ایک عظیم بیٹی شہید شمس حاتون – سمیر بلوچ

322

ایک عظیم بیٹی شہید شمس حاتون

تحریر:سمیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

سمجھ میں نہیں آتا کہاں سے و کیسے شروع کروں؟ نا ہی میں کوئی بڑا لکھاری ہوں، ناہی کوہی زانتکار، بہت سے دانشوروں و لکھاریوں کے لکھنے کے طریقوں کو کاپی کرکے لکھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ مادر وطن کی ایک عظیم بیٹی کے بارے میں کچھ قلم بند کرسکوں، جو اپنی حرمت کی لڑائی میں انسانی صفات سے عاری دشمن کے قہر کی نظر ہو گئی۔

بلوچ سرزمیں پر قبضے کے بعد سے اب تک بلوچ ہر ساعت حالت جنگ میں رہی ہے، بلوچ قوم اس ناحق قبضے کے خلاف ہر وقت قابضین سے دست و گریباں رہا ہے۔ مادر وطن کو ایرانی و پاکستانی قبضہ گیریت و غلامی سے نجات دلانے کی اس جدوجہد میں ہزاروں بلوچ فرزند شہید ہوئے جن میں مرد، عورتیں،بچے، بوڑھے الغرض بلاامتیاز جنس و عمر سبھی شامل ہیں۔ ویسے تو بلوچستان کی آزادی کی اس جدوجہد میں ہر شہید کا کردارو مقام اپنی مثال آپ ہے۔ انہی شہیدوں میں سے ایک شہید شمس حاتون ولد یوسف سکنہ کیلکور ضلح پنجگور بھی ہیں۔

کیلکور پنجگور کا ایک انتہائی دورافتادہ و پسماندہ علاقہ ہے بچیاں تو بچیاں یہاں مردوں کی تعلیم کیلئے بھی برائے نام کوئی تعلیمی ادارہ نہیں، میرا جب بھی کبھی کیلکور جانا ہوتا تو وہاں اپنی قوم کے مستقبل یعنی بچوں کو دیکھتا تو دل خون کے آنسو رونے لگتا، بنا جوتوں کے پاوں، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ٹٹھرتی سردی میں جب بھی ان کو بکریاں چراتا دیکھتا، تو شدت کے ساتھ اپنی غلامی کا احساس ہوتا۔ یہی تو قابض کی دی ہوئی عنایات ہیں جو کسی طوق کی طرح ہمارے گلے میں لٹک رہی ہیں۔ ان باتوں سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ایک ایسے علاقے میں شہید شمس حاتوں کا بچپن کس طرح گزرا ہوگا۔

کیلکور میں جہد آزادی کی گونج اس وقت پہنچی جب گوران میں نونہال شہید سالم اور اس کے ساتھی شہید غنی جان، شہیدحلیم پاکستانی ڈسکواڈ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، جس کے بعد یہاں پہلی بار سیاسی عمل کی داغ بیل ڈالی گئی، جب شہدا گوران کی یاد میں کیلکور کے علاقے گڑگی میں عطیم الشان جلسے کا انعقاد کیاگیا، جلسے کی کامیابی کیلئے کیلکورکی پوری عوام نے اپنی گنجائیش کے مطابق بڑھ چڑھ کر کمک کی۔

شہید شمس حاتون نا کسی بلوچ قوم پرست پارٹی کی ممبر تھیں اور ناہی کوئی لکھی پڑھی لڑکی، وہ تو صرف ایک معصوم سادہ سی بلوچ لڑکی تھی. شہید کا گھر بلا تفریق ہروقت بلوچ آزادی پسند کے لیئے کھلا رہتا، چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ممبرہو یہ لوگ دل کھول کر بلوچ جہدکاروں کی حمایت کرتے تھے، جب بھی کوئی بلوچ سرمچار ان کے گھر آتا تویہ لوگ جہد کاروں کے ہرطرح کی کمک کیا کرتے تھے. ان کےواستے کھانا تیار کرنے سے لے کر ان کے کپڑے دھونے، نہانےکے لیے پانی کابندوبست کرنے تک حالانکہ کیلکور جیسے علاقوں میں خواتین گھروں سے دو دو کلومیٹر کی دوری پر موجود گہرے کنوؤں سے پانی نکال کر لایا کرتی ہیں۔ تعلیم نہ سہی لیکن بلوچ آزادی کی جنگ میں دیہاتوں کو جو مرکزیت حاصل رہی ہے، اس نے وہاں کے لوگوں کو قومیت کے شعور سے ضرور سرشار کیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں پے کام کرنے والے سرمچاروں کو لوگوں کے دلوں میں جو عزت ملی ہے وہ قابل دید ہے۔ ورنا آج کے زمانے میں تو سگی بہن بھی اتنی خدمت سے اکتا جائے۔

