افغان طالبان نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ جعلی اور فراڈ تخریب کار گروپوں سے ملاقاتیں کرنے سے باز رہے کیونکہ بقول اُس کے ایسے رابطوں سے اصل مزاکرات کے عمل کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
افغان طالبان کی طرف سے امریکہ کو یہ وارننگ ذرائع ابلاغ کے ذریعے آنے والی ان طلاعات کے بعد سامنے آئی ہے جن میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے بگرام اور دبئی میں نامعلوم سینئر طالبان اہلکاروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں امریکہ سے مذ اکرات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے نہ تو بگرام کا دورہ کیا ہے اور نا ہی دبئی میں کوئی ملاقات کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سفارتکاری کیلئے طالبان کا ’’سیاسی دفتر‘‘ قطر میں قائم ہے اور امریکہ یا دیگر ممالک اس دفتر کے ذریعے باآسانی رابطہ کر سکتے ہیں۔
طالبان کے ترجمان نے مزید کہا کہ یہ ممکن ہے کہ مالی یا دیگر فوائد کے لالچ میں کچھ افراد نے امریکہ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہو اور خود کو’ اسلامی سلطنت‘ کا نمائندہ ظاہر کیا ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکہ پہلے بھی کئی بار اس طرح بے وقوف بن چکا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان اس سے پہلے آخری باضابطہ رابطہ گذشتہ جولائی میں ہوا تھا جب امریکی محکمہ خارجہ کی سینئر اہلکار ایلس ویلز نے طالبان کے قطر میں قائم دفتر میں ابتدائی نوعیت کی بات چیت کی تھی۔ یہ ملاقات طالبان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ براہ راست مزاکرات کے اصرار کے بعد ہوئی تھی۔
طالبان نے قطر میں ایلس ویلز کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا تھا۔ تاہم اس ملاقات کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان مزید بات چیت ممکن نہیں ہو سکی تھی۔
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ امریکہ نے افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحتی بات چیت کیلئے زلمے خلیل زاد کو امریکہ کا خصوصی نمائیندہ مقرر کیا ہے۔ 67 سالہ زلمے خلیل زاد کو امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے زمانے میں افغانستان اور عراق میں سفیر مقرر کیا گیا تھا۔