوسرے کو سمجھانے نکلا ہے، اس وجہ سے کارکن کم لیڈر زیادہ ہیں
یہ وہی شعر ہے کے۔۔۔

بندے نا ہونگے جتنے خُدا ہیں خُدائی میں۔
کس کس خدا کو سجدہ کرے کوئی۔