16اگست2017 کا وہ دن کہ جب شمس حاتون اپنے گدان میں بیھٹی اپنے عید کی کپڑے سی رہی ہونگی اور دل ہی دل سوچوں میں گم ہونگی کہ اس بار اپنے عید کے کپڑوں پہ سب سے عمدہ کشیدہ کاری کرونگی۔ جب عید کے دن ذکرخانے میں ذکر پڑھنے جاوں تو تمام سہیلیوں کی نطریں میرے لباس کی عمدگی کو ہی تکتی رہیں۔ پر دور حاضر کے خداوں کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

16اگست کی دوپہر جب شدت گرمی نے ہر ایک کو اپنے گھروں کے اندر بیھٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اچانک پاکستانی وحشی فوج کے دوہیلی کاپڑ فضا میں نچلی پرواز کرتے ہوئے نمودار ہوتے ہیں اور شمس ھاتون کے گھر کے نزدیک شیلنگ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ سبھی مرد عورتیں اور پچے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور اپنی جانیں بچانے کیلے دوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ شمس حاتوں کی ماں ان سے گھر سے باہر نکنے کا کہتی ہے تو شہید انہیں جواب دیتی ہیں کہ اب وہ مارنے آئیں ہیں تو ماریں گے چاہے ہم گھر کے اند رہیں یا باہر، ہم بےبس ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے. یہ بزدل ہمارے جہدکار بھائیوں کےساتھ مقابلہ نہیں کرسکتے اسی لیے دل کی بھڑاس عام آبادیوں پر شیلنگ کرکے نکال رہے ہیں۔ اب چاہے وہ گھر کو تباہ کردیں یا بمباری کر کے اسے جلادیں، مجھے کوئی پرواہ نہیں دشمن کو بھی پتاچلے کہ ہم بھی ان عظیم جہدکاروں کی بہنیں ہیں، جو ڈر و خوف نامی کسی بھی لفظ سے شناسا نہیں۔ موت کو گر آنا ہے تو آنے دو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔

ابھی شہید دروازے کے قریب بیٹھی اپنی امی سے باتیں ہی کررہی تھیں کہ ایک ہیلی کاپٹر نے لکڑیوں و گاس پھوس سے بنے گدان پر شیلنگ کرنا شروع کردیا، دروازے کے نزدیک بیھٹی شمس حاتون کو دو گولیاں لگیں، ایک گردن پر اور ایک کمر پر جس کے باعث وہ شدید زخمی ہوگئیں، انہیں فوراً ایک مقامی کلینک لے جایا گیا۔

شاہد آپ لوگوں کو پتہ ہو کہ مقوبضہ بلوچستان کے سب سے بڑے شہر کوئٹہ کے ہپستالوں میں علاج کی سہولہتیں صرف نام ہی کی حد تک موجود ہیں، تو آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیلکور جیسے ایک دور افتادہ دیہات میں جہاں سردرد و بخار کیلئے گولی اور شربت تک میسر نہیں وہاں دو گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والی کسی مریض کا علاج کیسے ممکن ہوگا۔ بہت زیادہ خون بہنے و بروقت علاج نا ہونے سے شمس حاتون زندگی کی بازی ہار گئیں اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔

پر ستم ظرفی تو دیکھیں کہ اس کے اگلے ہی دن بلوچستان میں وحشت کی علامت پاکستانی فرنیٹر کور کی جانب سے ایک پریس ریلیز میڈیا میں جاری ہوتی ہے کہ ضلع پنجگور کے علاقہ کیلکور میں بلوچ دہشتگردوں کے ایک ٹھکانے کو تباہ کیا گیا اور ایک کمانڑر کو بھی ہلاک کر دیا گیا ہے. جابر و وحشی پاکستانی فوج کی نظر میں سبھی بلوچ پیر و کساں، زن و مرد، بچے بوڑھے ہر کوئی دہشتگرد ہے کہ جن کو نسیت و نابود کئے بغیر اس کے مذموم عزائم کی تکمیل ممکن نہیں۔ جس کی شہید شمس حاتون ایک زندہ مثال ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